Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ: غلاظت آلودہ پانی حاضر ہے
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی وجہ سے سندھ حکومت آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو عہدے سے نہیں ہٹاسکی۔ اس کے توڑ کے لئے صوبے میں اعلیٰ پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے کے اختیارات صوبائی وزیر داخلہ جو کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے قریب ہیں انہیں دیئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں صوبائی وزیر داخلہ نے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز عہدے کو افسران کے تقرر اور تبادے بھی کئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے تحت پولیس میں بھرتی کے اختیارات بھی صوبائی پولیس سربراہ سے لے لئے گئے ہیں۔ اختیارات میں مزید کمی کے بعد سندھ میں پولیس کا سربراہ بے اختیار ہو گیا ہے ۔ اب ہوم سیکریٹری پولیس میں اے ایس آئیز کی بھرتی کر سکے گا۔ سندھ پولیس کی کارکردگی گزشتہ دو عشروں سے سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار اس ادارے میں سیاسی مداخلت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ادارے کے بجائے حکومت کے پاس اختیارات منتقل ہونے کے بعد سیاسی مداخلت مزید بڑھ جائے گی اور صوبے میں امن و امان پہلے بھی قابل ستائش نہیں رہا، اور ر صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے بھر میں امن و امان رینجرز کے سہارے کھڑا ہے، سیاسی مداخلت سے پولیس کا رول کم ہو جائے گا۔ نیجے میں یا تو امن ومان کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی یا حکومت کو مزید رینجرز پر انھصار رکنا پڑے گا۔
سندھ ہائی کورت کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں سندھ میں پینے کے صاف پانی کر فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیشن کے سامنے حکومت سندھ کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے ایک اور رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 اضلاع میں پینے کے پانی کے سیمپل کا معائنہ کیا گیا، جس میں سے 83 فیصد پانی انسانی زندگی کے لئے مضر قرار دیا گیا۔ پانی کے سیمپلز کی مائکروبایولاجیک، اور فزیو کیمیکل معائنے سے ثابت ہوا کہ کراچی میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ 33 فیصد پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ ہے۔ تٹھہ میں 75فیصد پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ باقی اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ اس رپورٹ پر سندھ کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ سندھ: غلاظت آلودہ پانی حاضر ہے کے عنوان سے’’روزنامہ کاوش‘‘ اداریے میں لکھتا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات کو میڈیا میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل ایک عدالتی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 70 کی خرابیوں کو چند ماہ میں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ سیکریٹری بلدیات نے عدالت کو بتایا کہ نچلی سطح پر زیادہ سیاست ہونے کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر پا رہے ہیں۔ سیکریٹری صحت نے ان کے پاس ہسپتالوں کے سربراہان کے خلاف کارروائی کے اختیارات نہ ہونے کی شکایت کی۔انہوں نے کہا کہ پانی کی فراہمی محکمہ بلدیات کی ہے اور پانی کو صاف رکنے کی ذمہ داری ہسپتالوں کی ہے۔ قانون کی لاٹھی سے بچنے کے لئے افسران کے پاس عذر اور بہاوں کی تاریخ کے ہر دور میں کمی نہیں رہی۔ اس کیس میں بھی ایک دوسرے ذمہ داری ڈال کر، مختل عذر لنگ پیش کر کے، سیاسی مداخلت کی دلیل دے کر فی الحال اپنی جان چھڑالیتے ہیں۔ لیکن ان کا کیا ہوگا جو عوام کو غلاظتوں سے بھرپور پانی پلا کر کل ان کے پاس ووٹ لینے کے لئے جائیں گے؟ پانی کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹس کے مطابق 14 اضلاع میں فراہم کیا گیا پانی مضر صحت ہے۔ ستم در ستم یہ کہ ان اضلع میں موجود 71 ہسپتالوں کا پانی بھی انسانی زندگی کے لئے درست نہیں۔ صوبے کے شہروں میں پینے کے پانی کی صورتحال یہ ہے کہ کلورین ڈالنے سے بھی وہ استعمال کے قابل نہیں بن سکتا۔ پھر بھی وزیراعلیٰ سندھ سندھ کہتے ہیں رپورٹ پڑھے بغیر رائے دی جارہی ہے۔ ان رپورٹس کے حقائق سامنے آنے کے بعد بھی صوبے سربراہ بضد ہیں۔
بہانے اور الٹے سیدھے دلائل افسران کو تو بچا سکتے ہیں لیکن منتخب نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ وہ آئندہ انتخابات کے لئے کس منہ سے عوام کے پاس ووٹ لینے کے لئے جائیں گے؟ جب ان کی کارکردگی اس رپورٹ کے ذریعہ آئینے کی شکل میں ہے، وہ کونسے دعوے اور نئے وعدے کریں گے؟ اپنی خراب حکمرانی کا کن دلائل کے ذریعے دفاع کریں گے؟ حکمرانوں کے پا بڑی بڑی باتیں ضرور ہیں لیکن جب ان سے ان چھوٹی باتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
70 کی خرابیوں کا بہانہ بنا کر جان چھڑانے کی بات نہیں، یہ معاملہ براہ راست انسانی زندگی سے منسلک ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے سندھ کا ہر تیسرا باشندہ یرقان، چمڑے اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران پھر بھی کہتے ہیں کہ ان کی پیش کی گئی رپورٹس کو کوریج نہیں ملتی۔ لازمی ہے کہ سندھ کا چیف اگزیکیوٹو یہ قبول کرے اور عام شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
تعلیمی اداروں کو دہشتگردی سے بچانے کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کئے گئے اقدامات اب اس موڑ پر آکر پہچنے ہیں کہ جب تک تعلیمی اداروں کو دہشتگردی سے محفوظ نہیں بناتے تب تک دہشتگردی کے خلاف جنگ کو مکمل نہیں کہہ سکتے۔ کراچی سے موصلہ خبر توجہ طلب ہے جس میں انسداد دہشتگردی پولیس نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دہشتگردوں کی نئی کھیپ اب مدرسوں کے بجائے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ابھرنے کا خطرہ ہے۔ کیونکہ یہ تنظیمیں اب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنا نیٹ ورک فعال بنا رہی ہیں۔ یہ نشاندہی صوبے کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیز کے وائیس چانسلرز کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک اجلاس میں کی گئی۔ یہ اجلاس کالعدم تنظیموں اور طلبہ کی اس میں شمولیت کی روک تھام کی حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ماضی میں دہشتگرد نیٹ ورک رکھنے والی انتہا پسندتنظیمیں مدرسوں میں فعال طریقے سے کام کر رہی تھیں۔ جہاں نوجوانوں کو منفی تعلیم کے ذریعے دہشتگردی کی طرف راغب کر رہی تھیں۔ لیکن اب انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے مدرسوں کے بجائے یونیورسٹیز کا رخ کیا ہے۔ جہاں طلبہ کی ذہن سازی کا کام سوشل میڈیا اور اپنے نیٹ ورک سے منسلک طلبہ اور اساتذہ کے ذریعے کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ صوبے کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں انتہا پسندی کو روکنے کے لئے جامع پالیسی بنائی جائے اور اس پر موثر عمل درآمد کیا جائے۔
روزنامہ نئی بات ۔۔ ۲۱ جولائی ۲۰۱۷