سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ سندھ بھر میں سندھی ثقافت کا دن منایا گیا۔ صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں۔ہر عمر اور ہر مکتبہ فکرکے لوگ خواہ خواتین نے سڑکوں پر آکر اپنی ثقافت سے محبت کا بھرپور اظہار کیا۔ گزشتہ دس سال سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز سندھی میڈیا نے ہی کیا تھا۔ تعلیمی اداروں خواہ نجی طور پر متعدد ثقافتی پروگرام اور محفلیں منعقد ہوئیں۔ تقریری مقابلوں سے لیکر ثقافتی گیتوں اور ڈانس تک ، ادبی نشستوں سے لیکر لوک محفلوں تک کے پروگراموں نے خوشی اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ اظہار کیا کہ اس دھرتی کے لوگ کثیر رنگی اور تنوع کے ساتھ متحد بھی ہیں۔ جب سندھ کو قبائلی رسم و رواج نے سندھی معاشرے کو آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں چھوڑی، قوم کو ذات اور برادری کی بنیاد پر تقسیم نے قومی وجود کو نقصان پہچایا ہے۔ کئی علاقوں میں ریاستی قانون کے بجائے جرگہ سسٹم رائج ہے، جس نے سندھی قوم کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایسے میں یہ اظہار یقیننا ایک اچھا پیغام دیتا ہے۔ سندھ کی میڈیا نے بڑے پیمانے پر ثقافتی دن کی سرگرمیوں اور پروگراموں کو کوریج دی۔ اداریے اور مضامین شایع کئے۔جن میں عام لوگوں کو اور اہل فکر نظر کو سندھ کے اندرونی مسائل اور الجھنوں کے بارے میں بتایا اور ان کو حل کرنے کے لئے اسی طرح متحد ہونے اور موثر طور پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔
تھر میں قحط اور بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکیوٹو کے استعیفا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کول مائننگ ایریا اور تھرکا دورہ کیا۔اگرچہ سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ قحط کے دوران تھر کے تمام مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرے گی۔ تاہم حکومت صرف کول ایریا کے مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرنے کے لئے رقم مہیا کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے وزیراعلیٰ نے سندھ اینگرو کول کمپنی کے ذیلی ادارے تھر فاؤنڈیشن کو پانچ کروڑوپے کا چیک بھی دیا۔ باقی تمام تھر کے لوگ اس سہولت سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت کے نزدیک صرف کو ل ایریا ہی قحط زدہ ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ حکومت قحط کے متاثرہ لوگوں کو اینگر کمپنی کے ذریعے کیوں چارہ تقسیم کر رہی ہے؟
سندھ میں دو اور شعبوں تعلیم اور انسداد رشوت ستانی میں سرگرمی نظر آرہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے پہلے بڑے شہروں میں کام کرنے والے بڑے نام والے اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے خلاف اقدامات کئے، اور انہیں نوٹس دیئے۔ پرائمری سطح پر نصاب بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔
صوبے میں این ٹی ایس کے ذریعے ٹیسٹ لینے کے بعد بھرتی ہونے والے گیارہ ہزار سے زائد اساتذہ کو مستقل کردیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ گزشتہ چار سال سے کانٹریکٹ پر کام کر رہے تھے۔ ابھی تک اساتذہ کی دو اور کھیپ ہیں جنہیں کانٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا لیکن تاحال انہیں کنفرم نہیں کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے ایک پو ش تعلیمی ادارے پبلک اسکول حیدرآباد کو آئی بی اے سکھر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اسکول کئی برسوں سے شدید انتظامی بحران کا شکار ہے۔ اسکول کے بورڈ آف گورنرس نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اس اسکول کے لئے زمین ایک تالپور خاندان نے بطور تحفہ دی تھی۔ جس کو قانونی طور پر کسی نجی ادارے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی بی اے سکھر بطور اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اچھا چل رہا ہے، اس پر مزید بوجھ ڈالنے سے اس ادارے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یاد رہے کہ آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں میں بھرتیوں کے لئے بطور ٹیسٹنگ ادارے کے بھی کام کر رہا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ حال ہی میں صوبے کے مختلف اضلاع میں تعلیمی سہولیات اور مجموعی تعلیمی صورتحال کے بارے میں سروے کئے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے آبائی ضلع ضلع جامشورو میں 594 اسکول کام کر رہے ہیں جبکہ 150 اسکول بند ہیں۔ جو اسکول فنکشنل ہیں ان میں سے صرف 346 اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود ہے۔ 257 اسکوولں میں بجلی کی سہولت نہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر یہ سب چبے اسکول جانا شروع کردیں تو کیا سرکاری اسکولوں میں اتنی عمارتیں، دیگر سہولیات اور مطلوبہ اساتذہ موجود ہیں؟
