Friday, April 1, 2016

مردم شماری غیر معینہ مدت تک ملتوی



سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
گزشتہ روز سندھ کے دارلحکومت کراچی میں سندھ پروفیسرز انیڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی جانب سے محکمہ تعلیم میں کرپشن اور خراب حکمرانی کے خاتمے، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی اپ گریڈیشن ، سنیئر اساتذہ کو انتظامی عہدوں پر تقرری کے مطالبات تسلیم کرنے کے لئے احتجاج کیا گیا۔ اس موقعہ پر کمشنر کراچی نے ان سے مذاکرات بھی کئے۔ جس کی ناکامی کے بعد اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چار کیا اور واٹر کین کا بھی استعمال کیا۔ کسی بھی جمہوری دور میں احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور متعلقہ حکام تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن کراچی میں جس طرح سے سندھ بھر سے آئے ہوئے اساتذہ کا استقبال کیا گیا یہ عمل کسی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اساتذہ کے پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک الگ سوال ہے۔ لیکن پرامن احتجاج کرنے والے نہتھے اساتذہ پر تشدد نے آمریت کے دور کی یاد تازہ کردی۔ جس میں کسی کو بھی پرامن احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 
 اس میں شک نہیں کہ مجموعی طور پر سندھ میں تعلیم مکمل طور پر تباہ ہے۔ پرائمری سے کالج تک تعلیم کا برا حال ہے۔ کئی اسکول زبون حال ہیں۔ کئی اسکولوں اور کالجوں کو چودیواری نہیں ، کہیں بچے نہیں تو کہیں اساتذہ نہیں۔ بعض اسکول وڈیروں کی اوطاق یا مال بے باڑے بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیم کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار زوروں پر ہے۔ تعلیم کی اس زبون حالی کی ذمہ داری صرف کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی۔ حکومت، اساتذہ، والدین اور طلباءسب کو مل کر تعلیم کی بہتری کے لئے اپنا کرادار ادا کرنا پڑے گا۔ ہر سال تعلیم کی مد میں کروروڑوں روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے لیکن یہ نظام آکسیجن پر ہی چل رہا ہے۔ 
 جہاں تک اساتذة کے احتجاج کی بات ہے، اس ضمن میں حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری رکنی چاہئیں۔ تاکہ معاملہ احتجاجوں تک نہ پہنچے ۔ پھر بھی اگر کہیں احتجاج ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت نہتھے مظاہرین پر مظالم
نہ ڈھائے۔
 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ صوبے کے مختلف علاقوں میں بچوں میں خسرے کی بیماری پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ حیدرآباد کے دیہی علاقے میں یہ مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں کئی بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ٹنڈو جام کے قریب گوٹھ سانون گوپانگ میں تین بہن بھائی اس مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔ اس کے بعد علاقے میں دکھ اور خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس قسم کی مسلسل خبریں شایع ہو رہی ہیں لیکن محکمہ صحت کوئی تدارک نہیں کر رہا۔ ہر مرتبہ موسم تبدیل ہونے پر اس قسم کی بیمایریاں عام ہونے لگتی ہیں۔ ان امراض کی ویکسین کا اعلان تو کیا ہوا ہے لیکن عام آدمی کو اس سہولت کا پتہ نہیں۔ محکمہ صحت کی غیر ذمہ داری، مقامی ہسپتالوں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ویکسین کی سہولت ہر بچے تک نہیں پہنچ پاتی۔ 
 جب کوئی بیماری گاﺅں کے گاﺅں لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور معصوم بچوں کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں، تب محکمہ صحت کا کوئی نام نشان تو نظر آنا چاہئے۔ ا فسو یہ ہے کہ اس طرح کی بیماریاں غریب طبقے میں زیادہ ہوتی ہیں جنہیں بہتر علاج کی سہولیات حاصل نہیں۔ حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ خسرے کی بیماری کے علاج کے لئے فوری طور پر اقدامات کرے اور اس کے ساتھ ساتھ موسم کی تبدیلی پر پیدا ہونے والی بیماریوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کرے تاکہ معصوم بچوں کی زندگی اور ان کو پہنچنے والی تکالیف سے بچا جا سکے۔ 
 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ کے شدید اعتراضات کے باوجود مشترکہ مفادات کی کونسل نے نے مردم شماری کا معاملہ غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا ہے۔ مردم شماری اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے ملک میں رہنے والے افراد، صوبوں میں آبادی کے رجحان، ملک کے انرونی علاقوں میں نقل مکانی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مردم شماری اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی بنیاد پر قومی مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم، قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم اور اضافہ کرنا، داخلوں اور ملازمتوں میں صوبوں کا کوتہ مقرر کران شامل ہوتا ہے۔ ان معاملات کا تعین مردم شماری کی تفصیلات آنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اٹھارہ برس سے مردم شماری کا معاملہ التوا میں پڑا ہواہے۔ جس کی وجہ سے مندرجہ بالا معاملات بھی لاتوا کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب مردم شماری پر رضامند نہیں۔ پنجاب کے مقابلے میں دوسرے صوبوں میں آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں جہاں ملک بھر کے مصیبت زدہ لوگ آکر آباد ہپوئے۔ یہاں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس لئے سندھ میں ڈیٰموگرافی تبدیل ہو چکی ہے، جس کے اثرات معاشی، سماجی، ثقافتی اور امن و امان کے حوالے سے گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف حکومت سندھ ہی نہیں سندھ کے قوم پرست حلقے اس ضمن میں مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ لہٰذا سندھ کے اس مطالبے کو وزن دینا چاہئے۔ سندھ چاہتا ہے کہ مردم شماری کراکے معاملات کا صحیح اداراک کیا جائے۔ اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کی جائے تاکہ مختلف تضادات کا پر امن اور جائز حل نکل سکے۔ 

No comments:

Post a Comment