Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
کالاباغ ڈیم اور پنجاب کی ہٹ دھرمی
سندھ نامہ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ سہیل سانگی
سندھ میں سیلاب کی صورتحال اور حکومت کی جانب سے کئے گئے ناقص انتظامات، جاری آپریشن اور اس کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے مخالفت اس کے علاوہ نیب کے کرپشن کے حوالے سے سرکاری دفاتر پر چھاپے سندھ کے اخبارات کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ادبی اور ثقافتی محاذ پر بڑا واقعہ بڑے پیمانے پر اور مختلف شہروں میں ممتاز دانشور ابراہیم جویو کی سالگرہ کا منایا جانا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران صوبے کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی آئی جب فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کی جانب سے متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلی میں پیش کی گئی قراداد کی پیپلزپارٹی نے حمایت کردی۔ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انتخابات کب ہونگے؟
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں اور سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ایک بار پھر متنازع منصوبے کالاباغ ڈیم کو مسترد کردیا ہے۔ اب جب سیلاب کا موسم آیا ہے تو ایک بار پھرکالاباغ ڈیم پر قومی اسمبلی میں بحث چھیڑی گئی۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب کی ہٹ دھرمی ہے۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک کی ترقی کا واحد حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے۔ اس لئے کسی اور منصوبے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا۔ ان اراکین کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ ایک بار پھر بے وقت کی راگنی شروع کردی گئی ہے جو ہر مرتبہ چھوٹے صوبوں کا درد سر بنتی ہے۔
مانا کہ پانی انسانی زندگی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس زرعی ملک میں
لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ اور زراعت کے لئے پانی کی
دستیابی ضروری ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ اس وقت اس ملک میں کھڑا ہوا جب
ملک کے بعض صوبے پانی کی اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں جو بچ جاتا ہے وہ دوسرے
صوبوں کو نصیب ہوتاہے۔ یہاں تک کہ ماضی میں کئے گئے پانی کے مختلف معاہدوں
کی خلاف ورزی کی گئی ۔ اس کا نتیجہ ی نکلا کہ ایک صوبہ سرسبز و شاداب ہے
جبکہ دوسرے صوبوں کی زمینیں بنجر اور بے جان بن گئی ہیں۔ پانی نہ ملنے کی
وجہ سے انسان خواہ حیوان پیاسے رہ جاتے ہیں بلکہ معیشت نہ ہونے کی وجہ سے
انسان کے لئے جسم کے ساتھ سانس کا ناطہ برقرار رکھنا محال ہو جاتا ہے۔
ایک
بار پھر اس متنازع منصوبے کا راگ چھیڑا گیا ہے جس کو تین صوبے کئی بار
مسترد کر چکے ہیں۔ ان صوبوں کے لوگ سمجھتے ہیں کالاباغ ڈیم ان کی زندگی
اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس لء یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اس راگ کو
چھیڑنے کے بجائے تینوں صوبوں کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس
معاملے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ برطانوی راج سے آزادی حاصل کئے 67 سال ہوچکے ہیں۔ ان بیتے برسوں کا اگر حساب کیا جائے تو فخر کم اور افسوس زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہامرے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مزید مایوسی ہونے لگتی ہے۔ 67 برس کسی بھی ریاست کے عروج اور زوال کے لئے بڑا عرصہ ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں قومیں اپنی خراب خصلتیں بھول کر نئی راہیں تلاش کر لیتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی شاندار روایات بھولا کر زمانے کی گردش میں گم ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی لگتا ہے کہ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ کس منہ سے ہم اپنے سماج کے بہتر ہونے کی حام مار سکتے ہیں کہ پیسے کی لالچ میں آکر بعض گروہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کر کے اس کی ویڈیوز بناتے ہیں اور یہ ویڈیو کلپس والدین کو دکھا کر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔
ہم نے اس ملک کو ایسا بنا دیا ہے کہ اگر پنچائت فیصلہ کرتی ہے
کہ کسی ملزم کی بہن کے ساتھ بطور ہراجنہ سر عام جنسی زیادتی کی جاتی
ہے۔ اور سماج اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہات ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ
اگر مکان خالی کرانا ہے تو علاقے کے مولوی سے فتوا لیکر سینکڑوں لوگ اس
کے پیچھے لگائے جاتے ہیں۔ پھر اس شخص کو مار دیا جاتا ہے یا زندہ بٹھی میں
جھونک دیا جاتا ہے۔ یہاں ایسا بھی وہتا رہا ہے کہ کوئی ذہنی مریض بچوں
کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد ان کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال
کر جلا دیتا ہے۔
یہاں برسوں سے معصوم بچیاں کارو کاری کی بدترین رسم کی بھینٹ چڑہتی رہتی ہیں۔ برسہا برس تک لوگ دشمنیاں پال کے رکھتے ہیں۔ درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں ان دشمنیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مگر قانون نام کی چیز کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ مہذب سماجوں کی طرح یہاں بھی اعلیٰ ایوان، انصاف گھر، اور دجونوں ایجنسیاں موجود ہیں ، مگر نہیں معلوم کہ یہ سب کن کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔انہیں نہ سماج میں ہونے والی یہ زیادتیاں اور نا انصافیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ کسی امکان پر یقین رکھتی ہیں۔
آج بھی حالت یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے ہوتے ہوئے
بھی سینکڑوں انسانی جانیں گنوانے والے تنازعات کا فیصلہ جرگوں کے ذریعے
ہوتا ہے۔ پنچائتیں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتی ہیں۔ لوگ اپنے ساتھ ہونے
والی زیادتی کا بدلہ خود اپنے طور پر چکاتے ہیں یا یہ قوت نہ ہونے کی صورت
میں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں ان کی حفاظت کے لئے قائم کی
گئی پولیس فورس یا قانون کا سہارا نہیں لیتے۔ انہیں یقین ہے کہ انصاف یا
ازالے کے بجائے انہیں مزید لوٹا جائے گا۔
فرقہ واریت، لسانیت، محکومی اور دیگر سماجی نابرابری جس رفتار سے معاشرے میں بڑہی ہیں انہوں نے نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد کی ہے۔ آج لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی خود کو قید اور تنہا محسوس کرتا ہے۔
ملک کے اعلیٰ اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان حالات کا بغور جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی وڈیرے اور سردار اپنی عدالتیں کیونکر چلاتے ہیں؟ پولیس اور اینجنسیوں کی باوجود ایسے گروہ کیونکر پیدا ہوتے ہیں جو لوگو کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں؟
روزنامہ نئی بات برائے ۱۵ ۔ اگست ۲۰۱۵ع