Friday, August 7, 2015

سندھ کے کچے کے رہائشی, نیب۔ ایف آئی اے, رینجرز Sindh Nama

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
August 7, for Nai Baat 
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
’’روزنامہ کاوش ‘‘ لکھتا ہے کہ یہ اعتراف سندھ کے ارباب اقتدار بھی کر رہے ہیں کہ سندھ کے کچے کے رہائشیوں کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ دریائی بہاؤ میں اضافے کے باعث سندھ کا تمام کچے کا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ دریائی حفاظتی پشتے جو چند سال قبل کے دوسیلابوں میں تباہ ہو گئے تھے، ان کو بعد میں صحیح طور پر مضبوط نہیں کیا گیا۔ 

آج سیلاب کی صورتحال کے بعد کئی مقامات کو حساس قرار دیا جاچکا ہے۔ کئی حفاظتی پشتوں سے پانی سیما کر رہا ہے۔ ایسے مقامات پر لوگ سخت خوف میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ کہ اگر ان پشتوں کو توڑ کر سیلاب آئے گا تو ان کی تمام خوشیاں بھی بہا کر لے جائے گا۔ حکومت کا دعوا ہے کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے پشتوں کی نگرانی کی جارہی ہے وغیرہ۔ صورتحال کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
 کچے کے لاکھوں رہائشی بے گھر اور دربدر ہیں۔ ان کے گھر، فصلیں اور دیگر املاک و اثاثے ڈوب جانے کے بعد وہ کھلے آسمان کے تلے حکومت کی امداد کے آسرے میں بیٹھے ہیں۔ دوسرا خوف ان پشتوں سے ہے۔ اگر یہ حفاظتی پشتے مضبوط ثابت نہ ہوئے تو پانی کا بہاؤ چھوٹا ہو یا بڑا اسے کوئی روک نہیں سکے گا۔
سندھ کے انتظامی سربراہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے یہ بند مضبوط کرائے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کو بھی اس ضمن میں رقم فراہم کرنی چاہئے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کے لئے سیلاب سے بچنے کے لئے فیڈرل فلڈ کمیشن سندھ کے حفاظتی پشتوں کی مرمت کا کام کرائے۔ صوبائی وزیر آبپاشی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے دریائی پشتوں کی اسٹون پچنگ کرانے کے لئے رضامندی ظاہر کی ہے۔ سندھ باسیوں کو گزشتہ دو سیلابوں کا تلخ تجربہ ہے۔ جب سیلاب کے پانی نے پورے سندھ کو ڈبو دیا تھا۔ یہ پانی سلامتی کے ساتھ سمندر تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ اس کی وجہ پانی کے بہت بڑے بہاؤ کو قرار دیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے حفاظتی پشتوں میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ اتنے پانی کا دباؤ برداشت کر سکیں۔ 

