Nov 3
سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی پر سوالات
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ پبلک سروس کمیشن ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ خبریں اس ادارے کی ناقص کارکردگی، غیر شفافیت، اقربا پروری سے متعلق ہیں۔ عدالتی حکم پر لئے گئے امتحان کا کمیشن نے حال ہی میں نتائج کاا علان کیا ہے۔ ان نتائج پر متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ میڈیا میں خبرین ہیں کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر کمیشن نے اقربا پروری کی ہے۔ نہ صرف کمیشن کے چیئرمین اور دیگر اعلیٰ افسران کی اولاد کو پاس کیا گیا ہے بلکہ پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو بھی نوازا گیا ہے۔ خواتین، اقلیتوں خواہ معذورین کی کوٹا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
2013 میں مقابلے کے ان امتحانات میں بے قاعدگیوں کے بعد سپریم کورٹ نے نتائج مسترد کرتے ہوئے چیئرمین اور دیگر افسران کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دوبارہ امتحان لینے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ امتحان دسمبر 2017 میں لیا گیا۔ اور اب گریڈ 16، 17 کی کل 182 اسامیوں کے لئے کامیاب امیدواروں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اگرچہ ملکی قانون کے مطابق ہر سطح کی ملازمتوں میں خواتین کے لئے دس فیصد، معذورین اور اقلیتوں کے لئے پانچ پانچ فیصد کوٹا مقرر ہے۔ اس حساب سے خواتین کی18 اور اقیلتوں اور معذورین کی ہر ایک کی 9 اسامیاں بنتی ہیں۔، یہ امر قابل ذخر ہے کہ ان کیٹگریز میں میرٹ پر کامیاب ہونے والوں کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوٹا پر عمل نہیں کیا۔ اگرچہ نتائج میں شہری اور دیہی کوٹا کا ذکر الگ الگ موجود ہے۔ مگر اقلتیتوں، خواتین اور معذورین کے کوٹا کا کوئی ذکر نہیں۔ میرٹ والے نتائج کے مطابق چار اقلیت کے,16 خواتین امیدورا کامیاب ہو ئی ہیں۔ اس معاملے میں کمیشن کا عجیب موقف سامنےّ یا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کی 45، اور سیکشن آفیسر کی 75 اسامیاں خالص میرٹ پر تھی۔ باقی اسامیوں کے لئے کوٹا تھا لیکن ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ کوٹا بن ہی نہیں پا رہا تھا۔ کیونکہ کمیشن کو بیس اسامیوں پر ایک سیٹ کوٹا پر دینی پڑتی ہے۔ لیکن امتحانی نتائج کمیشن کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ مختیارکار کی 24 اسامیاں تھی، لیکن اس پر کوٹا کا اطلاق نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پورے ملک میں اقلیتوں کے لئے پانچ فیصد کوٹا مقرر کیا گیا تھا۔ اس پر عمل نہ ہونے پر 20114 میں سپریم کورت نے وفاقی خواہ صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ خواتین ، اقلیتوں خواہ معذورین کے لئے نہ صرف کوٹا مقرر کرنے، بلکہ ملازمتوں کے لئے اشتہارات جاری کرتے وقت اس کوٹا کاذکر لازمی بنایا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد سندھ حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام محکموں کو اس کوٹا پر سختی سے عمل درآمد کا پابند بنایا۔ کمیشن انتظامیہ نے عدالتی احکامات خواہ حکومتی ہدایات کو ایک طرف رکھ دیا۔
سوال یہ ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج ہر مرتبہ متنازع کیوں ہو جاتے ہیں؟ آج کے دور میں نتائج کو شفاف اور غیر متنازع بنانا اتنا مشکل نہیں۔ کئی جدید طریقے متعرف ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ پبلک سروس کمیشن یہ طریقے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کمبائنیڈ کامپیٹیٹو اگزام 2018 کی اسکریننگ ٹیسٹ میں کئی ایسے سوالات دیئے گئے جن کے جوابات کا نہ کمیشن کو اور نہ ہی پرچہ سیٹ کرنیوالوں کو پتہ تھا۔ ہوا یہ کہ ہزاروں امیدوار جوابی آپشنز کے لئے کنفیوزن کا شکار ہو گئے۔اس وجہ سے متعدد امیدواران ایک یا دو نمبر سے رہ گئے۔ کیونکہ کمیشن نے بعد میں متعدد سوالات کتؤے جوابات تبدیل کر دیئے تھے۔ کیا کمیشن کے پاس مستند معلومات کا ذخیرہ نہیں کہ ہر مرتبہ غیر مستند کتابوں سے سوالات نکال کر دیئے جاتے ہیں؟ یہ مار واضح ہے کہ جب بھی کسی ادارے میں بے قایدگیوں کا معاملہ کا معاملہ سامنے ؤتا ہے، حکومت وقت پر ہی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ لہٰذا کمیشن میں بے قاعدگیوں کے لئے حکومت سندھ سے ہی پوچھا جارہا ہے۔ حکومت وقت کو فوری طور پر معاملہ کی تحقیقات کرانی چاہئے۔ اور مجموعی طور پر امیدواروں میں نظام کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ کرنا چاہئے۔
