Saturday, July 8, 2017

این ایف سی ایوارڈ کے لئے صوبے قصوروار کیوں؟ ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
این ایف سی ایوارڈ کے لئے صوبے قصوروار کیوں؟ 

سندھ نامہ سہیل سانگی 

ملک بھر میں پاناما کیس کی جے ٹی آئی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ اخبارات کے کالم، اداریئے صرف انہی موضوعات کو زیر بحث لار ہے ہیں۔ اتنے تیز بخار کی وجہ سے نہ وفاقی بجٹ اور نہ صوبائی بجٹس میڈیا خواہ سیاستدانوں میں زیر بحث آسکے۔ مقامی اور صوبائی سطح کے مسائل بہت ہی ک زیر بھث آسکے۔
روزنامہ کاوش ’’این ایف سی ایوارڈ نہ دینے کے لئے صوبے ذمہ دار کیوں ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت نے ا پنی آئینی مدت کے پورے کرنے کے آخری سال اول اور الیکشنی بجٹ حزب مخالف کے بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریکارڈ مختصر ترین مدت یں منظور کر لیا۔ نواز لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے خود ہی بجٹ بنایا اور خود ہی منظور کر لیا۔ حزب اختلاف کی کٹوتی کی تحاریک پراس کے بائیکاٹ کی وجہ سے ذرا بھی غور نہیں کیا۔
ایک عرصے سے صوبے وفاق حکومت کی جانب سے بروقت قومی مالیاتی ایوارڈ نہ دینے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ پر سندھ اور خیبر پختونخوا کی یہ تنقید ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر یہ بجٹ بنایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ نئے مالیاتی ایوارڈ کے بغیر سندھ کو یہ بجٹ منظور نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کے لئے صوبوں کو ذمہ دار ٹہریا ہے۔ جو کہ درست نہیں اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ایوارڈ پانچ سال کے لئے ہوتا ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ کے اس دعوے کو بھی جھٹلایا کہ بجٹ کا مالیاتی ایوارڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ بھی ہو یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق صوبوں کو ان کے مالی حقوق و اختیارات دے۔ جبکہ وفاقی حکوم،ت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر صوبے کشمیر، گلگت بلتستان ار فاٹا کے لئے قابل تقسیم پول میں سے مالی حصہ نہیں دے رہے ہیں ، اس تنازع کو حل کرنا بھی وفاق کی ہی ذمہ داری ہے۔ لیکن وفاقی وزیر خزانہ اس کی تمام تر ذمہ داری صوبوں پر ڈال رہے ہیں۔ 

ملکی تاریخ میں وفاق کے ساتھ صوبوں کے پانی اور مالیاتی امور کے تنازعات چلتے رہے ہیں۔ ان تنازعات کے آئینی حل کے لئے مشترکہ مفادات کی کونسل جیسے فورم بنائے گئے۔ بدقسمتی سے وفاق کے ساتھ صوبوں کا اعتماد کی فضا نہیں بن پائی ہے۔ اس عدم اتعماد کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ نہ ہونا بھی ہے۔ 

انتخابات کی موسم قریب ہے اور سیاست کا درجہ حرارت میں اضافہ ایوانوں خواہ ایوانوں سے باہر بڑہتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جس کا فائدہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو مل رہا ہے۔ حزب اختلاف نے بائیکاٹ کر کے بجٹ میں بہتر تاجویز شامل کرانے کا موقعہ ہاتھ سے گنوا دیا۔ اس کا نقصان اور کسی کو نہیں بلکہ عوام کو ہوا۔ اگر اپوزیشن ایوان میں موجود ہوتی اور اپنی سفارشات پر زور دیتی یقیننا حکومت پر اس کا سیاسی کواہ اخلاقی دباؤ بڑھ جاتا۔ اپوزیشن کا تمام تر زور اس پر رہا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں ار کارجہ پالیسی کے بارے میں ایوان کو بتائیں۔ وزیراعظم کو یقیینا ایسا کرنا چاہئے تھا۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم حزب اخلاف کے تمام مطالبات کا تدارک نہیں کر سکتے تھے لیکن ایک حد تک ان کو اعتماد میں لینے کی فضا یقیننا بنتی۔ جو کہ قائد ایوان نہیں کر سکے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی انا کا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ 

