Thursday, April 21, 2016

روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 22, 2016 
روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
پاناما لیکس اور اس کے بعد بدنام ڈاکو غلام رسول عرف چھوٹ کے خلاف آپریشن کی وجہ سے سندھ میں مختلف ادارے کاروائیاں کر رہے تھے وہ یا سرد پڑ گئی ہیں یا پھر ان کو میڈیا میں مطلوبہ جگہ نہیں مل پارہی ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں اورنگی کے علاقے میں پولیو ٹیم کے محافظ پولیس اہلکاروں ککو قتل کردیا گیا۔ جس سے ایک بار پھر اس دہشتزدہ شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پولیو کے خاتمے کی مہن بھی رولے میں پڑ گئی۔ عدلیہ کا رویہ بھی سندھ حکومت کے بارے میں سخت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب سپریم کورٹ میں یہ ریمارکس سننے کو ملے کہ جب تک مسٹر شاہ ہیں تب تک حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے کہ سندھ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکومت اربوں روپے کے ٹھیکے غیر قانونی طور پر دے رہی ہے۔ انہوں نے اپنے ریماکرس میں یہ بھی کہا کہ صوبے کا انفرا سٹرکچر تباہ ہے اور ہاتھوں سے سندھ کو تباہ کیا جارہا ہے۔ عدلیہ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ابھی بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ 

 روزنامہ کاوش ”روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر “کے موضوع پرلکھتا ہے کہ ایسا کون سا ادارہ ہے جو بے ضابطگی سے بچا ہوا ہو، ایسا کونسا منصوبہ ہے جو اس بے ضابطگی کا شکار نہ ہوا ہو۔ جس معاملے سے پردہ اٹھتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی حقیقت ظاہر ہوتی ہے جس پر افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایک ایسے نظام میں رہ رہے ہیں جہاں بے ضابطگیوں پر حیرت نہیں بلکہ افسوس ہوتا ہے۔ حیرت تب ہو جب کوئی عمل پہلی مرتبہ ہو۔ یہاں قدم قدم پر بے ضابطگیاں ہیں۔ اور معاملات خراب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ روشن سندھ منصوبے کے حوالے سے منظر پر آیا ہے۔ 

سولر لائیٹیں لگانے کے اس منصوبے کی حالت یہ ہے کہ ٹھیکیڈار نے دو سال تک یہ لائیٹیں خراب نہ ہونے کی گارنٹی دی تھی۔ مگر اکثر لائیٹیں وقت سے پہلے خراب ہوگئیں۔ محکمہ خزانہ کے اعتراضات کے باجود ٹھیکیدار کو 67 کروڑ روپے جاری کردیئے گئے۔ صوبے میں بیس ہزار لائیٹیں لگانے کے لئے پانچ ٹھیکیداروں کو یہ رقم جاری کی گئی ہے۔ 

 لگتا ہے کہ اس منصوبے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا ہے جو اکثر معاملات میں کیا جاتا ہے، یعنی میرٹ کو ٹھکرا نا۔ تقرر ہو یا تبادلہ، یا پھر کوئی ترقیاتی کام کا ٹھیکہ ۔ یہاں بھی کر پسندیدہ اور ناتجربیکار افراد کو نوازا گیا۔ کہیں بھی میرٹ نہیں چلتی۔ جب میرٹ نہیں چلے گی تو یہی نتائج نکلیں گے، جو روشن سندھ منصوبے میں سامنے آئے ہیں۔ یہ منصوبہ سندھ کو روشن کرنے کے لئے تھا، لیکن میرٹ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے سندھ کو اندھیرے میں دھکیل کر ایک اور ناانصافی کی گئی۔ 

 یہ منصوبہ ایسا ہی تھا جیسا پڑھا لکھا پنجاب کا منصوبہ۔ جس سے وہاں کی شرح خواندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ پنجاب میں سستی روٹی کی اسکیم بھی شروع کی گئی، لیکن یہ اسکیم حکومت کو بہت مہنگی پڑی۔ یعنی کوئی بھی اسکیم شروع کریں اس کے نتائج الٹ آتے ہیں۔ اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ یقیننا کہیں نہ کہیں اثر رسوخ استعمال ہوا ہے۔ 