’’ سندھ میں بے قاعدگیاں آخر کب تک ؟‘‘ کے عنوان سے روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے بعد عدالت کے باہر مختلف مسائل کے لئے احتجاج کرنے والوں کے مسائل سنے۔ اور ان کے حل کی یقین دہانی کرئی۔ مظاہرین نے صوبائی و وفاقی اداروں خواہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی سست روی، زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے، مہنگائی، بیروزگاری، میرٹ کو نظرانداز کرنے، پانی کی قلت، پراسار گمشدگیوں، پولیس اور دیگر محکموں کے افارد کی زیادتیوں کے بارے میں شکایات کی۔
سندھ کے باسی کئی ایک مسائل کی لپیٹ مین ہیں۔ ان میں سے بعض اجتماعی اور بعض وفاقی دائرہ اختیار کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ معاشرے میں اختیارات سے تجاوز ، بے قاعدگیاں اور بدعنوانی عروج پر ہے۔ قیادت کے عدم توجہگی کی وجہ سے مسائل بحران کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں بعد میں حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مختلف اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے لوگ مجبور ہو کر صوبے کے پریس کلبوں کے سامنت احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ تاکہ حکمران اور متعلقہ ادارے ان کی آواز سن سکیں۔ لیکن ہویہ رہا ہے کہ اس کے باوجود متاثرہ افراد کی نہیں سنی جاتی۔ اور ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور انتظامیہ کی یہ عدم دلچسپی اور عدم توجہگی معاشرے میں لاتعلقی اور بیگانگی پیدا کر رہی ہے۔ یعنی حکمران اور انتظامیہ لوگوں سے بیگانہ اور لوگ حکمرانوں اور انتظامیہ سے بیگانہ ہے۔ یہ لاتعلقی ایک بہت برا مرض ہے۔ جس میں لوگ کسی بھی سرکاری فیصلے پالیسی سے تو لاتعلق ہوتے ہیں بلکہ وہ سرکاری املاک اور سہولیات سے بھی خود کو لاتعلق سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو اگر واقعی اس بات کا احساس ہوا ہے تو یہ ایک مثبت امر ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ کو اس ضمن میں باقاعدہ اور متواتر کوشش کرنی پڑے گی اور لوگوں کو سننا پڑے گا۔ ان کے مسائل کو حل کرنا پڑے گا، تب صورتحال بہتر ہو سکے گی۔
۳۔ نومبر ۲۰۱۸
Sindh Nama - Nai Baat - Performane of SPSC questioned - Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ پبلک سروس کمیشن ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ خبریں اس ادارے کی ناقص کارکردگی، غیر شفافیت، اقربا پروری سے متعلق ہیں۔ عدالتی حکم پر لئے گئے امتحان کا کمیشن نے حال ہی میں نتائج کاا علان کیا ہے۔ ان نتائج پر متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ میڈیا میں خبرین ہیں کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر کمیشن نے اقربا پروری کی ہے۔ نہ صرف کمیشن کے چیئرمین اور دیگر اعلیٰ افسران کی اولاد کو پاس کیا گیا ہے بلکہ پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو بھی نوازا گیا ہے۔ خواتین، اقلیتوں خواہ معذورین کی کوٹا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
2013 میں مقابلے کے ان امتحانات میں بے قاعدگیوں کے بعد سپریم کورٹ نے نتائج مسترد کرتے ہوئے چیئرمین اور دیگر افسران کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دوبارہ امتحان لینے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ امتحان دسمبر 2017 میں لیا گیا۔ اور اب گریڈ 16، 17 کی کل 182 اسامیوں کے لئے کامیاب امیدواروں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اگرچہ ملکی قانون کے مطابق ہر سطح کی ملازمتوں میں خواتین کے لئے دس فیصد، معذورین اور اقلیتوں کے لئے پانچ پانچ فیصد کوٹا مقرر ہے۔ اس حساب سے خواتین کی18 اور اقیلتوں اور معذورین کی ہر ایک کی 9 اسامیاں بنتی ہیں۔، یہ امر قابل ذخر ہے کہ ان کیٹگریز میں میرٹ پر کامیاب ہونے والوں کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوٹا پر عمل نہیں کیا۔ اگرچہ نتائج میں شہری اور دیہی کوٹا کا ذکر الگ الگ موجود ہے۔ مگر اقلتیتوں، خواتین اور معذورین کے کوٹا کا کوئی ذکر نہیں۔ میرٹ والے نتائج کے مطابق چار اقلیت کے,16 خواتین امیدورا کامیاب ہو ئی ہیں۔ اس معاملے میں کمیشن کا عجیب موقف سامنےّ یا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کی 45، اور سیکشن آفیسر کی 75 اسامیاں خالص میرٹ پر تھی۔ باقی اسامیوں کے لئے کوٹا تھا لیکن ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ کوٹا بن ہی نہیں پا رہا تھا۔ کیونکہ کمیشن کو بیس اسامیوں پر ایک سیٹ کوٹا پر دینی پڑتی ہے۔ لیکن امتحانی نتائج کمیشن کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ مختیارکار کی 24 اسامیاں تھی، لیکن اس پر کوٹا کا اطلاق نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پورے ملک میں اقلیتوں کے لئے پانچ فیصد کوٹا مقرر کیا گیا تھا۔ اس پر عمل نہ ہونے پر 20114 میں سپریم کورت نے وفاقی خواہ صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ خواتین ، اقلیتوں خواہ معذورین کے لئے نہ صرف کوٹا مقرر کرنے، بلکہ ملازمتوں کے لئے اشتہارات جاری کرتے وقت اس کوٹا کاذکر لازمی بنایا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد سندھ حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام محکموں کو اس کوٹا پر سختی سے عمل درآمد کا پابند بنایا۔ کمیشن انتظامیہ نے عدالتی احکامات خواہ حکومتی ہدایات کو ایک طرف رکھ دیا۔
سوال یہ ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج ہر مرتبہ متنازع کیوں ہو جاتے ہیں؟ آج کے دور میں نتائج کو شفاف اور غیر متنازع بنانا اتنا مشکل نہیں۔ کئی جدید طریقے متعرف ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ پبلک سروس کمیشن یہ طریقے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کمبائنیڈ کامپیٹیٹو اگزام 2018 کی اسکریننگ ٹیسٹ میں کئی ایسے سوالات دیئے گئے جن کے جوابات کا نہ کمیشن کو اور نہ ہی پرچہ سیٹ کرنیوالوں کو پتہ تھا۔ ہوا یہ کہ ہزاروں امیدوار جوابی آپشنز کے لئے کنفیوزن کا شکار ہو گئے۔اس وجہ سے متعدد امیدواران ایک یا دو نمبر سے رہ گئے۔ کیونکہ کمیشن نے بعد میں متعدد سوالات کتؤے جوابات تبدیل کر دیئے تھے۔ کیا کمیشن کے پاس مستند معلومات کا ذخیرہ نہیں کہ ہر مرتبہ غیر مستند کتابوں سے سوالات نکال کر دیئے جاتے ہیں؟ یہ مار واضح ہے کہ جب بھی کسی ادارے میں بے قایدگیوں کا معاملہ کا معاملہ سامنے ؤتا ہے، حکومت وقت پر ہی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ لہٰذا کمیشن میں بے قاعدگیوں کے لئے حکومت سندھ سے ہی پوچھا جارہا ہے۔ حکومت وقت کو فوری طور پر معاملہ کی تحقیقات کرانی چاہئے۔ اور مجموعی طور پر امیدواروں میں نظام کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ کرنا چاہئے۔
’’ سندھ میں بے قاعدگیاں آخر کب تک ؟‘‘ کے عنوان سے روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے بعد عدالت کے باہر مختلف مسائل کے لئے احتجاج کرنے والوں کے مسائل سنے۔ اور ان کے حل کی یقین دہانی کرئی۔ مظاہرین نے صوبائی و وفاقی اداروں خواہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی سست روی، زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے، مہنگائی، بیروزگاری، میرٹ کو نظرانداز کرنے، پانی کی قلت، پراسار گمشدگیوں، پولیس اور دیگر محکموں کے افارد کی زیادتیوں کے بارے میں شکایات کی۔
سندھ کے باسی کئی ایک مسائل کی لپیٹ مین ہیں۔ ان میں سے بعض اجتماعی اور بعض وفاقی دائرہ اختیار کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ معاشرے میں اختیارات سے تجاوز ، بے قاعدگیاں اور بدعنوانی عروج پر ہے۔ قیادت کے عدم توجہگی کی وجہ سے مسائل بحران کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں بعد میں حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مختلف اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے لوگ مجبور ہو کر صوبے کے پریس کلبوں کے سامنت احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ تاکہ حکمران اور متعلقہ ادارے ان کی آواز سن سکیں۔ لیکن ہویہ رہا ہے کہ اس کے باوجود متاثرہ افراد کی نہیں سنی جاتی۔ اور ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور انتظامیہ کی یہ عدم دلچسپی اور عدم توجہگی معاشرے میں لاتعلقی اور بیگانگی پیدا کر رہی ہے۔ یعنی حکمران اور انتظامیہ لوگوں سے بیگانہ اور لوگ حکمرانوں اور انتظامیہ سے بیگانہ ہے۔ یہ لاتعلقی ایک بہت برا مرض ہے۔ جس میں لوگ کسی بھی سرکاری فیصلے پالیسی سے تو لاتعلق ہوتے ہیں بلکہ وہ سرکاری املاک اور سہولیات سے بھی خود کو لاتعلق سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو اگر واقعی اس بات کا احساس ہوا ہے تو یہ ایک مثبت امر ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ کو اس ضمن میں باقاعدہ اور متواتر کوشش کرنی پڑے گی اور لوگوں کو سننا پڑے گا۔ ان کے مسائل کو حل کرنا پڑے گا، تب صورتحال بہتر ہو سکے گی۔
۳۔ نومبر ۲۰۱۸
Sindh Nama - Nai Baat - Performane of SPSC questioned - Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment