Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
July 7, 2017
’’گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ‘‘
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق کے نمائندہ گورنر سندھ نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مایوس کن کارکردگی اور عوام میں بڑہتے ہوئے احساس محرومی پر پر وفاق آنکھیں بند کر کے خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ سندھ کے عوام کا اھساس محرومی ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہالہ کے قریب بھانوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ سندھ ترقی کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پینے کا صاف پانی سمیت تعلیم، صحت اور سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی حکومت لوگوں کو پینے کا پانی مہیا نہیں کر سکی ہے۔ حالیہ بارشوں میں کراچی میں حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔ جہاں عوام خواہ کارواری زندگی معطل ہوگئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ ایک عرصے سے مختلف معاملات پر دھوکے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں ہزاروں نوجوان تعلیمی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے موجودہ جمہوری حکومت کے منتخب نمائندوں کے دفاتر اور گھروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کئی خاندانوں کو غربت کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ یہ حکمران اور منتخب نمائندے جب اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں ان کی ترجیحات غریب ووٹرز، ان کی غربت اور انہیں اس غربت سے نکالنا نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور عیش عشرت بن جاتی ہیں۔
گورنر محمد زبیر نے عوام کی تکالیف کا اظہار تو کیا ہے ۔ چونکہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندہ ہیں اس لئے یہاں کے عوام ان سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ نواز لیگ نے وفاق میں حکومت کے چار مکمل کر لئے ہیں اور پانچواں سال بھی مکمل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ بتایا جائے کہ وفاقی اداروں میں میں سندھ کے نوجوانوں کو اس کے کوٹہ کے تحت کتنی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت فوائد دیئے جاتے ہیں، مگر سندھ کو اس کا جائز حق اور حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ سندھ کا پانی چوری کر کے یہاں کی زمینیں بنجر کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف یہاں سے نکلنے والی گیس کے استعمال میں بھی سندھ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ گورنر سندھ ایل این جی کے معاملے سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ بتائیں کہ سندھ کی گیس باہر بیچ کر اس کے بدلے سندھ کو مہنگی گیس دینا کہاں کا انصاف ہے؟ وفاق اگر سندھ کو این ایف سی ایوارڈ دینے کی بات کرتا ہے تو یہ اس کا احسان نہیں ۔سندھ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کے تمام اہداف بھی پورے کرتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو قدرتی وسائل پر اختیارات ھاصل ہیں لیکن پھر بھی وفاق تیل اور گیس کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ ایسا کر کے صوبائی معاملات میں مداخلت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے۔ بات تو ہر کوئی کر لیتا ہے لیکن اپنی ذمہ داری قبول کرنے یا اپنی غلطی یا خامی کا اقرار کرنے اور اس کو درست کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بجائے اس کے کہ وفاق اور سندھ عوام کے بھلے کے لئے مل کر کام کریں ، وہ ایک دوسرے پر تنقید، منفی سیاست، اور الزام تراشی کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ نتیجے میں غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ وفاق جانتا ہے کہ سندھ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنے طور پر صوبے کو بڑے پیمانے پر ترقی دلا سکتا ہے۔ لیکن کہیں وفاق کے اعتراضات آڑے آتے ہیں تو کہیں صوبائی حکومت کی نااہلی اور کاہلی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کوئی جامع حکمت عملی بنائی ہے جس سے مقامی لوگوں کو ان وسائل کا پھل ملے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران خواہ وفاقی ہوں یا صوبائی، وہ دانستہ طور پر عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
’’بڑہتے جرائم بہترین حکومتی کارکردگی کی مثال‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اخباری صفحات پر کسی کونے میں کرائیم ڈائری شایع ہوتی تھی۔ جس میں جرائم کی خبریں ہوتی تھیں۔ لیکن اب یہ کرائیم ڈائری تمام حدودپھلانگ اتنی وسیع ہوگئی ہے تمام اخباری صفحات کرائیم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو معاشرہ کا آئینہ مانا جاتا ہے، اس آئینے میں اگر کسی کو اپنا چہرہ مکروہ، یابھیانک نظر آتا ہے ، اس میں میڈیا کا کیا قصور؟ معاشرے میں جرائم کی شرح سے طرز حکمرانی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سندھ میں ویسے بھی جرائم کی رفتار اور شرحس کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ اب یہاں انارکی اوت تشدد کے واقعات بھی زیادہ ہونے لگے ہیں۔ خونریزی، قتل و غارت سے کون سے سماج کی عکاسی ہوتی ہے؟ فرد کی کونسی نفسیات عیاں ہوتی ہے۔
