Saturday, April 2, 2016

عقیدوں کا روگ اور غریب عوام

جنوری ۲۲ 

 عقیدوں کا روگ اور غریب عوام

سندھ نامہ سہیل سانگی


سندھ کے اخبارات نے سندھ حکومت پر تنقید کہ وہ راہداری کے معاملے میں سندھ کا کیس ٹھیک سے رکھ نہیں پائی۔ اس کے علاوہ سعودی ایران تضاد اور پاکستان کا ثالثی کے کرداراور سانحہ چار سدہ بھی زیر بحث رہے۔ اخبارات نے سندھ کرمنل رپاسیکیوشن قانون میں صوبائی حکومت کی جانب سے کی گئی ترمیم کو بھی کوئی اچھا شگون قرار نہیں دیا ۔ یہ ترمیمی قانون گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی نے منظور کر لیا ہے۔ 

 روزنامہ عبرت ”عقیدوں کا روگ اور غریب عوام “کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ دنیا بایو میٹرک تک پہنچ گئی ہے لیکن سندھ کے دیہات تاحال اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال گرہوڑ شریف کے پاس کھاہی کے مقام پر پیش آنے والے ایک واقعہ سے ملتی ہے۔ خبر کے مطابق لیموں کولہی کی آٹھ سالہ بیٹی کھیمی کو مرگھی کے دورے پڑتے تھے۔ جس کو والدین جنات کا اثر سمجھنے لگے۔ انہوں نے ایک عامل کو بلایا کہ کسی طرح سے ان کی بچی کو اس مصیبت سے نجات دلائے۔ جعلی عامل نے روایتی ٹونے کرتے ہوئے معصوم بچی کو آگ کے الﺅ میں ڈال دی جس میں بچی کا ستر فیصد جسم جل گیا۔ اور وہ بینائی سے بھی محروم ہوگئی۔ 

 سندھ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اس طرح کے اندھے عقیدوں پر مشتمل واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں جن میں سے چند ایک پر ہی میڈیا کی نظر پڑتی ہے۔ یہاں پر متعدد افراد ایسے نظر آئیں گے جو ذرا بھی پیداواری عمل کا کام نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود جاگیروں اور جائدادوں کے مالک ہیں۔ کیونکہ ان کا واحد کاروبار عقیدوں کے ذیعے لوگوں کو لوٹنا ہے۔ اس لوٹ مار کو روکنے کے لئے ملکی قانون کہیں بھی آڑے نہیں آتا۔ غریب لوگ کم علمی اور سماجی پستی کے باعث عقیدوں کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والوں کی حاضری بھرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اس طرح کے بڑھتے ہوئے مسائل پر غور کرنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے سنجیدگی سے اس پر بھی کسی فورم میں بیٹھ کر غور نہیں کیا کہ صوبے میں جو خونی تصادم اور قبائلی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ان کی ا صل وجہ کیا ؟ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی اور اہل فکر و دانش اس پر غور کرتے تو اب تک نہ صرف اس کی وجوہات کا پتہ لگ جاتا بلکہ حل بھی تلاش کرلیاجاتا۔

 کھاہی کے مقام پر جو واقعہ ہوا وہ غلط تھا۔ اس پر حکومت اور سول سوسائٹی کو سوچنا چاہئے۔ ویسے اس طرح کی سوچ کو اجاگر کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ جس میں بڑی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ اگر کھیمی کولہی کے والدین کے پاس پیسے ہوتے ، وہ شاید اس جعلی عامل کے چکر میں نہیں پڑتے۔ جب انسان کے پاس کوئی موثر ذریعہ نہیں ہوتا، وہ خود کو دلاسہ دینے کے لئے ایسے اقدامات کرتا ہے۔ اگر اس واقعہ میں ہم جعلی عامل کو قصوروار سمجھتے ہیں تو حکمرانوں کو بھی اس الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ان والدین کو معصوم قرار دیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب مل کر اپنی آنے والی نسل کو جہالت کے اندھیروں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہم سب کو ان عقیدوں اور ان کی وجوہات کے خلاف جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اب دنیا میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں، انسان سیاروں کو تسخیر کر رہا ہے ہم ہیں کہ معمولی مرض کی تشخیص کرنے سے قاصر ہیں۔ 

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صرف بے اختیار منتخب حکومت کو ملکی بحران کے لئے ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔ ریاست پر قابض اصل افراد کا احتساب ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا ہ عوام اور غیر منتخب نمائندوں کے درمیان طاقت کا توازن جمہوریت کے لئے سب سے بڑا چیلینج ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادارے عوام کی مرضی کے تابع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ سندھی وزیراعظم کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ 

 پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ قیام پاکستان سے لیکر مختلف طبقات اٹھاتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہونے چاہئیں یا غیر منتخب افراد یا اداروں کے پاس؟ اختیارات کی اس رسا کشی میں ملک اور ملی ادارے ترقی نہیں کر سکے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوا نہیں ہے اور کوئی بھی اپنے حصے کا فرض ایمانداری سے نبھانے کے لئے تیار نہیں۔ 

 منتخب جمہوری حکومتیں صورتحال کے لئے آمریتوں کو ذمہ دار قرار دیتی رہی ہیں۔ جبکہ فوجی اداروں کے نزدیک اس کے لئے سیاسی اور سویلین حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ اس سے اختلاف نہیں کای جا سکتا کہ جب بھی منتخب حکومت آئی ہے تو اس کا تمام وقت عوام کے لئے کام کرنے کے واسطے اختیارات حاصل کرنے میں صرف ہوتا رہا ہے۔ ان کوششوں میں اکثر سویلین حکومتوں کو اقتدار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ اگر کسی نے آئینی مدت پوری بھی کی ہے، انہیں یہ شکوہ رہا ہے کہ انہیں نہ خارجہ پالیسی میں نہ سیکیورٹی پلایسی اور نہ ہی کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کا ا ختیار رہا ہے۔ ان اختیارات کی جنگ میں جب سویلین حکومتیں اقتدار کھو بیٹھتی ہیں تو ان کے خلاف فائیلیں کھل جاتی ہیں۔ پھر وئی قید ہو جاتا ہے تو کوئی بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ 

 بلاشبہ عدلیہ اور غیر سویلین اداروں کی کاروائیاں صرف سویلین اور منتخب حکومتوں اور افراد کے خلاف ہوتی رہی ہیں۔ اب صورتحال کا نئے سرے سے جائزہ لینے اور موثر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بار بار کے بحرانوں سے بچا جاسکے اور ملکی ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن ہو سکے۔ 

1 comment:

  1. جعلی عامل نے گرہوڑ شریف کے پاس کھاہی کے مقام پر روایتی ٹونے کرتے ہوئے معصوم بچی کو آگ کے الﺅ میں ڈال دی جس میں بچی کا ستر فیصد جسم جل گیا۔ اور وہ بینائی سے بھی محروم ہوگئی۔
    - صرف بے اختیار منتخب حکومت کو ملکی بحران کے لئے ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔ ریاست پر قابض اصل افراد کا احتساب ہونا لازمی ہے۔

    ReplyDelete