اچھی حکمرانی نہ ہونے کی مسلسل شکایات کے بعد سندھ حکومت زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہسپتالوں میں انتظامی عہدوں کے لئے ٹیسٹ لی گئی۔ یعنی ہسپتالوں میں انتظامی کیڈر الگ ہوگا۔ اس سے قبل سنیئر ڈاکٹرز کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ یا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے عہدوں پر لگایا جاتا تھا۔ یہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اس سے قبل حکومت نے تعلیم کے شعبے میں بھی یہ تجربہ کیا تھا، جو ابھی تک چل رہا ہے لیکن کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔
محکمہ اینٹی کرپشن نے گندم کی سرکاری خریداری کے لئے باردانہ کی تقسیم میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات مکمل کرلی ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق محکمہ کے افسران نے یہ سرکرای باردانہ پیسوں کے عوض فروخت کیا یا پھر سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ غیر شفاف تقسیم کی وجہ سے مستحق کاشتکار اس سہولت سے محروم ہو گئے۔ صرف سانگھڑ ضلع میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کے غبن کی تصدیق ہوئی ہے۔ غیر شفاف طریقے سے باردانہ حاصل کرنے والوں میں جام مدد علی سابق لیڈر آف پاوزیشن سندھ اسمبلی، جام ذوالفقار، میر خان مری اور دیگر نام شامل ہیں۔ اینٹی کرپشن کے ذرائع کے مطابق اس غبن میں افسران اور بعض بااثر افراد ملوث ہیں۔ غیرقانونی جائدایں بنانے پر سابق سیکریٹری علی احمد رند اور دیگر چھ افراد کے خلاف احتساب عدالت نے فرد جرم عائد کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں برساتی ندی گاج پر ڈیم کی تعمیر کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ مشرف دور میں شروع کئے گئے اس منصوبے پر سولہ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔ اب کہا جارہا کہ ڈیم کا مقام صحیح نہیں۔ 46 ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے اور سندھ حکومت کو ڈیم بنانا تھا۔ سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تاحال 51 فیصد کام ہوا ہے۔ ٹھیکدار کی جانب سے دی گئی دو ارب روپے کی بینک گارنٹی جعلی نکلی۔ دوسری طرف پورٹس اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر علی زیدی نے پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی گزشتہ بیس سال کے دوران لیز کی گئی زمین کی آڈٹ کا حکم دیا ہے۔
Nai Baat SIndh Nama Sohail Sangi Dec 7, 2018
گزشتہ ہفتہ سندھ بھر میں سندھی ثقافت کا دن منایا گیا۔ صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں۔ہر عمر اور ہر مکتبہ فکرکے لوگ خواہ خواتین نے سڑکوں پر آکر اپنی ثقافت سے محبت کا بھرپور اظہار کیا۔ گزشتہ دس سال سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز سندھی میڈیا نے ہی کیا تھا۔ تعلیمی اداروں خواہ نجی طور پر متعدد ثقافتی پروگرام اور محفلیں منعقد ہوئیں۔ تقریری مقابلوں سے لیکر ثقافتی گیتوں اور ڈانس تک ، ادبی نشستوں سے لیکر لوک محفلوں تک کے پروگراموں نے خوشی اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ اظہار کیا کہ اس دھرتی کے لوگ کثیر رنگی اور تنوع کے ساتھ متحد بھی ہیں۔ جب سندھ کو قبائلی رسم و رواج نے سندھی معاشرے کو آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں چھوڑی، قوم کو ذات اور برادری کی بنیاد پر تقسیم نے قومی وجود کو نقصان پہچایا ہے۔ کئی علاقوں میں ریاستی قانون کے بجائے جرگہ سسٹم رائج ہے، جس نے سندھی قوم کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایسے میں یہ اظہار یقیننا ایک اچھا پیغام دیتا ہے۔ سندھ کی میڈیا نے بڑے پیمانے پر ثقافتی دن کی سرگرمیوں اور پروگراموں کو کوریج دی۔ اداریے اور مضامین شایع کئے۔جن میں عام لوگوں کو اور اہل فکر نظر کو سندھ کے اندرونی مسائل اور الجھنوں کے بارے میں بتایا اور ان کو حل کرنے کے لئے اسی طرح متحد ہونے اور موثر طور پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔
تھر میں قحط اور بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکیوٹو کے استعیفا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کول مائننگ ایریا اور تھرکا دورہ کیا۔اگرچہ سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ قحط کے دوران تھر کے تمام مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرے گی۔ تاہم حکومت صرف کول ایریا کے مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرنے کے لئے رقم مہیا کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے وزیراعلیٰ نے سندھ اینگرو کول کمپنی کے ذیلی ادارے تھر فاؤنڈیشن کو پانچ کروڑوپے کا چیک بھی دیا۔ باقی تمام تھر کے لوگ اس سہولت سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت کے نزدیک صرف کو ل ایریا ہی قحط زدہ ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ حکومت قحط کے متاثرہ لوگوں کو اینگر کمپنی کے ذریعے کیوں چارہ تقسیم کر رہی ہے؟