سندھ کے کئی اضلاع بھوتاروں کو بطور بخشش دیئے ہوئے ہیں۔، جہاں ان کی بادشاہی چل رہی ہے۔ یہاں پر ریاست کے قانون کے بجائے بھوتار کا قانون چلتا ہے۔ جرم بھوتاروں کی معیشت ہے۔ ان بااثر شخصیات کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رہتی آئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ جرائم کو اختیار و اقتدار کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ نے جرگوں کے نام پر متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے۔ جہاں وہ عصمت اور زندگی ک کی قیمت طے کرنے اور لگانے میں آزاد ہیں۔ کسی بھی سماج کو ترتیب اور تنظیم میں لانے کے لئے ریاست کا قانون موجود ہوتا ہے۔ اس قانون پر عمل کراکے معاشرے کو منظم اور امن کے راہ پر چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ریاستی قانون ہائبرنیشن میں چلا جائے وہاں جرائم کو سازگار ماحول ملتا ہے۔ جرائم میں اضافہ حکمرانی کے کس قسم کو ظاہر کرتاہے؟ یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
تشدد اور انارکی میں اضافہ معاشرے میں موجود افراد کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ انارکی اور تشدد میں اضافہ کے اسباب میں دیگر عوامل علاوہ ڈی پولیٹیسائیز ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔اس اہم عنصر کو حکومت اور پالیسی ساز نظرانداز کر رہے ہیں۔ پہلے سیاستداں عوام کی بے اطمینانی اور غصے کو اجتماعی قوت میں تبدیل کرنے کے آرٹ سے آشنا تھے۔لیکن آج کے سیاستدان یہ عمل ہی بھول چکے ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاست سے مایوس افراد اپنی محرومیوں کا غصہ انفرادی جھگڑوں، انارکی، اور تشدد کے ذریعے نکال رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی نے نیب کا 1999 کا قانون ختم کرکے صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے قانون کا بل منظور کر لیا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اس پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کون سا قانون وفاق کے اختیار میں ہے اور کون سا صوبائی اختیار ہے یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ضرور ہے لیکن ہماری نظر میں اسے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ قانون استعمال کس طرح سے ہوتا ہے۔ کرپشن کے خلاف قانون شروع سے موجود ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی مثال ہے کہ یہ قانون غیرجانبداری سے استعمال ہوا ہو؟ خاص طور پر طاقتور طبقات کے خلاف۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ذاتی تحفظ اور مفادات کی آڑ قانونی پیچیدگیوں کے دروازے کھڑے کرنے کے بجائے اداروں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ معاشرے سے کرپشن کا ناسور ختم کر سکیں۔
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق کے نمائندہ گورنر سندھ نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مایوس کن کارکردگی اور عوام میں بڑہتے ہوئے احساس محرومی پر پر وفاق آنکھیں بند کر کے خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ سندھ کے عوام کا اھساس محرومی ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہالہ کے قریب بھانوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ سندھ ترقی کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پینے کا صاف پانی سمیت تعلیم، صحت اور سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی حکومت لوگوں کو پینے کا پانی مہیا نہیں کر سکی ہے۔ حالیہ بارشوں میں کراچی میں حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔ جہاں عوام خواہ کارواری زندگی معطل ہوگئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ ایک عرصے سے مختلف معاملات پر دھوکے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں ہزاروں نوجوان تعلیمی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے موجودہ جمہوری حکومت کے منتخب نمائندوں کے دفاتر اور گھروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کئی خاندانوں کو غربت کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ یہ حکمران اور منتخب نمائندے جب اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں ان کی ترجیحات غریب ووٹرز، ان کی غربت اور انہیں اس غربت سے نکالنا نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور عیش عشرت بن جاتی ہیں۔
گورنر محمد زبیر نے عوام کی تکالیف کا اظہار تو کیا ہے ۔ چونکہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندہ ہیں اس لئے یہاں کے عوام ان سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ نواز لیگ نے وفاق میں حکومت کے چار مکمل کر لئے ہیں اور پانچواں سال بھی مکمل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ بتایا جائے کہ وفاقی اداروں میں میں سندھ کے نوجوانوں کو اس کے کوٹہ کے تحت کتنی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت فوائد دیئے جاتے ہیں، مگر سندھ کو اس کا جائز حق اور حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ سندھ کا پانی چوری کر کے یہاں کی زمینیں بنجر کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف یہاں سے نکلنے والی گیس کے استعمال میں بھی سندھ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ گورنر سندھ ایل این جی کے معاملے سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ بتائیں کہ سندھ کی گیس باہر بیچ کر اس کے بدلے سندھ کو مہنگی گیس دینا کہاں کا انصاف ہے؟ وفاق اگر سندھ کو این ایف سی ایوارڈ دینے کی بات کرتا ہے تو یہ اس کا احسان نہیں ۔سندھ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کے تمام اہداف بھی پورے کرتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو قدرتی وسائل پر اختیارات ھاصل ہیں لیکن پھر بھی وفاق تیل اور گیس کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ ایسا کر کے صوبائی معاملات میں مداخلت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے۔ بات تو ہر کوئی کر لیتا ہے لیکن اپنی ذمہ داری قبول کرنے یا اپنی غلطی یا خامی کا اقرار کرنے اور اس کو درست کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بجائے اس کے کہ وفاق اور سندھ عوام کے بھلے کے لئے مل کر کام کریں ، وہ ایک دوسرے پر تنقید، منفی سیاست، اور الزام تراشی کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ نتیجے میں غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ وفاق جانتا ہے کہ سندھ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنے طور پر صوبے کو بڑے پیمانے پر ترقی دلا سکتا ہے۔ لیکن کہیں وفاق کے اعتراضات آڑے آتے ہیں تو کہیں صوبائی حکومت کی نااہلی اور کاہلی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کوئی جامع حکمت عملی بنائی ہے جس سے مقامی لوگوں کو ان وسائل کا پھل ملے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران خواہ وفاقی ہوں یا صوبائی، وہ دانستہ طور پر عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
’’بڑہتے جرائم بہترین حکومتی کارکردگی کی مثال‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اخباری صفحات پر کسی کونے میں کرائیم ڈائری شایع ہوتی تھی۔ جس میں جرائم کی خبریں ہوتی تھیں۔ لیکن اب یہ کرائیم ڈائری تمام حدودپھلانگ اتنی وسیع ہوگئی ہے تمام اخباری صفحات کرائیم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو معاشرہ کا آئینہ مانا جاتا ہے، اس آئینے میں اگر کسی کو اپنا چہرہ مکروہ، یابھیانک نظر آتا ہے ، اس میں میڈیا کا کیا قصور؟ معاشرے میں جرائم کی شرح سے طرز حکمرانی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سندھ میں ویسے بھی جرائم کی رفتار اور شرحس کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ اب یہاں انارکی اوت تشدد کے واقعات بھی زیادہ ہونے لگے ہیں۔ خونریزی، قتل و غارت سے کون سے سماج کی عکاسی ہوتی ہے؟ فرد کی کونسی نفسیات عیاں ہوتی ہے۔
سندھ کے کئی اضلاع بھوتاروں کو بطور بخشش دیئے ہوئے ہیں۔، جہاں ان کی بادشاہی چل رہی ہے۔ یہاں پر ریاست کے قانون کے بجائے بھوتار کا قانون چلتا ہے۔ جرم بھوتاروں کی معیشت ہے۔ ان بااثر شخصیات کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رہتی آئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ جرائم کو اختیار و اقتدار کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ نے جرگوں کے نام پر متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے۔ جہاں وہ عصمت اور زندگی ک کی قیمت طے کرنے اور لگانے میں آزاد ہیں۔ کسی بھی سماج کو ترتیب اور تنظیم میں لانے کے لئے ریاست کا قانون موجود ہوتا ہے۔ اس قانون پر عمل کراکے معاشرے کو منظم اور امن کے راہ پر چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ریاستی قانون ہائبرنیشن میں چلا جائے وہاں جرائم کو سازگار ماحول ملتا ہے۔ جرائم میں اضافہ حکمرانی کے کس قسم کو ظاہر کرتاہے؟ یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
تشدد اور انارکی میں اضافہ معاشرے میں موجود افراد کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ انارکی اور تشدد میں اضافہ کے اسباب میں دیگر عوامل علاوہ ڈی پولیٹیسائیز ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔اس اہم عنصر کو حکومت اور پالیسی ساز نظرانداز کر رہے ہیں۔ پہلے سیاستداں عوام کی بے اطمینانی اور غصے کو اجتماعی قوت میں تبدیل کرنے کے آرٹ سے آشنا تھے۔لیکن آج کے سیاستدان یہ عمل ہی بھول چکے ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاست سے مایوس افراد اپنی محرومیوں کا غصہ انفرادی جھگڑوں، انارکی، اور تشدد کے ذریعے نکال رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی نے نیب کا 1999 کا قانون ختم کرکے صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے قانون کا بل منظور کر لیا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اس پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کون سا قانون وفاق کے اختیار میں ہے اور کون سا صوبائی اختیار ہے یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ضرور ہے لیکن ہماری نظر میں اسے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ قانون استعمال کس طرح سے ہوتا ہے۔ کرپشن کے خلاف قانون شروع سے موجود ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی مثال ہے کہ یہ قانون غیرجانبداری سے استعمال ہوا ہو؟ خاص طور پر طاقتور طبقات کے خلاف۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ذاتی تحفظ اور مفادات کی آڑ قانونی پیچیدگیوں کے دروازے کھڑے کرنے کے بجائے اداروں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ معاشرے سے کرپشن کا ناسور ختم کر سکیں۔
Nai Baat, Sindhi Press, Sindh Nama, Anti-corruption Law, NAB, PPP, Governor Sindh, Kawish, Sindh Express, Law & Order, Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment