شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ‘‘ لکھتا ہے کہ 2013 میں حاجن شاہ پر حملے سے کچھ عرصہ پہلے شکارپور میں اس طرح کے حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس سلسلے میں عید کے روز خانپور میں رونما ہونے والے واقعہ اضافہ رکدیا ہے۔ شکارپور میں محرم الحرام میں دہشتگردی کی کارروایاں ہوں یا حاجن پر حملہ ہو، یہ تمام واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس علاقے میں دہشت گردی کی رتبیت حاصل کرنے والے، دہشتگردوں کے سہولت کار اور ہمدرد ضرور موجود ہیں۔
خانپور میں امام بارگاہ میں نماز کے دوران حملے کے لئے آنے والے ملزمان میں سے گرفتار ہونے والے ایک نوجوان نے مقامی سہولت کاروں کے نام بتاکر پولیس او دیگر اداروں کی تفتیش کے مرحلے آسان کردیئے ہیں لیکن اس تفتیش کو آگے بھی لے جاا چاہئے اور اس امر کا پتہ لگانا چاہئے کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو شکارپور کا تشخص تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری بھلے ایک کالعدم تنظیم نے قبول کرے، حملہ آور خواہ سوات سے تعلق رکھنے والا تحقیقات میں مددگار ثابت ہو، لیکن ارباب اختیار کو یہ ضرور پتہ لگانا چاہئے کہ شکارپور میں ایسا کوئی جال بچھا ہوا ہے جس کی مدد سے اس طرح کی کاررویاں کی جارہی ہیں۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ شکارپور میں صرف شیعہ آبادی کیوں حملوں کی زد میں آرہی ہے؟
اس امر کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کہ عقیدے کے اعتبار سے نفرت کی آگ بھڑکانے سے مقامی آبادی میں سے زیادہ حصہ کس کا ہے؟ کرایے کے خودکش بمباروں کو روکنا چاہئے لیکن اس سے پہلے اپنے گھر کی بھی تلاشی لینا ضروری ہے۔ خود شکارپور کے منتخب نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو بھی سمجھیں کہ شکارپور میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے کونسے محرکات ہیں؟ کس کے یہاں پر کیا مفادات ہیں یا کونسے حلقے کے مفادات ٹکراؤ میں آتے ہیں۔ یہ سب سمجھنے کے بعد اس معاملے کے مستقل حل کے لئے کوشاں ہوں۔
’’تعلیم ایمرجنسی کیا نتائج دے گی ؟‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تمام اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کو دو حصوں یعنی سیکنڈری اور ٹیکنیکل اجوکیشن کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے جبکہ پرائمری اور ایلمینٹری کو الگ کردیا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کو اسکولوں کے معائنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اسکولوں اور کالیجوں کی مانیٹرنگ کے لئے ایم پی ایز، ایم این ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور ڈپٹی کمشنر پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹیز تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کم ہونے اور صوبے میں 52 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہونے کی صورتحال پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں میں لایا جا سکے۔ وزیراعلیٰ نے اساتذہ کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈین تربیت کو صحیح طریقے سے لاگو کیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تعلیم کو ترجیحات میں اول نمبر پر رکھا تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اس ضمن میں پہلا اور اہم قدم ہے۔ اسکولوں کی مانیٹرنگ کے لئے ای این ایز، ایم پی ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور انتظامی افسران پرعائد کی گئی اضافی ذمہ داری یقیننا کسی حد تک فائدہ دے گی۔ لیکن اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیجنے کے فیصلے کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکے گی۔ایسے کئی اساتذہ ہیں جو کراچی، حیدرآباد، اور دیگر بڑے شہروں میں رہائش اختیار کر چکے ہیں اس فیصلے کے تحت ان اساتذہ کو بھی واپس ان کی یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کرنے پڑیں گے۔ جس سے لامحالہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونگی۔ نہیں معلوم کہ یہ فیصلہ تعلیم کی بہتری کے لئے کیا جارہا ہے یا شہری آبادی کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا ہے؟ حیدرآباد اور رکاچی کی شہری آبادی ایک عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اس طرح سے شہروں میں آکر آباد ہونے والی اچھی خاصی آبادی کو واپش منتقل ہونے پر مجبور ہو جائے گی۔ مجموعی طور پر تعلیمی ایمرجنسی اچھا عمل ہے شرط یہ ہے کہ اس عمل کو انتقامی کارروایوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس منچھر جھیل کی بحالی میں رکاوٹیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ مچھر جھیل ایک عرصے سے زہریلے پانی کی وجہ سے اپنی فطری حسن کھو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں آباد ماہیگیروں کی بربادی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اس صورتحال پر مسلسل آواز اٹھانے کے باوجود اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس سپریم کورٹ حکومت کو متعدد بار متنبیہ کر چکی ہے کہ منچھر میں آلودگی کے معاملے کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے پہلے کے احکامات کی روشنی میں دو وفاقی سیکریٹریوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان دونوں سیکریٹریوں کو عدالت نے پہلے بھی حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
اب عدالت نے خزانہ اور منصوبہ بندی وزارتوں کے سیکریٹریز کے ناقابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔اور انہیں 18 اکتوبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ دونوں سیکریٹریز نہ عدالت کے حکم پر حاضر ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں قابل اعتماد جواب داخل کیا تھا۔ عدالت نے 17 اکتوبر 2015 کو سیکریٹری خزانہ کو حکم دیا تھا کہ منچھر کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے فنڈ جاری کئے جائیں۔ لیکن اس افسر نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ عدالت کے اس حکم سے لگتا ہے سرکاری افسران منچھر کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں۔
منچھر سے ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار وابستہ ہے۔ اس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے نہ صرف اس جھیل میں آلودہ پانی نہ ڈالا جائے بلکہ تازہ پانی بھی مہیا کیا جائے۔
سولہ ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ‘‘ لکھتا ہے کہ 2013 میں حاجن شاہ پر حملے سے کچھ عرصہ پہلے شکارپور میں اس طرح کے حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس سلسلے میں عید کے روز خانپور میں رونما ہونے والے واقعہ اضافہ رکدیا ہے۔ شکارپور میں محرم الحرام میں دہشتگردی کی کارروایاں ہوں یا حاجن پر حملہ ہو، یہ تمام واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس علاقے میں دہشت گردی کی رتبیت حاصل کرنے والے، دہشتگردوں کے سہولت کار اور ہمدرد ضرور موجود ہیں۔
خانپور میں امام بارگاہ میں نماز کے دوران حملے کے لئے آنے والے ملزمان میں سے گرفتار ہونے والے ایک نوجوان نے مقامی سہولت کاروں کے نام بتاکر پولیس او دیگر اداروں کی تفتیش کے مرحلے آسان کردیئے ہیں لیکن اس تفتیش کو آگے بھی لے جاا چاہئے اور اس امر کا پتہ لگانا چاہئے کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو شکارپور کا تشخص تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری بھلے ایک کالعدم تنظیم نے قبول کرے، حملہ آور خواہ سوات سے تعلق رکھنے والا تحقیقات میں مددگار ثابت ہو، لیکن ارباب اختیار کو یہ ضرور پتہ لگانا چاہئے کہ شکارپور میں ایسا کوئی جال بچھا ہوا ہے جس کی مدد سے اس طرح کی کاررویاں کی جارہی ہیں۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ شکارپور میں صرف شیعہ آبادی کیوں حملوں کی زد میں آرہی ہے؟
اس امر کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کہ عقیدے کے اعتبار سے نفرت کی آگ بھڑکانے سے مقامی آبادی میں سے زیادہ حصہ کس کا ہے؟ کرایے کے خودکش بمباروں کو روکنا چاہئے لیکن اس سے پہلے اپنے گھر کی بھی تلاشی لینا ضروری ہے۔ خود شکارپور کے منتخب نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو بھی سمجھیں کہ شکارپور میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے کونسے محرکات ہیں؟ کس کے یہاں پر کیا مفادات ہیں یا کونسے حلقے کے مفادات ٹکراؤ میں آتے ہیں۔ یہ سب سمجھنے کے بعد اس معاملے کے مستقل حل کے لئے کوشاں ہوں۔