سندھ میں دو اور شعبوں تعلیم اور انسداد رشوت ستانی میں سرگرمی نظر آرہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے پہلے بڑے شہروں میں کام کرنے والے بڑے نام والے اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے خلاف اقدامات کئے، اور انہیں نوٹس دیئے۔ پرائمری سطح پر نصاب بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔
صوبے میں این ٹی ایس کے ذریعے ٹیسٹ لینے کے بعد بھرتی ہونے والے گیارہ ہزار سے زائد اساتذہ کو مستقل کردیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ گزشتہ چار سال سے کانٹریکٹ پر کام کر رہے تھے۔ ابھی تک اساتذہ کی دو اور کھیپ ہیں جنہیں کانٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا لیکن تاحال انہیں کنفرم نہیں کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے ایک پو ش تعلیمی ادارے پبلک اسکول حیدرآباد کو آئی بی اے سکھر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اسکول کئی برسوں سے شدید انتظامی بحران کا شکار ہے۔ اسکول کے بورڈ آف گورنرس نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اس اسکول کے لئے زمین ایک تالپور خاندان نے بطور تحفہ دی تھی۔ جس کو قانونی طور پر کسی نجی ادارے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی بی اے سکھر بطور اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اچھا چل رہا ہے، اس پر مزید بوجھ ڈالنے سے اس ادارے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یاد رہے کہ آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں میں بھرتیوں کے لئے بطور ٹیسٹنگ ادارے کے بھی کام کر رہا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ حال ہی میں صوبے کے مختلف اضلاع میں تعلیمی سہولیات اور مجموعی تعلیمی صورتحال کے بارے میں سروے کئے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے آبائی ضلع ضلع جامشورو میں 594 اسکول کام کر رہے ہیں جبکہ 150 اسکول بند ہیں۔ جو اسکول فنکشنل ہیں ان میں سے صرف 346 اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود ہے۔ 257 اسکوولں میں بجلی کی سہولت نہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر یہ سب چبے اسکول جانا شروع کردیں تو کیا سرکاری اسکولوں میں اتنی عمارتیں، دیگر سہولیات اور مطلوبہ اساتذہ موجود ہیں؟
اچھی حکمرانی نہ ہونے کی مسلسل شکایات کے بعد سندھ حکومت زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہسپتالوں میں انتظامی عہدوں کے لئے ٹیسٹ لی گئی۔ یعنی ہسپتالوں میں انتظامی کیڈر الگ ہوگا۔ اس سے قبل سنیئر ڈاکٹرز کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ یا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے عہدوں پر لگایا جاتا تھا۔ یہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اس سے قبل حکومت نے تعلیم کے شعبے میں بھی یہ تجربہ کیا تھا، جو ابھی تک چل رہا ہے لیکن کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔
محکمہ اینٹی کرپشن نے گندم کی سرکاری خریداری کے لئے باردانہ کی تقسیم میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات مکمل کرلی ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق محکمہ کے افسران نے یہ سرکرای باردانہ پیسوں کے عوض فروخت کیا یا پھر سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ غیر شفاف تقسیم کی وجہ سے مستحق کاشتکار اس سہولت سے محروم ہو گئے۔ صرف سانگھڑ ضلع میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کے غبن کی تصدیق ہوئی ہے۔ غیر شفاف طریقے سے باردانہ حاصل کرنے والوں میں جام مدد علی سابق لیڈر آف پاوزیشن سندھ اسمبلی، جام ذوالفقار، میر خان مری اور دیگر نام شامل ہیں۔ اینٹی کرپشن کے ذرائع کے مطابق اس غبن میں افسران اور بعض بااثر افراد ملوث ہیں۔ غیرقانونی جائدایں بنانے پر سابق سیکریٹری علی احمد رند اور دیگر چھ افراد کے خلاف احتساب عدالت نے فرد جرم عائد کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں برساتی ندی گاج پر ڈیم کی تعمیر کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ مشرف دور میں شروع کئے گئے اس منصوبے پر سولہ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔ اب کہا جارہا کہ ڈیم کا مقام صحیح نہیں۔ 46 ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے اور سندھ حکومت کو ڈیم بنانا تھا۔ سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تاحال 51 فیصد کام ہوا ہے۔ ٹھیکدار کی جانب سے دی گئی دو ارب روپے کی بینک گارنٹی جعلی نکلی۔ دوسری طرف پورٹس اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر علی زیدی نے پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی گزشتہ بیس سال کے دوران لیز کی گئی زمین کی آڈٹ کا حکم دیا ہے۔
Nai Baat SIndh Nama Sohail Sangi Dec 7, 2018
No comments:
Post a Comment