 روشن سندھ اکیم میں ایک باثر ٹھیکدار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ نتائج اسکیم کے مقاصد سے الٹ آئے۔ پھر بھی پتہ نہیں ٹھیکیدار کی کونسی ادا بھا گئی کہ اسے ادائگی کردی گئی۔ ٹھیکے کے شرائط میں یہ طے تھا کہکام میں ایسا معیار رکھا جائے گا کہ دو سال تک لائیٹیں کراب نہیں ہونگی۔ جب یہ لائیٹیں وقت سے پہلے خراب ہونا شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اس ٹیکیدار سے حساب لینا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے اسے ادائگی کردی گئی۔ 
 یہ ہے سندھ کی صورتحال جہاں محکمہ تعلیم نے ویسے ہی اندھیرا پھیلا رکھا ہے، لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگوں کو سورج کی روشنی سے چلنے والی لائیٹیں مہیا کرنے کا منصوبہ بھی اندھیرے کا شکار ہوگیا۔ اس بااثر ٹھیکیدار سے ناقص سامان کی فراہمی اور استعمال پر احتساب ہونا چاہئے۔ اور یہ تمام کام اس سے بطور جرمانہ دوبارہ کرانا چاہئے۔ 

 ”پھر خواجہ صاحب جواب ہی سمجھیں؟“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں اغوا انڈسٹری عروج پر ہے۔ لیکن یہاں پر کوئی چھوٹو گینگ نہیں ہے جس کے لئے فوج طلب کرنی پڑے۔ نہیں معلوم کی پولیس 9 سال گزرنے کے بعد بھی ٹھل کے علاقے گڑھی حسن سے اغوا ہونے والی فضیلہ سرکی کو بازیاب نہیں کراسکی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات کو پولیس کسی حساب میں نہیں لاتی، لیکن ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر پہچانے جانے والے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی بے بسی سمجھ میں نہیں آتی۔ انہوں نے چارج لینے کے فروا بعد فضیلہ کے والد سے رابطہ کر کے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان کی بچی کو جلد بازیاب کرالیا جائے گا۔ 

فضیلہ کی بازیابی کے لئے ناکام آپریشن کے بعد اس فرض شناس افسر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ” پھر خواجہ صاحب اب جواب ہی سمجھیں؟“۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے لیکن یہاں قانون سماعت اور بصارت بھی کھو بیٹھا ہے۔ کہ کسی مقدمے میں نامزد ملزمان بھی اسے نظر نہیں آتے۔ اے ڈی خواجہ نے جب چارج لیا تھا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ پولیس اب گڑبڑ نہیں کر سکے گے۔ شاید فضیلہ کے اغوا کاروں کو سلیمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں کہ وہ پولیس کو نظر نہیں آتے۔ 

جب کسی محکمے کے اہلکار فرائض میں کوتاہی کریں تو کسی طور پر بھی اس محکمے کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس محکمے کے اکثر ملازمین اس محکمے کے قیام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو عوام کے ٹیکس پر اس طرح کی مصیبتیں
 پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ فضیلہ سرکی کا اغوا ہو یا عمران جوکھیو کی گمشدگی، کیا ان کے ورثاءاور احتجاج کرنے والوں کو فوج طلب کرنے کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔ پولیس سے عوام پہلے ہی ناامید تھے اب لوگ فرض شناس افسر اے ڈی خواجہ سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ ان کی امیدیں ختم ہو رہی ہیں۔ 

1 comment:

  1. خواندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ پنجاب میں سستی روٹی کی اسکیم بھی شروع کی گئی، لیکن یہ اسکیم حکومت کو بہت مہنگی پڑی۔
    - پھر خواجہ صاحب جواب ہی سمجھیں؟“

    ReplyDelete