Saturday, July 8, 2017

میگا کرپشن: اور کیا ثبوت چاہئے؟ ۔ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
میگا کرپشن: اور کیا ثبوت چاہئے؟

سندھ نامہ سہیل سانگی 

روزنامہ کاوش ’’میگا کرپشن کا اور کیا ثبوت چاہئے؟ ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ پہلے جب سندھ کے مختلف محکموں مین کرپشن کی بات کی جاتی تھی تو یہ چیخ و پکار مچ جاتی تھی کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ اب جمہوریت کے خلاف یہ سازش خود سرکاری ادارے کر رہے ہیں۔ جو ہر نئے روز نہ صرف عجب کرپشن کی غضب کہانیاں عام کرتے ہیں بلکہ خلق کی زبان بنی ہوئی کہانیوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی میگا کرپشن بینظیر بھٹو ہاؤسنگ اسکیم ہر سال چھ ہزار بے گھر افراد کو گھر تعمیر کر کے دینے کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی رپورٹ میں سیاسی سفارش پر گھر تعمیر کے دینے کی تصدیق کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس اسکیم میں بہت بڑٰ کرپشن ہوئی ہے اور پیسے بٹورے گئے ہیں۔ ٹھٹہ، سجاول، بدین اور دادو میں غیر معیاری گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔ مختلف اضلاع میں وڈیروں نے اپنے کارندوں اور منظور نظر لوگوں کو گھر دیئے ہیں۔ جو اب بطور اوطاق کے استعمال ہو رہے ہیں۔ افسران اور سیاسی شخصیتوں نے گھروں کی تعمیر کے ٹھیکے اپنی این جی اوز کو دیئے ۔
سرکاری محکموں میں کرپشن پہچان بن کر رہ گئی ہے۔ حکومت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچ پاتا اور اسکو بھی کرپشن کا ازدہا نگل جاتا ہے۔ غریبوں کو گھر بنا کر دینے کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب جو اسکیم بنائی گئی تھی اس میں کرپشن کے ہر امکان کو ختم کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس کے برعکس کرپشن کے لئے سازگار ماحول بنا کر دیا گیا۔ پالیسی کے تحت گھر ان ’’غریبوں‘‘ کو دیئے گئے جن کے نام منتخب نمائندوں نے تجویز کئے۔ تیسرے فیز میں انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ غریبوں کی مالی مدد کے اس پروگرام کے تحت کتنے غریب رجسٹرڈ ہیں؟ بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہاؤسنگ اسکیم میں شفافیت نہ رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بینظیر بھٹو کے مشن کو آگے بڑہانے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے اس اسکیم میں کرپشن کرنے والے افراد کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ غیر متعلقہ افرد کو دیئے گئے گھر واپس لئے جائیں۔ 
’’ روزنامہ کاوش ‘‘مزید لکھتا ہے کہ حکومت سندھ قحط سے متاثرہ پونے تین لاکھ افراد کو اعلان کردہ گندم انتظامی لاپروائی اور کوتاہی کے باعث نہیں ہو سکی ہے۔ گندم کی 81 ہزار بوریاں مٹھی سمیت تھر کے مختلف گداموں میں اور اکثر کھلے آسمان کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔ جو کہ بارش ہونے کی صورت میں خراب ہونے کا امکان ہے۔ یہ گندم کون تقسیم کرے؟ یہ معاملہ ضلع انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔ تھر میں امدای گندم پر سیاست ہوتی رہی ہے۔ ممکن ہے کہ تھر کی اس بھوک کا افتتاح جلد ہو ۔ 
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ سندھ میں ماضی کی شاندار اقدار ختم ہو رہی ہیں اور دوسری جانب غربت بڑھ رہی ہے۔ جس سے نئے سماجی مظاہر اور مسائل سامنے آرہے ہیں۔ لاڑکانہ کے قریب شاک میں سے مٹی اٹھانے کے تنازع پر دو فریقین میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہالک اور بارہ بچے زخمی ہو گئے۔ سیوہن میں پلاٹ کے تنازع پر خواتین سمیت گیارہ افراد زخمی ہوگئے۔ پیر گوٹھ کے قریب ایک نوجوان کو بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ اس طرح کی روزانہ کئی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ وہ سرزمین جس کے حاکم نے صرف ساز کے سر پر اپنا سر کا نذرانہ پیش کیا تھا، امان میں دی ہوئی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لئے تلواریں نیام سے نکالی جاتی تھیں، وہاں پر عدم برداشت کا یہ عالم ہو گیا ہے۔ سندھ بھر میں زندگی مان کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ صرف کاروکاری کے انم پر ہی قتل نہیں ہوتے بلکہ سیاسی مخالفت اور نفرت نے بھی ہزاروں لوگوں کیس انسین بند کی ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا دعوا ہے کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔ امن کا یہ پنچھی تقسیم ہند کے وقت ہی اڑ چکا تھا، اس کے بعد اب یہاں پر دہشت اور وحشت کا راج ہے۔ اب یہاں پر نہ مناسب طور پر کاشت ہوتی ہے اور نہ ہی کاروبار۔ نتیجے میں لوگ مالی مشکلات میں دھنستے جارہے ہیں۔ صوبے کا شمالی علاقہ قبائلی اور ذاتی دشمنیوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ جہاں پر اب انتہا پسندی کی علامتیں بھی ظاہر ہوری ہیں۔ 
کسی بھی سماج کے لئے یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ لیکن افسوس کہ اس المیے پر سنجیدگی سے غور رکنے اور اسکا حل نکالنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ 
’’سندھ میں تعلیم : اب محاسبہ ہونا چاہئے ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے صوبائی حکومت نے مختلف اقدامات کئے تھے ان میں سے عالمی بینک سے قرضہ لے کر تعلیم کے شعبے میں مختلف اصلاحی و تربیتی پروگرام شامل تھے۔ ا ربوں روپے قرضہ لیکر شروع کئے گئے مختلف پروگراموں کے بارے میں اب رپورٹس آئی ہیں کہ کوئی بھی مقرر کردہ ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ عالمی بینک سے پہلے 30 کروڑ اور دوسرے مرحلے میں 40 کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا۔ یہ رقومات خرچ ہو گئیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ لیکن صوبہ 37 ارب روپے کا مقرض ہوگیا۔ عالمی بینک کی جانب سے میرٹ پر اساتذہ کی بھرتی، اور اور بچوں کے داخلے میں اضافہ کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔ عالمی بینک کے اس منصوبے کے تحت صوبے بھر میں اسکول منیجمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینی تھی لیکن ان کی تشکیل بھی مکمل نہیں ہو سکی۔ اسکول اسپیسفک بجٹ بھی خرچ نہیں ہو سکا۔ 2011- 12 میں یہ بجٹ ساڑھے تین ارب میں سے صرف 51 کروڑ خرچ ہو سکی۔ جبکہ 2012-13 میں تین ارب چھہتر کروڑ میں سے صرف ساڑھے تین ارب روپے خرچ ہوئی۔2014-15 میں رقم بڑاھئی گئی لیکن ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوئی۔ لہٰذا کلاس رومز کا سامان لیبارٹریز، لائبریریز کا قیام اور کھیلوں کے سامان کی فراہمی نہیں ہو سکی۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی کارکردگی۔ اس حکومت کو اب دس سال ہونے کو ہیں ، لیکن وہ تعلیم کا شعبہ درست نہیں کر سکی۔ میرٹ کو یکسر نظرانداز کر کے اساتذہ کی بھرتاں کی گئی۔ سندھ میں تعلیم کے بگاڑ کی اور کیا وجہ تلاش کی جائے؟تعلیم کے ساتھھ حکمرانوں کی یہ روش اب ناقابل برداشت ہے۔
Sindh Nama
Nai Baat June 24, 2017 

No comments:

Post a Comment