Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی
اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، بنگالی بابا، عطائی ڈاکٹرز اور مردانہ بیماریوں کے اشتہارات
روزنامہ عوامی آواز ’’اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، بنگالی بابا عطائی ڈاکٹرز اور مردانہ بیماریوں کے اشتہارات‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت سکندرو مندھرو نے جمعرات کے روز سندھ اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ صوبے میں غیر قانونی ہسپتالیں چل رہی ہیں۔ ان غیر قانونی ہسپتالوں کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جہاں بھی عطائی ڈاکٹرز ہوں عوام ان کی نشاندہی کرے۔ صوبائی وزیر صحت نے محکمہ صحت میں موجود لاتعداد خرابیوں میں سے ایک خرابی خرابی کو بیان کیا ہے ۔ یقیننا یہ خرابی نہایت ہی اہم ہے۔ وزیرصھت کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عوام عطائی ڈاکٹروں کی نشاندہی کریں اور حکومت سے تعاون کریں۔
جس طرح سے عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے لئے تاریخ پر تاریخ دے کر شنوائی بھگتائی جاتی رہی ہیں اور برسوں تک یہ سلسلہ چلتے رھنے کے بعد عوام مجبور ہو کر جراگہ کرنے والے وڈیروں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ جہاں زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر معاملہ کو نمٹا کر جزا اور سزا کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ بلکل اس طرح سندھ خواہ ملک کے دیگر صوبوں میں صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اصل اکٹر کے بجائے لوگوں نے عطائی ڈاکٹر کی طرف رخ کیا۔ نقلی ادویات جو اصلی ڈاکٹروں کی پرچی پر ملتی ہیں وہی ادویات نقلی ڈاکٹر کی پرچی پر بھی مل جاتی ہیں۔
عوام اس طرح کی بیگانگی کے حکومتی رویے کے بعد خود کو ’’ اوجھڑی کیمپ ‘‘ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ پھر ان کے جسم عطائی ڈاکٹروں کے حوالے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت کے فیصؒ ے بغیر ڈگری کے ہوتے ہیں ۔
وزیر صحت جو خود بھی پوسٹ کریجوئیٹ ڈاکٹر ہیں ایک عرصے تک بدین خواہ بیرون ملک مریضوں کی شفا کے لے کوشاں رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کا تقرر اس مثبت نتائج کی بنیاد پر کی جائیں کہ صوبے کے تیس اضلاع میں ایک ہی دن میں ان عطائی ڈاکٹروں کو قابو کیا جائے۔ ۔ ایسا کرنے سے سندھ کو ایک بہت بڑے عذاب سے نجات مل جائے گی۔ عطائی ڈاکٹروں کے لئے سزائیں کیا ہیں؟ ان سے سماج کو کتنا ڈر ہے؟ وہ سب سامنے رکھے جائیں س۔ کیونکہ جب تک ان سزاؤں کے بارے میں آگہی پیدا نہ کی جائے گی۔
صوبے میں’’ مردانہ اور زنانہ کمزوریوں‘‘ کے اشتہارات سے لیکر بنگالی بابا کے ٹوٹکوں تک کے اشتہارات سے جان نہیں چھوٹتی، تب تک یہ کروبار یونہی چلتا رہے گا۔ صوبے کے ہر شہر میں دیواروں پر ان نیم حکیم خطرہ جا کے اشتہاروں پر پابندی بھی عائد کی جائے۔
مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت
روزنامہ کاوش ’’مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ سمبلی نے متحدہ کی مخالفت کے باوجود سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی قراردادبل منظور کر لیا۔ فنکشنل لیگ کے ایم پی اے نند کمار کے پیش کردہ قرارداد متحدہ قومی موومنٹ کے سرادر احمد نے اعتراض کیا اور کہا کہ پاکستان صرف ایک ہی زبان کا ملک ہونا چاہئے۔ حکمران جماعت کے بعض اراکین نے ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی طرف سے انہیں بولنے کا موقعہ نہ دینے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
سندھی زبان کو بقا کے حوالے سے خطرات درپیش ہیں ۔ سرکاری شعبے کے اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں کی تعلیم تباہ ہے۔ نجی اسکولوں میں سندھی پڑھانے اور سکھانے پر غیر اعلانیہ بندش ہے۔ اس صورتحال میں جب نئی نسل جوان ہوگی تو وہ سندھ زبان لکھنے اور پڑھنے سے بے بہرہ ہوگی۔ اس ضمن میں مختلف حکمران نمائشی ا علانات سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون موجود ہونے کے باوجود نویں اور گیارہویں جماعت کے غیر سندھی طلبہ کو سندھی کی لازمی تدریس یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔لسنای طور پر احساس کمتری کا شکار ہونے کی وجہ سے سندھ کے منتخب ایوان میں تقاریر اور کارروائی بھی سندھی میں نہیں ہوتی۔ صوبائی بجٹ بھی سندھی میں پیش کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔
ہم ہمیشہ اس رائے کے رہے ہیں کہ پاکستان کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ لیکن ایک بالادست ذہنیت ہمیشہ اس راہ میں رکاوٹ رہی ہے۔ یہی ذہنیت مشرقی پاکستان سے بنگلادیش تک کے سفر کا باعث بنی۔ قیام پاکستان کے ٹھیک ایک ماہ بعد پندرہ ستمبر 1947 کو ’’ مجلس تمدن‘‘ کے مطالبے کے بعد بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی تحریک شروع ہوئی۔ کیونکہ بنگالی عوام کا خیال تھا کہ ان کی زبان ملکی آبادی کے نصف سے زیادہ کی زبان ہے۔ اس تحریک کو 1952 میں ڈھاکہ یونیور سٹی کے طلباء نے اپنی جانیوں کا نذرانہ دے کر تقویت بخشی۔ یہ تحریک اردو کو ملک کی واحد قومی زبان قرار دینے کے کے اعلان کے ردعمل میں چلی تھی۔
1954 میں یہ تحریک کامیاب ہوئی اور بنگالی کو اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان قرار دیا گیا۔ یوں پاکستان کا یک زبان ملک ہونے کا مفروضہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب سندھی سمیت تمام مادری زبانوں کے ساتھ وہی روش رکھی جا رہی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ بھارت میں سندھ کو قومی زبان کی حثیت ھاصل ہے۔ لیکن اپنی دھرتی پر یہ زبان اپنی حیثیت سے محروم ہے۔
برطانوی دور میں 29 اگست 1857 میں سندھی کو سندھ کی واحد سرکاری زبان کا فرمان جاری کیا تھا۔ بعد میں اپنے ہی حکمرانوں نے سندھی زبان سے اس کی یہ حیثیت چھین لی۔
پاکستان کثیر زبان ریاست ہے۔ یہاں پر مادری زبانوں کو ان کے جائز حق سے محروم کرنا ملکی استحکام اور یکجہتی سے کھیلنے کے برابر ہے۔ ہمارے حکمران ماضی سے سبق لینے کے لئے تیار نہیں۔
آج پیپلزپارٹی بھی سندھ کو قومی زبان قرار دینے کی باتیں کر رہی ہے لیکن یہ سب کچھ نمائشی ہے جب مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اور اٹھارہویں ترمیم منظور کی جارہی تھی ، کیا اس وقت یہ معاملہ آئینی طور رپ حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اگر تب تمام مادری زبانوں کو قومی زبان تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا تو یہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ سندھ میں نجی اسکولوں میں سندھی کی تدریس پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کی جائے ۔ سندھ نہ پڑھانے والے نجی ا سکولوں کی رجسٹریشن ختم کی جانی چاہئے۔ کم از کم یہ کام تو سندھ حکومت کر سکتی ہے۔
ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن: وزراء اور اسمبلی ممبران حساب دیں
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے جو شکایات عوام کرتے رہے ہیں اس کے ثبوت ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ امن و مان سے لیکر انفرا اسٹرکچر تک
جو تباہ حالی ہے اس کی ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ہی آتی ہے۔ ترقیاتی کاموں میں جو کرپشن کی گئی اور اس کے ذریعہ نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ اسکی تازہ مثال سکھر میوزیم ہے۔ جس کے نام پر کروڑہا روپے خرچ کئے گئے لیکن سرزمین پر میوزیم موجود ہی نہیں۔
حال ہی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شکوہ کیا کہ ریکارڈ میں دکھایا گیا ہے کہ سکھر میں اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن سرزمین پر کوئی ترقی اور ترقیاتی منصوبہ موجود ہی نہیں۔
وزیر اعلی کو چاہئے کہ ترقیاتی منصوبوں میں جو کرپشن ہوئی ہے اس کا حساب وہاپنے وزراء اور اسمبلی ممبران سے ہی لیں۔ کیونکہ یہ کام انہی کی نرانی میں ہوئے ہیں۔
روزنامہ نئی بات ۔ یکم اکتوبر
urducolumnsonline
http://www.urducolumnsonline.com/suhail-sangi-columns/239770/gaer-qanooni-hospitalon-kay-khatmay-kay-leye-iqdamaat
Nai Baat
http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/01-10-2016/details.aspx?id=p13_03.jpg