’’تعلیم ایمرجنسی کیا نتائج دے گی ؟‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تمام اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کو دو حصوں یعنی سیکنڈری اور ٹیکنیکل اجوکیشن کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے جبکہ پرائمری اور ایلمینٹری کو الگ کردیا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کو اسکولوں کے معائنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اسکولوں اور کالیجوں کی مانیٹرنگ کے لئے ایم پی ایز، ایم این ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور ڈپٹی کمشنر پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹیز تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کم ہونے اور صوبے میں 52 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہونے کی صورتحال پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں میں لایا جا سکے۔ وزیراعلیٰ نے اساتذہ کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈین تربیت کو صحیح طریقے سے لاگو کیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تعلیم کو ترجیحات میں اول نمبر پر رکھا تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اس ضمن میں پہلا اور اہم قدم ہے۔ اسکولوں کی مانیٹرنگ کے لئے ای این ایز، ایم پی ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور انتظامی افسران پرعائد کی گئی اضافی ذمہ داری یقیننا کسی حد تک فائدہ دے گی۔ لیکن اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیجنے کے فیصلے کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکے گی۔ایسے کئی اساتذہ ہیں جو کراچی، حیدرآباد، اور دیگر بڑے شہروں میں رہائش اختیار کر چکے ہیں اس فیصلے کے تحت ان اساتذہ کو بھی واپس ان کی یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کرنے پڑیں گے۔ جس سے لامحالہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونگی۔ نہیں معلوم کہ یہ فیصلہ تعلیم کی بہتری کے لئے کیا جارہا ہے یا شہری آبادی کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا ہے؟ حیدرآباد اور رکاچی کی شہری آبادی ایک عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اس طرح سے شہروں میں آکر آباد ہونے والی اچھی خاصی آبادی کو واپش منتقل ہونے پر مجبور ہو جائے گی۔ مجموعی طور پر تعلیمی ایمرجنسی اچھا عمل ہے شرط یہ ہے کہ اس عمل کو انتقامی کارروایوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس منچھر جھیل کی بحالی میں رکاوٹیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ مچھر جھیل ایک عرصے سے زہریلے پانی کی وجہ سے اپنی فطری حسن کھو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں آباد ماہیگیروں کی بربادی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اس صورتحال پر مسلسل آواز اٹھانے کے باوجود اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس سپریم کورٹ حکومت کو متعدد بار متنبیہ کر چکی ہے کہ منچھر میں آلودگی کے معاملے کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے پہلے کے احکامات کی روشنی میں دو وفاقی سیکریٹریوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان دونوں سیکریٹریوں کو عدالت نے پہلے بھی حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
اب عدالت نے خزانہ اور منصوبہ بندی وزارتوں کے سیکریٹریز کے ناقابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔اور انہیں 18 اکتوبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ دونوں سیکریٹریز نہ عدالت کے حکم پر حاضر ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں قابل اعتماد جواب داخل کیا تھا۔ عدالت نے 17 اکتوبر 2015 کو سیکریٹری خزانہ کو حکم دیا تھا کہ منچھر کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے فنڈ جاری کئے جائیں۔ لیکن اس افسر نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ عدالت کے اس حکم سے لگتا ہے سرکاری افسران منچھر کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں۔
منچھر سے ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار وابستہ ہے۔ اس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے نہ صرف اس جھیل میں آلودہ پانی نہ ڈالا جائے بلکہ تازہ پانی بھی مہیا کیا جائے۔
سولہ ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات
No comments:
Post a Comment