Nov 10
گنے کے بحران سے زرعی بحران تک
سندھ نامہ سہیل سانگی
وزیراعلٰ سندھ کہتے ہیں کہ سندھ میں نیب کی کارروایوں کی وجہ سے افسران خوف زدہ ہین اور سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسران خوف میں کیوں ہیں؟ اگر وہ صحیح کام کر رہے ہیں یا حکومت سندھ ان سے صحیح کام لے رہی ہے تو پھر خوف کی فضا نہیں ہونی چاہئے۔ اخبارات نے وزیراعلیٰ کے اس بیان پر کالم اور مضامین لکھے ہیں۔
روزنامہ کاوش سندھ کی زراعت پر بحرانوں کی بلا کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے سندھ کی زراعت کو مشکل وقت کا سامنا ہے۔ اس ضمن میں نہ کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ہی بحرانوں کی یہ آفت سندھ کی زراعت سے ٹل سکی۔ کاشتکاروں کو فصلوں کی صحیح قیمتیں نہیں ملتی۔ دوسرا بحران شگر ملز کا وقت پر گنے کی پسائی شروع نہ کرنے اور گنے کی قیمت کا ہے جو بغیر ناغے کے چلتا رہتا ہے۔
سندھ شگر کین ایکٹ کے تحت اکتوبر میں شگر ملز چالو کرنی ہیں۔ لیکن حکومت سندھ اس قناون پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ نیتجۃ شگر ملز بمشکل دسمبر میں گنے کی پاسئی اور خرایدری شروع کرتی ہیں۔ رواں سال حکومت سندھ نے شگر کین بورڈ کی تشکیل تو کی ہے جس کو گنے کی پسائی شروع کرنے کا وقت اور قیمت کا تعین کرنا ہے۔ لیکن اس بورڈ کا اجلاس تاحال طلب نہیں کای جاسکا ہے۔ رواں سال وفاقی حکومت نے ہر حال میں چاروں صوبوں میں گنے کی پسائی 15 نومبر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن تاحال کوئی تحرک نظر نہیں آتا۔ پسائی شروع کرنے سے پہلے شکر ملز چمنی جلاتی ہیں، اس کا بھی آغاز نہیں ہو سکا ہے۔
صوبے کو حصہ کا پانی نہ ملنا، اور جو پانی ملتا ہے اس کی صحیح ریگیولیشن نہ ہونا، پانی کی چوری، آبپاشی افسران کی جانب سے پانی کی فروخت، یا محکمہ آبپاشی کو سیاسی مقصد کے لئے استعملا کرنا، نقلی بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات کی سر عام فروخت نے سندھ کی زراعت کو مشکل صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ حکومت سندھ نے زرعی پالیسی کا اعلان کیا ہے، لیکن اس میں بھی کئی کوتاہیاں ہیں جن کی نشاندہی میڈیا خواہ کاشکتکاروں کی نمائندہ تنظیمیں کر چکی ہیں۔ لیکن اس ناقص زرعی پالیسی پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔
حکومت سندھ ہر سال گنے کی قیمت مقرر کرتی ہے لیکن اس پر عمل کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ گنے کی پسائی وقت پر شروع نہ کرنے کی وجہ سے گنا خشک ہونا شروع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وزن کم ہونے لگتا ہے، یوں کاشتکاروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گنے کی کٹائی دیر سے شروع ہونے کی وجہ سے زمین گندم کی کاشت کے لئے خالی نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ جب تک گنے کی فصل کھڑی ہے اس کو پانی بھی دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا گنے کی دیر سے خریداری کے نتیجے میں گندم کے حصے کی زمین اور پانی گنے کو چلا جاتا ہے۔ یوں زراعت میں بحران کا سائیکل جاری ہے۔ جس کی چین کو کوئی توڑنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔
ایک اور اہم بات کاشتکاروں کی شگر ملز پر بقایاجات ہیں۔ ایک سیزن کی بقایاجات دوسری سیزن میں بھی نہیں مل پاتی۔ اگرچہ اس تمام معاملے میں حکومت سندھ ایک فریق ہے، جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فیصؒ وں اور پالیسی پر عمل درآمد کرائے۔ لیکن اس کا کردار شگر مل مالکان اور کاشتکار آپس میں جانے والا ہے۔ حکومت سندھ پاسما کے دباؤ میں رہتی ہے۔ نیتجے میں جب کاشتکار احتجاج کرتے ہیں تو حکومتی مشنری ان پر طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ وزیر زراعت کی سربراہی میں تشکیل کردہ کین بورڈ کا اجلاس بلانے کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی۔
اب پہلے بورڈ کا اجلاس ہوگا، گنے کی قیمت کا تعین کیا جائے گا، اس کے بعد گنے کی پاسئی اور کٹائی کی تاریخ طے کی جائے گی۔کارخانوں کی چمنیاں جلانے کے لئے کم از کم دس سے پندرہ روز لگ جائیں گے۔ بورڈ کے فیؒ سوں پر مل مالکان عمل درآمد رکیں یا نہ کریں ایک ایک اور باب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دسمبر کے وسط سے پہلے گنے کی سیزن شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ کین بورڈ کا فوری طور پر اجلاس بلایا جائے اور اس کے پہلے اجلاس میں ہین گنے کی قیمت اور کٹاء کی تاریخ کا تعین کر دیا جائے۔ حکومت اس معاملے کو بھی یقنی بنائے کہ مل مالکان بورڈ کے فیصلوں پر عمل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمائش ہے کہ کاشتکاروں کی گزشتہ سیزن کی باقیاجات کی ادائیگی کو بھی دیکھے۔
سندھ کے حصے کا پانی چوری ہونے کا اعتراف کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ آبی وسائل کے وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ نوز لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں سندھ اور بلوچستان کے حصے کا پانی چوری کیا جاتا رہا ہے۔ سندھ کو اپنے حصے کا پانی نہ ملنے کے بارے میں قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر موصوف نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے تحفظات میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سندھ کی معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ پانی بھی چوری کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹیلی میٹری سسٹم بحال کرانے کی وشش کریں گے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ 1991 کے معاہدے پر عمل درآمد رکانے کی کوشش کی جائے گی۔ سندھ کو اپنے حصے سے کم پانی ملنے کے نتیجے میں صوبے کی زراعت زوال کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے صوبے میں معاشی پسماندگی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف ملک کے بالائی علاقوں کا زہریلا پانی سندھ میں آنے کی وجہ سے صوبے کی 56 فیصد زمیںیں تباہ ہو چکی ہیں جہاں پر زراعت نہیں کی جارہی۔ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ڈیلاٹا بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ڈیلٹا کی موجودگی میں لاکھوں افراد کو ماہی گیری وغیرہ سے روزگار ملتا تھا۔ اور ان کی غذائی ضروریات پوری ہوتی تھی۔ اب بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے، غربت بھی ہیے گذائیت کی کمی بھی۔ وفاقی حکومت معاملے کا فوری طور پر نوٹس لے۔ اور ماضی میں سندھ سے پانی کے معاملے مین کی گئی ناناصافی کا ازالیہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں بڑھتی ہوئی معیشت کی پسماندگی، بیروزگاری، غربت اور غذائی قلت کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات کرے۔
Sugarcane crisis to agriculture crisis - Sindh Nama - Nov 10
No comments:
Post a Comment