روز نامہ عبرت کے کالم نگار مٹھل جسکانی نے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کی اختیارات نہ ہونے کہ شکایت پت تفصیلی اور دلچسپ کالم لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں بلدیاتی ا داروں کی سربراہی کے لئے کوئی عام آدمی انتخابات نہیں لڑتا۔ اس کے سیاسی و سماجی تعلقات، روابط ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ انتخاب جیتتا ہے۔ لہٰذا وہ ہر حوالے سے بااثر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے منتخب حضرات عام لوگوں کی شکایات و تکالیف سنکر ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ اس کے لئے عذر لنگ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں۔ یہ درست ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اکٹیارات کا از سرنو تعین کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اہم امر یہ ہے کہ یہ منتخب نمائندے کس طرح سے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں؟ کیا ان نمائندوں نے عوام کی شکایات کے حوالے سے مناسب تمام قانونی و سیاسی طریقے استعمال کر لئے ہیں؟ کیا انہوں نے وہ تمام روابط استعمال کر لئے ہیں جو کہ ان کی کمایابی کی وجہ بنے تھے؟ صرف اختیارات نہ ہونے کی شکایت کرنے سے زیادہ عقل اور طریقکار استعمال رکنے کی ضرورت ہے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں روزمرہ کے حالات کے بارے میں دو قسم کی رپورٹس شایع ہوتی ہیں ۔ ایک حکمرانوں کے ان دعوؤں کی ہوتی ہے جس میں صوبے بھر میں ترقی کے منصوبے زیر عمل بتائے جاتے ہیں۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ زراعت میں آگے بڑھ رہے ہیں ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں تعمیلی نظام بہتر ہو رہا ہے۔ نئے شہر تعمیر کئے جارہے ہیں پرانوں کو بہتر کیا جارہا ہے سندھ کے قدرتی وسائل کے لئے وفاق کے ساتھ جدوجہد کی جارہی ہے۔ 

دوسری صورت ان حقائق کی ہے۔ ہر جگہ پر پولیس مقابلوں میں بے گناہ لوگ مارے یا زخمی کئے جارہے ہیں۔ اقتادری ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سرداروں اور بڑے زمیندار وں کی سربراہی میں منعقدہ غیر قانونی جرگوں کے ذریعے معصوم لڑکیوں کے رشتے جرمانے اور ہرجانے یا معاوضے کے طور پر دیئے جارہے ہیں۔ مخالفین کو گاؤں بدر کیا جا رہا ہے۔ بڑے زمیندار چھوٹے زمینداروں کے حصہ کا پانی زبردستی چھین رہے ہیں۔ اور جب ان کی زمینیں ویران ہو جاتی ہیں تو کوڑیوں کے بھاؤ یہ زمینیں وہی بڑے زمیندار خرید کر رہے ہیں ۔ سندھ کے سینکڑوں اسکولوں کو آج بھی تالے لگے ہوئے ہیں ۔ صوبے کے کسی بھی ہسپتال میں جائیں غریب اور بے پہچ لوگوں کی قطاریں ہپیں جنہیں مناسب علاج معالجے کی سہولت نہ دی جاتی۔ بدحالی کا یہ عالم ہے کہ مائیں اپنے معصوم بچوں کو ساتھ لے کر کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں ۔

 ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں تعلیم کی صورتحال ملک بھر میں سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ تصویر کا دوسرا اور حقیقی رخ ہے۔ حکومت کو اس اصلی صورتحال کو ماننا چاہئے اور اس کو بہتر بناے کے لئے تریدوں کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
Nai Baat June
NFC Award, Kawish, Sohail Sangi, Daily Ibrat, Sindh Express  

No comments:

Post a Comment