Saturday, December 22, 2018

سندھ میں گیس کا بحران اور بے چینی


سندھ میں گیس کا بحران اور بے چینی

سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی
گیس بحران معاملے کی سنگینی کو نظر میں رکھا جائے کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ ملک کی کل پیداوار کا 71 فیصد پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس صوبے کو گیس کی فراہمی میں ناانصافی کی جاتی رہی ہے۔ سی این جی اسٹیشنز، صنعتی خواہ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی بند کردی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی سندھ میں گیس کا بحران پیدا کیا گیا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے تمام سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی تا حکم ثانی بند کردی ہے۔ مختلف علاقوں میں بحران کی آڑ میں گھریلو صارفین کو بھی گیس کی سپلائی معطل ہے۔ سندھ ٹرانسپورٹ اتحاد نے اس صورتحال کے پیش نظر غیر معینہ مدت تک پبلک ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس ضمن میں وفاق کے پاس احتجاج کیا ہے۔ سندھ ملک کے باقی تین صوبوں کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ گیس پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ گیس کی فراہمی میں ناانصافی ہو رہی ہے۔ پنجاب باقی صوبوں کے مقابلے میں کم گیس کی پیداوار دیتا ہے لیکن استعمال زیادہ کرتا ہے صوبے میں ٹرانسپورٹ کی ممکنہ ہڑتال کے نتیجے میں بحران پیدا ہو گیا ہے۔ سی این جی بند ہونے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ ڈٰزل اور پیٹورل پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے کرایے بڑھ گئے ہیں۔ ٹراسنپورٹ مہنگی ہو گئی ہے ۔ اس کا تمام تر وزن عام آدمی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سی این جی اسٹیشنز ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ ان کے بند ہونے کے بعد سندھ میں ہزارہا افراد بیروزگار ہو جائیں گے ۔ 
بجلی کے بدترین لوڈ شیڈنگ اور گیس کے بحران کے پیچھے تیل امپورٹ کرنے والی لابی کے ہاتھ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس لابی کی کوشش یہ رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیل امپورٹ ہو۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کو بریفنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ سوئی سدرن اور سوئی ناردن کمپنیوں نے گیس کی اصل طلب اور رسد حکومت سے چھپائے رکھی۔ لگتا ہے کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت کی انتظامی امور پر گرفت کمزور ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بھی بے خبر رہے۔ 
تین روز قبل وزیراعظم نے کراچی کے دورے کے دوران کراچی کی صنعتوں کی گیس بند نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ابھی وزیراعظم کے وعدے کی بازگشت ہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ گیس کمپنیوں نے سندھ میں گیس کا بحران پیدا کردیا ہے۔ گیس کی بدنی سندھ میں احتجاجوں اور امن و امان کے مسئلے کو جنم دے سکتی ہے ۔ یہ احساس اپنی جگہ پر ہے گیس کی زیادہ پیداوار دینے والا صوبہ ہی اس کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’مظاہرین پر تشدد کی روایت کے خاتمہ کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں روز مختلف متاثر لوگ مظاہرے کرتے ہیں۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاجوں کا یہ سلسلہ ہر دور حکومت میں جاری رہا ہے۔ لیکن مظاہرین کو روکنے کے لئے حکومت تشدد کا طریقہ اپناتی ہے۔ صوبے کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب خواہ دیگر مقامات پر احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ دو روز پہلے کراچی پریس کلب کے سامنے پورٹ قاسم اتھارٹی کے ملازمین وزیراعظم عمران خان کی کراچی آمد کے بعد ان کی موجودگی کے دوران گورنر ہاؤس می پہنچنے کی کوشش کی۔ مظاہرین کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لء پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور واٹر کیننگ کی۔ پولیس نے پھوارہ چوک کے پاس رکاوٹیں کھڑی کر کے گورنر ہاؤس جانے والے راستوں کو سیل کر دیا۔ لاٹھی چارج کے بعد متعدد مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔ گرفتار شدگان کی رہائی حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ احتجاج کرنے والے پورٹ قاسم کے وہ ملازمین ہیں جنہیں گزشتہ پناچ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ملازمین بلاوجہ ملازمت سے فارغ بھی کردیا گیا ہے۔ تشدد کے بعد مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ یقین دہانی بغیر تشدد کے بھی کرائی جاسکتی تھی۔ حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کو مظاہروں اور احتجاج پر مجبور نہ کرے، اور اگر کسی وجہ سے احتجاج ہوتا ہے تو تشدد کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کیا جائے۔ 
سندھ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی صدارت میں منعقدہ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبے میں جرائم کے خاتمے اور اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ قائد آباد میں دھماکہ ، چینی قونصلیٹ پر حملہ، گلستان جوہر میں محفل میلاد پر دھماکہ افسوسناک واقعات ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ اسٹریٹ کرائیم کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون میں اصلاحات لائی جارہی ہیں۔ سی آر پی سی دفعہ 30 کے تحت خصوصی میجسٹریٹ اسٹریٹ کرائی کے مقدمات کی سماعت کریں گے۔ اس کے تحت مجرموں کو تین سے پانچ سال تک کی سزا دی جاسکے گی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ موٹر سائکلوں میں بھی ٹریکر لگائے جائیں گے۔ پرانی موٹر سائکلوں کی مارکیٹ میں کارروائی کی جائے گی۔ جرائم کے خاتمے کے لئے قوانین میں اصلاحات ضروری ہیں ۔ کوئی بھی معاشرہ خواہ کتنا ہی ترقی کی بلندیوں پر کیوں نہ ہو، اس معاشرے میں اگر امنو امان نہیں ہے تو لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام تک چل پھر نہیں سکتے۔ ایسی ترقی جلد ہی تنزلی میں بدل جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں کے بجائے اپنے شہر کراچی کی مثال لے سکتے ہیں۔ یہاں ماضی قریب میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری، اور اسٹریٹ کرائیم کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی ۔سرمایہ کار تیزی سے کراچی چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو رہے تھے۔ جس کی وجہ سے شہر کی رونقیں تباہ ہو گئی۔ بعد میں ان عناصر کے خلاف آپریشن کی وجہ سے ماحول پرامن ہوا، تو رونقیں دوبارہ بحال ہو گئی۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور صوبے کے دوسرے
چھوٹے بڑے شہروں ک ہے۔ جہاں رونقیں بحال ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لوگ سکون سے ایک مقام سید وسرے مقام تک جا رہے ہیں لیکن یہ بات ملک دشمن عناصر کو پسند نہیں۔ وہ سندھ سمیت ملک بھر میں کسی بہانے کی آڑ میں خوف کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔ ایپکس کمیٹی میں جو فیصلے کئے گئے فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایپکس کمیٹی کے بائیسویں اجلاس میں مدارس کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا اس پر بھی عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ 



Sindh Nama - Nai Baat- Soahil Sangi - Gas laod Shedding
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
------------- 


لمحے گزرتے اور ماضی بنتے جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ خود کو دیکھتا ہے۔ 


شام ڈھلتے ہی دل پر تھاپ پڑتی تھی۔ڈنگر مویشی کے گلے میں پڑی گھنٹی کی آواز

No comments:

Post a Comment