ان پشتوں کے کمزور ہونے کی وجہ کرپشن تھی۔ اس کرپشن کی اب خبریں آرہی ہیں کہ محکمہ آبپاشی میں مبینہ کرپشن کا وزیراعلیٰ سندھ نے خود نوٹس لیا ہے۔ جب آبپاشی جیسے اہم اور حساس شعبے میں اتنی بڑی کرپشن ہوئی ہو ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دریائی پشتوں کی مرمت ہوئی ہوگی یا ان پیسے کو دھندہ بنا کر اس رقم کی بندر بانٹ ہوئی ہوگی؟ ہر سال دریائی پشتوں کی مرمت کے لئے بجٹ آتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کو بھی حکومت سندھ سنبھالتی ہے تاکہ یہاں کے لوگ سیلاب سے بچ سکیں۔ ایسے میں حکمرانوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ پشتوں کی مرمت کی مد میں ہر سال مختص کی جانی والی رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟
آج بھی کئی مقامات پر تشویشناک صورتحال ہے۔ دادو مورو پل اور بکھری بند کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ سیوہن کے پاس انڈس ہائی وے زیر آب آگیا ہے۔ کشمور میں زمینداری بند ٹوٹنے کی وجہ سے کئی بستیاں زیر آب آگئی ہیں۔ سگیوں کے مقام پر ایس ایم بند میں اندر سے سوراخ ہو گیا جسے بعد میں بند کردیا گیا۔ آج کی صورتحال میں کچے کے متاثرین کی امداد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمزور پشتوں کی نگرانی اور مضبوطی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جبکہّ ئنہ وقت میں ان پشتوں کی مستقل طور پر مضبوط بنائے بغیر سندگ کے لاکھوں لوگ ہر سال بے گھر ہوتے رہیں گے اور مستقل طور پر خوف میں رہیں گے۔
’’آ پ بھی نیب۔ ایف آئی اے اور رینجرز جیسے ہو کر دکھائیں‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ وزیاعلیٰ سندھ نے ایف آئی اے کی بڑہتی ہوئی سرگرمیوں خواہ رینجرز کی بعض کارروائیوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ تیزی کیوں لائی گئی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس محکمے کی موجودگی میں دیگر اداروں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی۔ وزیراعلیٰ نے ایف آئی اے کے قیام اور اس کے فرائض کے حوالے سے یاد دلایا ہے کہ اس ادارے کو وفاقی اداروں میں اس طرح کے جرائم کے بارے میں کام کرنا ہے۔ لہٰذا اس ادارے کو صوبائی معاملات اور محکمہ جات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں ماہ جولائی میں سوک سینٹر پر رینجرز کے چھاپے کے دوران پیدا ہونے والی بدمزگی کا بھی اظہار کیا۔ اور کہا کہ زمین لینا ہر شہری کا حق ہے۔ اس دفتر میں کئی حساس فائیلیں موجود تھیں۔ دو چار فائلوں کی وجہ سے ہزارہا فائلوں کو تحویل میں لینا کسی طور پر بھی درست نہیں۔
ایک جملے میں بات کو سمیٹا جا سکتا ہے کہ یہ تیزی سندھ کے عوام کی کرپشن کی قوت برداشت کے خاتمے کے بعد سامنے آنے والے مطالبات کی وجہ سے آئی ہے حکومت سندھ نے ان مطالبات پر کبھی توجہ نہیں دی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نیب، ایف آئی اے اور رینجرز کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ بڑی حد تک جائز ہیں۔ ان کے طریقہ کار پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ جن کو ایپکس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر انہیں متعلقہ فورم میں ضرور اٹھانا چاہئے۔
سندھ میں گزشتہ بیس سال سے کرپشن کا بازار گرم ہے۔ امیر اور غریب میں فرق اور فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ شہر لوٹ مار کے ذرائع بن گئے ہیں۔ سیوک سینٹر ہو یا کے ایم سی، یا کسی بھی شہر کی ٹی ایم اے، انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ یہ درست ہے کہ اینٹی کرپشن کے موجود سربراہ ایک ایماندار افسر ہیں۔ مگر جو اس سے پہللے اس عہدے پر فائز تھے انہوں نے کیا کیا؟ ادارے کی کارکردگی کیا رہی؟ انہوں نے کس سے حساب کتاب کیا؟ وزیراعلیٰ نے صرف محکمہ آبپاشی میں سات سال کے دوران پچاس ارب روپے کی کرپشن کی بات کی ہے۔ اس آسمان سے باتیں کرتی ہوئی کرپشن کے بارے میں حکومت سندھ نے کیا اقدامات کئے؟ سندھ کے بعض سیکریٹری لکھا پتی سے ارب پتی بن گئے۔انہیں یہ سب سہولت نیب، ایف آئی اے یا رینجرز نے دی؟ جو سیکریٹری محکمے کے اکاؤنٹ سے پچاس کروڑ روپے نکلوا کر کینیڈا چلے گئے۔ ان کے خلاف حکومت سندھ نے کیا کای؟ صرف کراچی شہر میں 12oo پارکوں کو چائنا کٹنگ کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ ان پارکوں کو پلاٹوں میں تبدیل کرنے میں ایک دن تو نہیں لگا ہوگا۔
سندھ میں غیر ملکیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں تیرہ سال سے آدم بو آدم بو کا ماحول موجود ہے۔ حکومت سندھ نے کیا کیا؟ سندھ پولیس کے 300 افسران اور جوان قتل ہوئے۔ بعض افسران بھی قتل ہوئے۔ سیاسی کارکن بھی قتل ہوئے۔ تب صوبائی محکمے کہاں تھے؟ امن و امان، ترقی، تعلیم، صحت، زراعت کے محکمے برسوں سے کہاں گم ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ سندھ میں تارگٹ کلنگز پر پولیس اور رینجرز نے کنٹرول کیا ہے؟ بیس برس سے وزارت داکلہ اور دیگر محکمے کہاں تھے؟
گزشتہ روز نیب نے لائنز ایریا آبادکاری پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کو پانچ ارب روپے کی کرپشن میں گرفتار کیا گیا۔ سینکڑوں افسران وغیرہ بیرون ملک فرار ہوگئے ہیں۔ اگر وہ ملک میں موجود ہوتے تو گرفتار ہو چکے ہوتے۔ ٹی ایم اوز اور سیکریٹری سطح کے جو ملازمین گرفتار ہوئے ۔ ان کو گرفتار کرنے کے لئے حکومت سندھ کی خود مختاری کہاں تھی؟ سندھ حکومت اپنا حق استعمال کرنا نہیں جانتی۔ تو اسے چیخ و پکار کا بھی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت سندھ آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کو استعمال کرنے کا گر اور مہارتیں جانتی ہے تو ان تمام اداروں کو روک دے ۔ یونورسٹیوں کے وائیس چانسلرز، تعلیمی بورڈز کے سربراہان اور صوبائی سیکریٹریوں سے لے کر مختلف ہسپتالوں کے سربراہوں، کالجوں کے پرنسپالوں اور مختلف ڈپٹی کمشنرز نے اپنی خود مختاری کو استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔ جس نے سندھ کو کنگال بنا دیا ہے۔ اس کے لئے حکومت سندھ نے سات سال کے دوران کیا کیا؟
صرف ایک مرتبہ سندھ کابینہ کھڑے ہوکر کہے کہ اب اگر کسی بھی محکمے میں کچھ ہوا تو اس کے لئے وہ ذمہ دار ہوگی۔ اور آئین میں دی گئی ضمانتوں پر خود صوبائی حکوت عمل کرے گی۔

No comments:

Post a Comment