Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
Sep 2, 2016
کوٹا سسٹم کا کیا قصور؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’ترقی کا رکا ہوا سفر جاری رہنا چاہئے‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی نمائندگان کی حلف برداری کے بعد یہ نظام بحال ہو چکا ہے ۔ اس نظام کو نچلی سطح تک عوام کو اختیارات کی منتقلی، مقامی سطح پر اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مقامی قیادت کو اہمیت دی جارہی تھی۔ آج سندھ کے چھوٹے بڑے شہر مسائل کے جس دباؤ میں ہیں وہاں ان اداروں کا خص کردار بنتا ہے۔ جو عیاسی جماعتیں یا گروپ جیت کر آئے ہیں انہیں ان کو اس نظام میں بلاامتیاز وہ کام کر کے دکھانا ہے جو عوام کی بھلائی میں ہو۔ اور یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ ادارے نچلی سطح پر عوام کی نمائندگی کا حقیقی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ کا تمام انفرا اسٹرکچر اس وقت کھنڈر بنا ہوا ہے۔
بیشمار ایسے مسائل ہیں جن کے لئے کوئی اقدام کرنے کے بجائے بلدیاتی ادارو ں کی بحالی کا انتظار کیا جارہا تھا۔ اب جب یہ نظام بحال ہو چکا ہے ، کراچی سمیت سندھ بھرکے نمائندوں کو ہم کیا بتائیں کہ ان کے شہروں اور دیہات کا کیا حال ہے؟ ان نمائندگان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر اور بلاامتیاز حل کریں۔ ماضی میں اکثر مقامات پر ایسا ہوتا رہا کہ جو گروپ جہاں سے جیتا اس نے صرف وہیں پر ترقیاتی کام کرائے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے معاملات اور چھوٹے موٹے منصوبے بلاوجہ متنازع ہوگئے۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ماضی میں ان بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور شفافیت کی وجہ سے کچھ اچھی ساکھ نہیں رہی۔
اس موقعہ پر ہم صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے آپس کے تعلقات کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی مسائل ہیں جو بلدیاتی اداروں کو حکومت سندھ کے علم میں لانے پڑیں گے۔ بعض معاملات میں ان اداروں کو صوبائی حکومت کی رہنمائی کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سندھ کے عوام چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ بلدیاتی ادارے بلا تفریق کام سرانجام دے کر مثال قائم کریں کہ واقعی ان اداروں کی نچلی سطح کے کاموں کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ ارسا نے پانی میں کٹوتی کے خلاف سندھ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے سندھ کو پانی معاہدے کی شق 2 یعنی دستیابی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ اس درخواست پر فیصلے کے دوران بلوچستان نے بھی پنجاب کا ساتھ دیا۔ درخواست میں حکومت سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ حالیہ بارشوں کے بعد سندھ نے پانی کی ضرورت ایک لاکھ 80 ہزار کیوسکس کے بجائے ایک لاکھ 70 ہزار کیوسکس کردی ہے ۔ اگر اس مقدار سے بھی کم پانی ملا تو صوبے کی زراعت کو نقصان پہنچے گا جس کے معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
سندھ کے نمائندے نے ارسا کے ممبران کو بتایا کہ واپڈا کی جانب سے ڈیم نہ بھرنے کی سزا سندھ کو نہ دی جائے۔ سندھ کو اس وقت پانی کی شدید ضرورت ہے۔ جب کہ پنجاب کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیم بھرنا ضروری ہیں۔ اس کے بعد صوبوں کو پانی دیا جائے گا۔ اس موقعہ پر بلوچستان کے نمائندے نے شکایت کی کہ سندھ اس کے صوبے کے پانی میں کٹوتی کر رہا ہے۔ ارسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ میں لاسز 20 فیصد سے بھی کم ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں۔ پنجاب اس سے پہلے تقریبا ہر مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے دریائے سندھ سے پانی لیتا رہا ہے اور اس کے ذریعے اپنی لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرتا رہا ہے۔ اس کے عوض سندھ کی زمینیں غٰر آباد اور بنجر بنتی گئی۔ صورتحال یہ جا ٹہری کہ 1991 کے پانی کی تقسی کے معاہدے کے باوجود ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا۔ نتیجے میں بدین اور ٹھٹہ ضلع میں لاکھوں ایکڑ زمیں نمکیات سے بھر گئی اور اتنی ہی زمین سمندر برد ہوگئی۔ سندھ بھر لوگ پینے کے پانی کے کئے ترس رہے ہیں۔ مختلف کینالز، شاخوں میں وارابندی چل رہی ہے۔ سکھر خیرپور اور دیگر اضلاع میں کاشتکار احتجاج کررہے ہیں۔
سندھ کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ ارسا چشمہ جہلم لنک کینال اور پنجند بند کرائے۔ مگر پنجاب کسی طور پر یہ بات سننے کو تیار نہیں۔ پنجاب چشمہ جہلم کینال کے ذریعے ہزاروں ایکڑ پانی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے واالا نہیں۔ ایسے میں سندھ اگر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو پانی دیا جائے تو پہلے ڈیم بھرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ارسا کا کام صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن جس انداز میں فیصلے کئے جارہے ہیں اس سے ہر مرتبہ جانبداری جھلکتی ہے۔ پنجاب کا محل وقع دریائے سندھ کے بالائی حصے میں ہے۔ لہٰذا پانی کے معاہدے خواہ کچھ بھی ہوں اس کے لئے کسی بھی وقت اضافی پانی لینا مشکل نہیں رہا۔ سندھ اس حوالیس مسلسل شکایات کرتا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک اور رکاوٹ بن رہا ہے بین لاصوبائی ہم آہنگی میں۔
روزنامہ کاوش کوٹا سسٹم کا کیا قصور کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں دیہی علاقوں کی پسماندگی کے پیش نظر شہری اور دیہی فرق ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم رائج کیا تھا۔ جس کی مدت میں ہر حکومت توسیع کرتی رہی ہے۔ اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کسی حد تک دیہی علاقوں کے نوجوان کسی حد تک تعلیمی اداروں میں داخلے سے لیکر ملازمتوں تک حق حاصل کر سکے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف اب تک صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی آواز اٹھاتی رہی ہے۔ جس کا مینڈیٰٹ بمشکل دو یا تین شہروں تک محدود ہے۔ لیکن اس مرتبہ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی تجویز ایپیکس کمیٹی میں ڈٰ ی جی رینجرز کی طرف سے پیش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں سے احساس محرومی ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ضروری ہے۔
سندھ کے دیہات میں حالت ابتر ہے۔ غربت کی صورتحال یہ ہے کے لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ دیہی علاقوں کی معیشت مکمل طور پر زراعت پر مبنی ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ شعبہ معیشت میں مطلوبہ کردار ادا
نہیں کر پا رہا ہے۔ دیہات میں معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کا میڈیٹ ، خواہ منتخن دور ہو یا آمریت، ایم کیو ایم کے پاس ہی رہا ہے۔ لہٰذا یہ جماعت براہ راست یا بلواسطہ طور پر ہر دور میں اقتدار میں شریک رہی ہے۔ ایسے میں شہری علاقوں میں احساس محرومی کی بات کرنا ناقابل فہم ہے۔
شہری علاقوں میں صنعتی ملازمتوں سے لیکر کاروبار تک تمام مواقع موجود ہیں۔ لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں کونسے مواقع ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دراصل دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس میں کوٹہ سسٹم کا کیا قصور؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’ترقی کا رکا ہوا سفر جاری رہنا چاہئے‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی نمائندگان کی حلف برداری کے بعد یہ نظام بحال ہو چکا ہے ۔ اس نظام کو نچلی سطح تک عوام کو اختیارات کی منتقلی، مقامی سطح پر اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مقامی قیادت کو اہمیت دی جارہی تھی۔ آج سندھ کے چھوٹے بڑے شہر مسائل کے جس دباؤ میں ہیں وہاں ان اداروں کا خص کردار بنتا ہے۔ جو عیاسی جماعتیں یا گروپ جیت کر آئے ہیں انہیں ان کو اس نظام میں بلاامتیاز وہ کام کر کے دکھانا ہے جو عوام کی بھلائی میں ہو۔ اور یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ ادارے نچلی سطح پر عوام کی نمائندگی کا حقیقی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ کا تمام انفرا اسٹرکچر اس وقت کھنڈر بنا ہوا ہے۔
بیشمار ایسے مسائل ہیں جن کے لئے کوئی اقدام کرنے کے بجائے بلدیاتی ادارو ں کی بحالی کا انتظار کیا جارہا تھا۔ اب جب یہ نظام بحال ہو چکا ہے ، کراچی سمیت سندھ بھرکے نمائندوں کو ہم کیا بتائیں کہ ان کے شہروں اور دیہات کا کیا حال ہے؟ ان نمائندگان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر اور بلاامتیاز حل کریں۔ ماضی میں اکثر مقامات پر ایسا ہوتا رہا کہ جو گروپ جہاں سے جیتا اس نے صرف وہیں پر ترقیاتی کام کرائے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے معاملات اور چھوٹے موٹے منصوبے بلاوجہ متنازع ہوگئے۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ماضی میں ان بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور شفافیت کی وجہ سے کچھ اچھی ساکھ نہیں رہی۔
اس موقعہ پر ہم صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے آپس کے تعلقات کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی مسائل ہیں جو بلدیاتی اداروں کو حکومت سندھ کے علم میں لانے پڑیں گے۔ بعض معاملات میں ان اداروں کو صوبائی حکومت کی رہنمائی کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سندھ کے عوام چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ بلدیاتی ادارے بلا تفریق کام سرانجام دے کر مثال قائم کریں کہ واقعی ان اداروں کی نچلی سطح کے کاموں کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ ارسا نے پانی میں کٹوتی کے خلاف سندھ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے سندھ کو پانی معاہدے کی شق 2 یعنی دستیابی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ اس درخواست پر فیصلے کے دوران بلوچستان نے بھی پنجاب کا ساتھ دیا۔ درخواست میں حکومت سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ حالیہ بارشوں کے بعد سندھ نے پانی کی ضرورت ایک لاکھ 80 ہزار کیوسکس کے بجائے ایک لاکھ 70 ہزار کیوسکس کردی ہے ۔ اگر اس مقدار سے بھی کم پانی ملا تو صوبے کی زراعت کو نقصان پہنچے گا جس کے معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
