Saturday, July 8, 2017

پناہ گزینوں کو شہریت کے برابر حقوق کیوں؟ ۔ سندھ نامہ

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
June 30, 2017 
پناہ گزینوں کو شہریت کے برابر حقوق کیوں؟ 
سندھ نامہ  سہیل سانگی 
’’پناہ گزینوں سے پیار کے پیچھے کون سے محرکات ہیں‘‘ کے عنوان سے ’’روز نامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی میزبانی والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمران اول نمبر آنے کی ریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سندھ سمیت ملک بھر میں موجود رجسٹرڈپناہ گزینوں کو اہم قانونی و مالی حقوق دینے اور نئے آنے والے پناہ گزینوں ایسے حقوق دینے کے لئے قومی پناہ گزین قانون کا مسودہ تیار کر کے مشاورت کے لئے صوبوں کو بھیج دیا ہے۔ جس کے تحت پاکستان میں موجود پناہ گزینوں اور غیر ملکیوں کو املاک خرید کرنے ، ملک کے تمام صوبوں میں آسانی سے آنے جانے یا رہائش اختیار کرنے ، بیرون ملک جانے کے لئے پاکستان کے سفری دستاویز جاری کرنے اور بچوں کی تعلیم اور ان کی پیدائش وغیرہ کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے حقوق دینا شامل ہے۔ اس قانون کے بعد صوبائی حکومتیں ایسے افراد کو زبردستی صوبے سے نہیں نکال سکیں گی۔ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو پانچ سال کے لئے پناہ گزین کارڈ جاری کیا جائے گا۔ جس کے تحت وہ قانونی طور پر پاکستان میں قیام کر سکے گا۔ میعاد ختم ہونے کے بعد یہ کارڈ دوبارہ بھی جاری کیا جاسکے گا۔ پناہ گزین پاکستان میں قیام کے دوران کسی فیس یا ٹیکس کی ادائگی سے مستثنیٰ ہونگے۔ سندھ حکومت نے اس قانون کی مخالفت کر تے ہوئے یہ موقف رکھا ہے کہ سندھ میں پہلے لاکھوں پناہ گزین ایک پیچیدہ مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سندھ میں رہاش پذیر پناہ گزینوں کو پہلے واپس ان کے وطن بھیجنے کے بعد نیا قانون بنایا جائے۔ 
وفاقی حکمرانوں کے دلوں میں کیوں پناہ گزینوں کی محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، کہ وہ ان کے لئے تمام سہولیات اور حقوق دینے پر تلے ہوئے ہیں جو آئین کے تحت اس ملک کے شہریوں کوحاصل ہیں۔ دنیا بھر میں پانہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے ’’ بادشاہوں‘‘ کی ادا بھی نرالی ہے۔ وہ ملک کو عالمی یتیم خانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ تقریبا چار عشروں تک افغان پناہ گزینوں کو ٹہرا کر ان کی مہمان داری میں مصروف ہیں۔جن حالات میں ان لوگوں نے افغانستان سے نکل کر پاکستان میں آکر پناہ حاصل کی تھی اب وہاں وہ حالات نہیں۔ اب ان کے ساتھ وہ روش رکھنے کی کوئی منطق نہیں۔ جو بھی پناہ گزین آتے ہیں ان کا رخ سندھ اورخاص طور اسکے دارالحکومت کراچی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ لوگ سندھ کے وسائل پر بوجھ ہوتے ہیں۔ بلکہ یہاں کی ڈیموگرافی کو بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ ملک میں دہشتگردی میں افغان پناہ گزینوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی مل چکے ہیں۔ ان افغان پناہ گزینوں نے پاکستانی شہریت کے قومی شناختی کارڈ اور دیگر ضروری دستاویزات بھی بنا لی ہیں۔ ان کو اب یہاں سے نکالنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان افغنایوں کی وجہ سے کراچی کی کوکھ سے کچی آبادیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک طرف بلڈر مافیا کرچی کے قدیمی گوٹھوں کو بلڈوز کر رہی ہے اور انہیں اپنی ہی سرزمین سے بے گھر اور بے وطن کر رہی ہے دوسری طرف افغانیوں، بنگالیوں، بہاریوں اور برمیوں کی بڑے تعداد میں موجودگی کی وجہ سے سندھ اسمبلی میں نمائندگی بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ وفاقی حکومت کو تھر کے قحط زدگان کی فکر نہیں، اسے صرف ان تارکین وطن کی فکر کھائے جارہی ہے۔ ہم سندھ حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ سے سے زیادہ سندھ کے لوگوں کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس سانحہ بہاولپور پر افسوس کا ظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جن گھروں کی لاشیں سرخانوں میں پہچان کے انتظار پڑی ہوئی ہوں، ان گھروں میں جوکربلا بیت رہی ہوگی اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ انسان مہان ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ لیکن ایسی بیش بہا ہستی کو حرص و ہوس کے معاشی نظام نے اس مقام پر پہنچایا ہے ۔ ددنیا کے معاشی نظام کی بنیاد منافع خوری پر رکھی ہوئی ہے۔ منافع کے لئے قدرتی وسائل کو مارکیٹ کی شیطانی آنت نگل رہی ہے۔ نتیجے میں قدرتی وسائل کے استعمال اور ان کی پیدائش میں توازن نہیں رہا۔ وسائل کے عدم تواز کی وجہ سے اس زمین اور اس کے اردگرد کا ماحول بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ کر آرہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں غربت بڑھ رہی ہے۔ یہ غربت اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کے کئی روپ ہیں۔اس نظام سے عام آدمی اور اسکی سوچ بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کویقین نہیں کہ کبھی برابری کا نظام بھی قائم ہو سکے گا۔ انصاف مل سکے گا، یا مجموعی طور پر ترقی یقینی ہو جائے گی۔ اس کے نزدیک یہ حرفت، کاریگری اور چالاکی کا دور ہے۔ یہ ایک مکمل سوچ بن گئی ہے۔ اس کے لئے نوجوان آگے آئین اور بڑے فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس میں ٹینکر سے گرتے ہوئے تیل پر لوگ جا کر لوٹ مار کی طرح نہ گریں۔ بلکہ خود ضابطگی اور بالغ ذہنی کا مظاہرہ کریں۔ اس کے لئے سماج میں مفید تعلیم اور مناسب تربیت کی ضرورت ہے۔ 
روزنامہ عبرت نئی حلقہ بندی التوا میں کیوں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنرکے سردار محمد رضا کی صدارت میں 2018 کے انتخابات وقت پر منعقد کرانے اور نئی حلقہ بندیوں کے لئے منعقدہ اجلاس میں محکمہ شماریا ت کے چیف نے بتایا کہ مردم شماری کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ اضلاع سے ھاصل کردہ ڈیٹا ک انٹری کی تصدیق کا کام جاری ہے۔ اپریل 2018 تک ضلع سطح کی مردم شماری کی حتمی رپورٹ شایع کی جائے گی۔ اس کے بعد یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کے حوالے کردیا جائے گا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ عبوری ڈیٹا جولائی میں دیا جاسکتا ہے لیکن یہ ڈیٹا حتمی نہیں ہوگاا۔ الیکشن کمشنر نے بتایا کہ جب تک حتمی ڈیٹا نہیں ملتا تب تک نئی حلقہ بندی نہیں ہو سکتی۔اس صورتحال میں ہم مجبور ہونگے کہ 2018 کے انتخابات پرانی حلقہ بندی پر ہی کرائیں۔ مردم شماری کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ آئندہ انتخابات نئی حلقہ بندی کے تحت ہونگے۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی ایک وجہ پرانی حلقہ بندی بھی تھی جو کہ زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتی تھی۔ اس مرتبہ بھی اگر پرانی حلقہ بندی پر انتخابات کرائے گئے ، ایک بار پھر دھاندلی کی شکایات سر اٹھائیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اسکے تمام ادارے کسی طور پر نئی حلقہ بندیوں کو یقینی بنائیں تاکہ کہ ان کی شفافیت برقرار رہ سکے۔ 
30 جون 2017 روزنامہ نئی بات

Keywords: Sindhi Press, Kawish, Sindh Express, Refugees in Pakistan, Afghan Refugees, Delimitation, Elections 2018, Sohail Sangi, Daily Ibrat 

No comments:

Post a Comment