Thursday, July 20, 2017

ورکرز ویلفیئر فنڈ : سندھ کا 50 فیصد حصہ ۔ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
ورکرز ویلفیئر فنڈ : سندھ کا 50 فیصد حصہ 

سندھ نامہ سہیل سانگی 
اسلام آباد میں سیاسی موسم کی گرما گرمی ملک بھر کی میڈیا پر چھائی رہی۔ اس میں سندھی اخبارات کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اس میڈیا نے بھی جے آئی ٹی رپورٹ، اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرے، تجزیے، کالم،مضامین اورا ریے لکھے۔ سندھی میڈیا کا ر رول ہمیشہ مجموعی طور پر جمہوریت دوست رہتا ہے۔ یہ رویہ اس مرتبہ بھی جاری رکھا۔ وہ منتخب وزیراعظم ، منتخب پارلیمنٹ اور جمہوری نظام کی حامی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح کے معاملات بھی زیر بحث رہے۔ سندھ حکومت نے وفاقی قانون احتساب آرڈیننس کو ختم کر کے صوبے کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے قانون کا بل م سندھ اسمبلی سے منظور کرالیا ہے۔ مجوزہ قانون پر سندھ حکومت زیادہ سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ اینٹی کرپشن ایجنسی کے قیام کے لئے تیاری مکمل کر لی ہے۔ اس مقصد کے لئے سوا تین ارب روپے گاڑیوں اور دفاتر کے لئے اور 600 ملازم بھرتی کرنے کی سمری تیار کر لی ہے۔ 
اس کے علاوہ سندھ نے ورکرز ویلفیئر فنڈ کی وصولی کا معاملہ وفاق کے پاس اٹھایا ہے۔ اس فنڈ کی صوبائی حکومت کی جانب سے وصولی کی قانون سازی گزشتہ سال ہی کرلی گئی تھی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتیں یہ فنڈ وصول کر رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں سندھ حکومت نے پیٹرول پمپس اور کاروباری اداروں سے 2 ارب روپے وصول کئے جبکہ ایف بی آر نے 6 ارب روپے وصول کئے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد محنت کا شعبہ صوبائی سبجیکٹ ہے۔ لہٰذا ایف بی آر اس مد میں صوبوں سے وصولی نہیں کر سکتی۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مد میں ملک بھر میں ہونے والی وصولی میں پچاس فیصد حصہ سندھ کا ہے لیکن جب یہ رقم تقسیم کی جاتی ہے تو سندھ کو اتنا حصہ نہیں ملتا۔ صوبائی حکومت اس معاملے پر وفاق سے خط وکتابت کر رہی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی ارادہ رکھتی ہے کہ وفاق نے اگر مثبت جواب نہیں دیا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ ملک میں اولڈ ایج بینیفٹ ادارے کی اربوں روپے کی عمارات ہیں۔ نہ صوبائی حکومتوں کو اس سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ معارات صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں۔ سندھ حکومت نے ایک اور بھی فیصلہ کیا ہے کہ صوبے میں نجی شعبے میں قائم کئے گئے سات بجلی گھروں کو ڈیڑھ ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ یہ بجلی گھر اومنی گروپ اور اسکی ذیلی اور شراکتی کمپنیوں کے بتائے جاتے ہیں۔ جس میں بعض وہ یونٹ بھی شامل ہیں جن کو گیس نہ فراہم کرنے کے معاملہ پروفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ نیپرا نے ان بجلی گھروں کی بجلی کی قیمت 10 روپے فی یونٹ مقرر کی تھی۔ جس کے بعد سندھ حکومت نے قانون سازی کر کے ان کمپنیوں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ اب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سبسڈی کی رقم مختص کر دی ہے۔ 
’’ترقیاتی کاموں کے نام پر ماحول اور دھرتی دشمنی ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے درختوں کو کاٹنا زمین اور ماحول کی دشمنی کے مترادف ہے ۔ اس ماحول اور دھرتی کی دشمنی میں اب وہ ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں جن کا کام دھرتی اور ماحول کا تحفظ ہے۔ گزشتہ سال سندھ یونیورسٹی سینکڑوں درخت کاٹ دیئے۔ دو سال پہلے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام نے 600 درخت کا ٹ دیئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے گزشتہ ایک ہفتے میں سندھ زرعی یونورسٹی اپنی حدود میں تقریبا دو درجن درخت کاٹ چکی ہے۔ عینی دو تین سالوں میں ان تعلیمی اداروں نے ایک ہزار سے زائد درخت کاٹ دیئے۔ اس حساب سے ہمارے تعلیمی ادارے ایک درخت روز کاٹ رہے ہیں۔درخت اگانے کے بعد بڑا ہونے میں کئی سال لگتے ہیں۔ لیکن ہماری یونیورسٹیوں کے صاحب لوگ برسوں میں بڑے ہونے والے درخت دنوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ ترقیاتی کام کے نام پر درختوں کے قتل پر ماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اس طرح سے بدین اور دیگر اضلاع سے بھی درخت کاٹنے کی خبریں شایع ہوئی ہیں۔ مہا کوی رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ جب میں نہیں ہونگا تو میرا لگایا ہوا یہ درخت آپ کے بہار کو نئے پتے دے گا اور یہاں گزرنے والے مسافروں سے کہے گا کہ ایک شاعر نے اس دھرتی سے پیار کیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ درخت لگانا دھرتی سے پیار کرنے کے برابر ہے۔ دوسری معنی یہ بھی نکلتی ہیں کہ درخت کاٹنا دھرتی دشمنی ہے۔ سندھ میں یہ دھرتی دشمنی جا بجا نظر آئے گی۔ ایک طرف ڈاکوؤں کے خاتمے کے نام پر جنگلات کاٹ دیئے گئے۔ صوبے میں کینالوں شاخوں اور پانی کے دیگر بہاؤ پر موجود درخت محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں، پولیس اور ٹمبر مافیا کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے اپنا وجود کھو بیٹھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کینالوں کے کنارے موجود درخت سیلاب کے امکانات اور شدت کو کم کرتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت کو کرتے ہیں، اور بارش کا بھی بعث بنتے ہیں۔ ہم سندھ کے آبپاشی نیٹ ورک پر موجود درختوں کی کٹائی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ مادر عملی جس کی ذمہ داری انسانی خواہ فطری ماحول کو بہتر بنانے کی تربیت دینا ہے، اس ادارے کی جانب سے دختوں کی کٹائی ٹمبر مافیا کی حرکتوں سے مختلف نہیں لگتی۔ 
’’سندھ کے کاشتکاروں کے ساتھ معاشی دہشتگردی‘‘ کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ لگتا ہے کہ صوبے میں محکمہ آبپاشی کا کوئی وزیر ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو سندھ کے مختلف کینالوں، شاخوں وغیرہ کی ابتر صورتحال نہیں ہوتی۔ محکمہ آبپاشی کی نااہلی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف کینالوں میں شگاف پڑ رہے ہیں دوسری طرف کینال اور شاخیں خشک پڑی ہوئی ہیں اور کاشتکاروں کی فصلیں سوکھ رہی ہیں۔ آبپاشی اہلکاروں کی کارکردگی کی قلعی کھولنے کے لئے صرف ایک روز کی خبریں جمع کرنا ہی کافی ہیں۔ خیرپور ضلع میں واقع کھڑا مائنر کو گزشتہ دنوں بیس فٹ شگاف پڑا۔ جس کی وجہ سے گھر اور فصلیں زیرآب آگئیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ شاخون اور مائنرز کے کناروں کی مٹی آبپاشی اہلکار بیچ دیتے ہیں۔ اور کنارے کمزور ہونے کے باعث شگاف پڑتے ہیں۔ خبروں کے مطابق کھڑا مائنر چند ماہ میں پاچ مرتبہ شگاف پڑ چکے ہیں۔ مسلسل پڑنے والے ان شگافوں کی نہ محکمہ آبپاشی نے اور نہ ہی ضلع انتظامیہ نے تحقیقات کرائی۔ 
دوسری طرف کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ جوہی کی دائم شاخ میں پانی نہیں۔میرواہ کینال میں پانچ ماہ سے پانی کی قلت ہے اور کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ان احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔لاڑکانہ کے گاجی کھاوڑ شاخوں میں پانی نایاب ہے۔ یہاں چاول کی بوائی نہیں ہو پائی ہے۔چاول کی فصل نہیں ہوگی تو علاقے کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ اس طرح سے ایک درجن شکایات اور احتجاج صرف ایک روز ہی ریکارڈ کرائے گئے ہیں۔ کاشتکاروں سے بات چیت نہ کرنا اور ان مسائل کو نہ حل کرنا حکمرانوں کی بے حسی اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہیں۔ یہ صورتحال کاشتکاروں کے ساتھ معاشی دہشت گردی ہے جس کا وزیراعلیٰ سندھ کو ذاتی طور پر نوٹس لینا چاہئے۔ 
روزنامہ نئی بات ۱۴ جولائی ۲۰۱۷

No comments:

Post a Comment