سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’روزنامہ کاوش ‘‘ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف ملک میں شرح خواندگی کم ہے بلکہ یہاں کا تعلیمی نظام موجودہ تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کو چھوڑ کر سندھ کا تعلیمی معیار ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں بہت پیچھے ہے۔ یہاں تک کہ کشمیر اور بلتستان میں بھی تعلیمی معیار کے حوالے سے سندھ سے آگے ہیں۔
صوبے میں تعلیم کی اتنی ابتری پر تنقید کے بعد اکابرین نے یہ حل نکالا ہے کہ صوبے میں دو سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ اس کی حتمی منظوری وزیراعلیٰ سندھ دیں گے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے بعد کالج، اور اسکولوں کے اساتذہ کے احتجاج اور بائکاٹ پر پادبندی ہوگی۔ گریڈ 20 تک کے افسران کو وزیر تعلیم برطرف یا معطل کرنے کا مجاز ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر تعلیمی اداروں پر چھاپے مار سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں کلاسوں کے بائکاٹ پر پابندی ہوگی۔
ملکی آئین کے آرٹیکل 25 A کے مطابق پانچ چھ سال سے سولہ سال تک بچوں کی تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ اور اس کے لئے ریاست ذمہ دار ہے۔ یہ ذمہ داری ریاست کتنے احسن طریقے سے نبھاتی رہی ہے ، اقام متحدہ کی رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اقوام متحدہ نے 2000 میں ملینیم گول کا تعین کیا تھا جس میں سے ایک گول تعلیم بھی تھا۔ 2015 تک اس گول کو حاصل کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان ایجوکیشنل ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی۔ لیکن یہ اقدامات بستر مرگ تک پہنچنے والے تعلیمی نظام کو تندرست نہیں کر سکے۔ ترقی یافتہ معاشرے تعلیم پر سرمایہ کاری کر کے سماج پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی ملک میں دفاع کے برابر ہی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن جس ملک میں مجموعی پیداور کا 2 فیصد تعیلم پر خرچ ہو، وہاں تعلیم کے پھیلاؤ، کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟ جس ملک کے پان سے سولہ سال تک کی عمر کے بچے کوئی متن یا کہانی نہ پڑھ سکتے ہوں۔ جبکہ پچاس فیصد بچے ایک جملہ بھی نہ پڑھ سکتے ہوں، وہاں تعلیمی معیار کیا ہوگا؟ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت تعلیم پر اتنی بھی رقم خرچ نہیں کرتی جتنی پی آئی اے، اسٹیل مل، یا پیپکو کو سبسڈی دیتی ہے۔
دنیا کے 26 ملک جو پاکستان سے زیادہ غریب ہیں وہ بھی بچوں کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تعلیم دلا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم عام کرنے یا اس کا معیار بہتر کرنے کے لئے وسائل اتنے اہم نہیں جتنی نیت اہم ہے۔ سندھ میں صورتحال اور بھی بدتر ہے۔ جس کے لئے منتظمین نے تعلیم ایمرجنسی کا نسخہ تجویز کیا ہے۔ اس پر دو رائے نہیں کہ تعلیم کی جتنی تباہی گزشتہ آٹھ سال کے دوران ہوئی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میڑت کو ایک طرف پھینک کر اہلیت کا جنازہ نکالا گیا۔کرپشن کو فروغ دیا گیا۔ حکومت مختلف وقت پر غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کے اعترافات بھی کرتی رہی۔ محکمہ تعلیم کے منتظمین کی اہلیت، صلاحیت اور نیک نیتی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ وہ بند اسکول بھی نہیں کھلوا سکے۔ صرف اساتذہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے یا ان کی توہین کرنے سے بہتر نہیں ہوگی۔ تعلیم کی تباہی کے اسباب انتظامی ہیں۔
نجی اسکولوں کے فروغ نے بھی سرکاری اسکولوں کی تعلیم کو تباہ کرنے میں بھرپور کردار دا کیا۔ کرپشن عروج پر پہنچ گئی۔ ہزاروں اساتذہ ’’ویزا‘‘ پر چلے گئے ۔ جس سے انتظامی افسران کی کامئی کا ایک اور ذریعہ نکل آیا۔ سرکاری اسکولوں کے استاتذہ کو غیر ھاضر، غائب اساتذہ کا نام دے کر نجی اسکولوں کے لئے سازگار ماحول بنایا گیا۔ یہ صورتحال مدارس کے فروغ کا بھی باعث بنی۔ عاملی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے مہیا کئے گئے فنڈز کہاں گئے؟ سندھ کی تعلیم کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار صرف اساتذہ نہیں منتظمین بھی ہیں۔ کیا تعلیمی ایمرجنسی اعلیٰ منتظمین کے لئے بھی ہوگی؟ یا وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہونگے؟
ہم تعلیم کے اصلاح احوال کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ناخوش نہیں۔ لیکن معاملات کو جتنا سہل سمجھا جارہا ہے اتنے سہل نہیں ہیں۔ تعلیم کی بہتری کے لئے ہنگامی اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔ لیکن اس اہم اور اصل معاملے کو نظرانداز کای جارہا ہے۔ جب تک گورننس کا معیار بہتر نہیں ہوتا تب تک یہ ایمرجنسی بھی مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکے گی۔
منچھر جھیل کو آلودگی سے بچائیں کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے آبی ذخائر کی خراب صورتحال پر نہ صرف ماحول دوست بلکہ سماجی حلقے آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ اس وقت صوبے کی جھیلوں اور دیگر آبی وسائل کی صورتحال بہت خراب ہے۔
کینجھر سے لیکر منچھر تک کئی جھیلیں اپنی خوبصورتی کھو بیٹھی ہیں۔ منچھر کو پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے ماہیگیر عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کی تھی کہ منچھر کو آلودگی سے بچایا جائے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اس جھیل میں مسلسل زہریلا پانی چھوڑا جارہا ہے جس سے حالت مزید ابتر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں کمشنر حیدرآباد نے منچھر کا دورہ کیا اور بتایا کہ اس جھیل کی بحالی کے لئے ایک جامع منصوبہ بنا کر سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ طویل عرصے سے ماہیگیر منچھر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی تشویش کا کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کا زہریلا پانی سندھ میں خراج کیا جاتا ہے یا یہاں کے آبی ذخائر میں ڈالا جاتا ہے جس سے یہاں کے آبی ذخائر آلودہ وہتے جارہے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف لوگوں کے ذرائع روگار پر بلکہ مجموعی معیشت، غربت اور زندگیوں اور صحت پر بھی اثرانداز ہو رہی ے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر س منچھر سمیت صوبے کے دیگر آبی ذخائر میں دوسرے صوبوں کے آلودہ پانی کا اخراج بند کیا جائے اور اس صوبے کے آبی ذخائر کو بچانے اور ان کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ گزشتہ روز کراچی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جلسے کے موقعہ پر شاہراہ فیصل چھ گھنٹے تک بلاک رہا۔ اس بلاک کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد گھروں تک پہنچنے کے لئے پریشان رہے سینکڑون افراد پروازوں پر پہنچ نہ سکے۔
یہ صورتحال آئے دن ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ہزاوں لوگوں کو بلاوجہ زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ احتجاج اپنی جگہ پر لیکن اس سے عام لوگوں کو تکلیف دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ احتجاج کرنے والوں کو عوام کے اس تکلیف اور پریشانی کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔
دس ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’روزنامہ کاوش ‘‘ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف ملک میں شرح خواندگی کم ہے بلکہ یہاں کا تعلیمی نظام موجودہ تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کو چھوڑ کر سندھ کا تعلیمی معیار ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں بہت پیچھے ہے۔ یہاں تک کہ کشمیر اور بلتستان میں بھی تعلیمی معیار کے حوالے سے سندھ سے آگے ہیں۔
صوبے میں تعلیم کی اتنی ابتری پر تنقید کے بعد اکابرین نے یہ حل نکالا ہے کہ صوبے میں دو سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ اس کی حتمی منظوری وزیراعلیٰ سندھ دیں گے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے بعد کالج، اور اسکولوں کے اساتذہ کے احتجاج اور بائکاٹ پر پادبندی ہوگی۔ گریڈ 20 تک کے افسران کو وزیر تعلیم برطرف یا معطل کرنے کا مجاز ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر تعلیمی اداروں پر چھاپے مار سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں کلاسوں کے بائکاٹ پر پابندی ہوگی۔
ملکی آئین کے آرٹیکل 25 A کے مطابق پانچ چھ سال سے سولہ سال تک بچوں کی تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ اور اس کے لئے ریاست ذمہ دار ہے۔ یہ ذمہ داری ریاست کتنے احسن طریقے سے نبھاتی رہی ہے ، اقام متحدہ کی رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اقوام متحدہ نے 2000 میں ملینیم گول کا تعین کیا تھا جس میں سے ایک گول تعلیم بھی تھا۔ 2015 تک اس گول کو حاصل کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان ایجوکیشنل ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی۔ لیکن یہ اقدامات بستر مرگ تک پہنچنے والے تعلیمی نظام کو تندرست نہیں کر سکے۔ ترقی یافتہ معاشرے تعلیم پر سرمایہ کاری کر کے سماج پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی ملک میں دفاع کے برابر ہی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن جس ملک میں مجموعی پیداور کا 2 فیصد تعیلم پر خرچ ہو، وہاں تعلیم کے پھیلاؤ، کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟ جس ملک کے پان سے سولہ سال تک کی عمر کے بچے کوئی متن یا کہانی نہ پڑھ سکتے ہوں۔ جبکہ پچاس فیصد بچے ایک جملہ بھی نہ پڑھ سکتے ہوں، وہاں تعلیمی معیار کیا ہوگا؟ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت تعلیم پر اتنی بھی رقم خرچ نہیں کرتی جتنی پی آئی اے، اسٹیل مل، یا پیپکو کو سبسڈی دیتی ہے۔
دنیا کے 26 ملک جو پاکستان سے زیادہ غریب ہیں وہ بھی بچوں کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تعلیم دلا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم عام کرنے یا اس کا معیار بہتر کرنے کے لئے وسائل اتنے اہم نہیں جتنی نیت اہم ہے۔ سندھ میں صورتحال اور بھی بدتر ہے۔ جس کے لئے منتظمین نے تعلیم ایمرجنسی کا نسخہ تجویز کیا ہے۔ اس پر دو رائے نہیں کہ تعلیم کی جتنی تباہی گزشتہ آٹھ سال کے دوران ہوئی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میڑت کو ایک طرف پھینک کر اہلیت کا جنازہ نکالا گیا۔کرپشن کو فروغ دیا گیا۔ حکومت مختلف وقت پر غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کے اعترافات بھی کرتی رہی۔ محکمہ تعلیم کے منتظمین کی اہلیت، صلاحیت اور نیک نیتی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ وہ بند اسکول بھی نہیں کھلوا سکے۔ صرف اساتذہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے یا ان کی توہین کرنے سے بہتر نہیں ہوگی۔ تعلیم کی تباہی کے اسباب انتظامی ہیں۔
نجی اسکولوں کے فروغ نے بھی سرکاری اسکولوں کی تعلیم کو تباہ کرنے میں بھرپور کردار دا کیا۔ کرپشن عروج پر پہنچ گئی۔ ہزاروں اساتذہ ’’ویزا‘‘ پر چلے گئے ۔ جس سے انتظامی افسران کی کامئی کا ایک اور ذریعہ نکل آیا۔ سرکاری اسکولوں کے استاتذہ کو غیر ھاضر، غائب اساتذہ کا نام دے کر نجی اسکولوں کے لئے سازگار ماحول بنایا گیا۔ یہ صورتحال مدارس کے فروغ کا بھی باعث بنی۔ عاملی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے مہیا کئے گئے فنڈز کہاں گئے؟ سندھ کی تعلیم کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار صرف اساتذہ نہیں منتظمین بھی ہیں۔ کیا تعلیمی ایمرجنسی اعلیٰ منتظمین کے لئے بھی ہوگی؟ یا وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہونگے؟
ہم تعلیم کے اصلاح احوال کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ناخوش نہیں۔ لیکن معاملات کو جتنا سہل سمجھا جارہا ہے اتنے سہل نہیں ہیں۔ تعلیم کی بہتری کے لئے ہنگامی اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔ لیکن اس اہم اور اصل معاملے کو نظرانداز کای جارہا ہے۔ جب تک گورننس کا معیار بہتر نہیں ہوتا تب تک یہ ایمرجنسی بھی مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکے گی۔
منچھر جھیل کو آلودگی سے بچائیں کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے آبی ذخائر کی خراب صورتحال پر نہ صرف ماحول دوست بلکہ سماجی حلقے آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ اس وقت صوبے کی جھیلوں اور دیگر آبی وسائل کی صورتحال بہت خراب ہے۔
کینجھر سے لیکر منچھر تک کئی جھیلیں اپنی خوبصورتی کھو بیٹھی ہیں۔ منچھر کو پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے ماہیگیر عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کی تھی کہ منچھر کو آلودگی سے بچایا جائے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اس جھیل میں مسلسل زہریلا پانی چھوڑا جارہا ہے جس سے حالت مزید ابتر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں کمشنر حیدرآباد نے منچھر کا دورہ کیا اور بتایا کہ اس جھیل کی بحالی کے لئے ایک جامع منصوبہ بنا کر سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ طویل عرصے سے ماہیگیر منچھر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی تشویش کا کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کا زہریلا پانی سندھ میں خراج کیا جاتا ہے یا یہاں کے آبی ذخائر میں ڈالا جاتا ہے جس سے یہاں کے آبی ذخائر آلودہ وہتے جارہے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف لوگوں کے ذرائع روگار پر بلکہ مجموعی معیشت، غربت اور زندگیوں اور صحت پر بھی اثرانداز ہو رہی ے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر س منچھر سمیت صوبے کے دیگر آبی ذخائر میں دوسرے صوبوں کے آلودہ پانی کا اخراج بند کیا جائے اور اس صوبے کے آبی ذخائر کو بچانے اور ان کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ گزشتہ روز کراچی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جلسے کے موقعہ پر شاہراہ فیصل چھ گھنٹے تک بلاک رہا۔ اس بلاک کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد گھروں تک پہنچنے کے لئے پریشان رہے سینکڑون افراد پروازوں پر پہنچ نہ سکے۔
یہ صورتحال آئے دن ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ہزاوں لوگوں کو بلاوجہ زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ احتجاج اپنی جگہ پر لیکن اس سے عام لوگوں کو تکلیف دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ احتجاج کرنے والوں کو عوام کے اس تکلیف اور پریشانی کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔
دس ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات
No comments:
Post a Comment