Monday, September 26, 2016

اندرون سندھ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi


اندرون سندھ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ 

سندھ نامہ سہیل سانگی
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ نے کالعدم تنظیموں کے کارکنوں اور کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کلین اپ کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ انتہا پسندی کو رد کیا ہے۔ لیکن اب صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں مذہبی جماعتوں کے اثر کے بڑھنے، بغیر قانون سازی اور رجسٹریشن کے مدارس کی تعداد میں اضافہ، بلوچستان سے دہشتگردوں کی آمد، غربت اور جہالت دہشتگردی کے اہم وجوہات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس لئے مجرموں اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 



کابینہ نے مدارس کی رجسٹریشن، اور امن و امان سے متعلق مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر شکارپور کے واقعہ اور بلوچستان سے دہشتگردوں کی سندھ آمد پر تفصیلی غورکیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ سندھ کے کچے میں مختلف گروہ سرگرم ہونے کے ساتھ کالعدم تنظیموں کے افراد کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ لہٰذا سکھر اور لاڑکانہ ڈویزن کے کچے میں رینجرزاور پولیس کی مدد سے آپریشن کلین اپ کیا جائے گا۔ 


دہشتگرد کئی مرتبہ شکارپور کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں جمع نماز کے دوران باہر سے آنے والے دہشتگرد بمبار نے دھماکہ کرنے بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ عیدالایضحیٰ کے موقعہ پر خانپور میں کچھ دہشتگرد اس طرح کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے دہشتگردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے بعد انہوں نے اپنی پناہ گاہیں تبدیل کردی ہیں۔ ان کو بعض جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ کیونکہ دہشتگرد اور تخریب کار اس کے بغیر اپنا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں بنا سکتے۔ 
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ منبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ بعض جماعتیں اپنے مفادات کے لئے تخریب کاروں کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تخریبکاروں کے ساتھ روابط ہیں۔ جس کا فوری تدارک کیا جانا چاہئے۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کے ساتھ اس کو اندرونی مدد اور حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو چیف جسٹس کے ان ریمارکس کو نظر میں رکھتے ہوئے ایسے علاقوں میں بھی کارروائی کرنی پڑے گی جہاں دہشتگردوں کے سہولتکار موجود ہیں۔ 



حکومت مدارس کی رجسٹریشن کے لئے قانونسازی بھی کی جارہی ہے۔ جس کے تحت رجسٹریشن کا اختیار محکمہ داخلا اور مذہبی امور کو دیا جائے گا۔ جبکہ نئے مدرسے کی تعمیر کے لئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ڈپٹی کمشنر کی این اور سی ضروری ہوگی۔ 


کابینہ نے اچھے فیصلے کئے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی طرح ان کو پائپ لائن میں ڈال کر چھوڑنے کے بجائے ان پر فوری عمل کیا جائے۔ کیونکہ شکارپور، کشمور اور گھوٹکی اضلاع کے کچے میں بدنام ڈاکوؤں کے گروہ اغوا، تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں سرگرم ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی گروہ دہشتگردوں کے سہولتکار بنتے ہوں۔ شمالی سندھ میں قبائلی جھگڑوں نے بھی امن وامان کی صورتحال کو خاصا خراب کیا ہوا ہے۔ جس کا شرپسند بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لہیٰذا دہشتگردوں، سہولتکاروں اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ملزمان کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے۔ 


کرپشن کے خلاف غیر معمولی اقدامات کی ضرورت
روزنامہ کاوش’’ گورننس اور اداروں کی کارکردگی‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ ہمارے ملک میں ادارے جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کا اندازہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے مختلف اوقات میں دیئے جانے والے ریمارکس اور فیصلوں سے ہوتا ہے۔ نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے یاد دلایا ہے کہ آئین میں تمام داروں کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت موجود ہے۔ اگر تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اور تماما دارے اگر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بدامنی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ 



ترتیب اور تنظیم متوازن طریقے کے لئے ضروری ہے۔ یہیراستہ ترقی اور بقا کی طرف جاتا ہے۔ جبکہ انتشار اور بے ترتیبی فنا اور تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ اصول سماج خواہ حکومت پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ 


عوام کو بہتر حکمرانی سے ہی کچھ دیا جاسکتا ہے۔ یہ تب ممکن ہے جب ادارے آئین میں متعین فرائض اور ذمہ داریوں کے مطابق فعال ہوں۔ جب ادارے اس تعلق سے خود کو دور کر دیتے ہیں تو ملک اداروں کا قبرستان بن جاتا ہے۔ دراصل ملکی آئین اور قانون سے بے خوفی کی وجہ سے کرپشن نے اداروں کو اپاہج بنا دیا ہے۔اب کرپشن کا خاتمہ رواجی اقدامات سے ممکن نظر نہیں رہا۔ حالت یہ ہے جو ادارے انسداد کرپشن کے لئے قائم کئے گئے تھے وہ ادارے بھی کرپشن کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کی مدد کان کرے گا؟ عوام جب انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو عدالتی فیصلوں پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ اور یہ جواز دیا جاتا ہے کہ اداروں کے کام میں مداخلت کی جارہی ہے۔ 
کرپشن وہ بیماری ہے جس کے خلاف ہر دور کی حکومتیں واویلا کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں لی گئی۔ ملک میں
مسلسل کرپشن کا موسم چھایا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سرطان سے نجات کے لئے معمولی اقدامات کے بجائے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ 



سندھ مہمان پرندوں کی پناہ گاہ نہیں شکارگاہ
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ کو شکار گاہ ہونے سے بچایا جائے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ موسم سرما کی چند ہفتوں بعد آمد ہے ۔ جب سائبیریا سے مہمان پرندے یہاں کا رخ رکنے والے ہیں۔ ان پرندوں کا شکار کرنے کے لئے ابھی سے شکاریوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سندھ بھر میں کارتوسوں کی فروخت میں اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ ان مہان پرندوں کا شکار صرف مقامی لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ خلیج اور عرب ممالک کے دولتمند بھی یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان غیر ملکی شکاریوں کے کیمپ لگانے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اب سندھ پرندوں اور نایاب جانوروں کی پناہ گاہ نہیں بلکہ شکارگاہ بن گیا ہے۔ سندھ کے پرانے پروفائل تبدیل کرنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ بعض بااثر مقامی لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔ محکمہ وائلڈ لائیف جس کی ذمہ داری ان پرندوں اور اجنوروں کا تحفظ ہے، اس محکمہ کا عملہ خود ان شکاریوں کی مدد کرتا نظر آتا ہے۔ 
حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ وہ اس ضمن میں موثر اور عملی اقدامات کرے اور سندھ کو وائلڈ الئیف  
کی شکارگاہ نہیں بلکہ پناہ گاہ بنائے۔

روزنامہ نئی بات 23 ستمبر 

No comments:

Post a Comment