سندھ کے نمائندے نے ارسا کے ممبران کو بتایا کہ واپڈا کی جانب سے ڈیم نہ بھرنے کی سزا سندھ کو نہ دی جائے۔ سندھ کو اس وقت پانی کی شدید ضرورت ہے۔ جب کہ پنجاب کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیم بھرنا ضروری ہیں۔ اس کے بعد صوبوں کو پانی دیا جائے گا۔ اس موقعہ پر بلوچستان کے نمائندے نے شکایت کی کہ سندھ اس کے صوبے کے پانی میں کٹوتی کر رہا ہے۔ ارسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ میں لاسز 20 فیصد سے بھی کم ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں۔ پنجاب اس سے پہلے تقریبا ہر مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے دریائے سندھ سے پانی لیتا رہا ہے اور اس کے ذریعے اپنی لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرتا رہا ہے۔ اس کے عوض سندھ کی زمینیں غٰر آباد اور بنجر بنتی گئی۔ صورتحال یہ جا ٹہری کہ 1991 کے پانی کی تقسی کے معاہدے کے باوجود ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا۔ نتیجے میں بدین اور ٹھٹہ ضلع میں لاکھوں ایکڑ زمیں نمکیات سے بھر گئی اور اتنی ہی زمین سمندر برد ہوگئی۔ سندھ بھر لوگ پینے کے پانی کے کئے ترس رہے ہیں۔ مختلف کینالز، شاخوں میں وارابندی چل رہی ہے۔ سکھر خیرپور اور دیگر اضلاع میں کاشتکار احتجاج کررہے ہیں۔
سندھ کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ ارسا چشمہ جہلم لنک کینال اور پنجند بند کرائے۔ مگر پنجاب کسی طور پر یہ بات سننے کو تیار نہیں۔ پنجاب چشمہ جہلم کینال کے ذریعے ہزاروں ایکڑ پانی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے واالا نہیں۔ ایسے میں سندھ اگر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو پانی دیا جائے تو پہلے ڈیم بھرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ارسا کا کام صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن جس انداز میں فیصلے کئے جارہے ہیں اس سے ہر مرتبہ جانبداری جھلکتی ہے۔ پنجاب کا محل وقع دریائے سندھ کے بالائی حصے میں ہے۔ لہٰذا پانی کے معاہدے خواہ کچھ بھی ہوں اس کے لئے کسی بھی وقت اضافی پانی لینا مشکل نہیں رہا۔ سندھ اس حوالیس مسلسل شکایات کرتا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک اور رکاوٹ بن رہا ہے بین لاصوبائی ہم آہنگی میں۔
روزنامہ کاوش کوٹا سسٹم کا کیا قصور کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں دیہی علاقوں کی پسماندگی کے پیش نظر شہری اور دیہی فرق ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم رائج کیا تھا۔ جس کی مدت میں ہر حکومت توسیع کرتی رہی ہے۔ اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کسی حد تک دیہی علاقوں کے نوجوان کسی حد تک تعلیمی اداروں میں داخلے سے لیکر ملازمتوں تک حق حاصل کر سکے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف اب تک صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی آواز اٹھاتی رہی ہے۔ جس کا مینڈیٰٹ بمشکل دو یا تین شہروں تک محدود ہے۔ لیکن اس مرتبہ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی تجویز ایپیکس کمیٹی میں ڈٰ ی جی رینجرز کی طرف سے پیش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں سے احساس محرومی ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ضروری ہے۔
سندھ کے دیہات میں حالت ابتر ہے۔ غربت کی صورتحال یہ ہے کے لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ دیہی علاقوں کی معیشت مکمل طور پر زراعت پر مبنی ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ شعبہ معیشت میں مطلوبہ کردار ادا
نہیں کر پا رہا ہے۔ دیہات میں معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کا میڈیٹ ، خواہ منتخن دور ہو یا آمریت، ایم کیو ایم کے پاس ہی رہا ہے۔ لہٰذا یہ جماعت براہ راست یا بلواسطہ طور پر ہر دور میں اقتدار میں شریک رہی ہے۔ ایسے میں شہری علاقوں میں احساس محرومی کی بات کرنا ناقابل فہم ہے۔
شہری علاقوں میں صنعتی ملازمتوں سے لیکر کاروبار تک تمام مواقع موجود ہیں۔ لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں کونسے مواقع ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دراصل دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس میں کوٹہ سسٹم کا کیا قصور؟
No comments:
Post a Comment