Friday, August 7, 2015

دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 
 July 24, 2015
’’دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟ ‘‘کے عنوان سے ’’روزنامہ عبرت‘‘ اداریے میں رقمطرازہے کہ دبئی میں منعقدہ پیپلزپارٹی کے اجلاس کو نہایت ہی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے پارٹی سے متعلقہ لوگوں پر کرپشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ جا کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ پنجاب سے بعض اہم رہنما پارٹی سے مایوس ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ سندھ میں بھی بڑی مایوسی کی فضا پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سات سال کے دوران پارٹی کی جو کارکردگی رہی ہے اس نے پارٹی اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے بھی سندھ باقی صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دو ادوار کے دوران امن امان کی صورتحال یہ رہی ہے کہ خوف کے مارے لوگوں کی سانس بندہورہی تھی۔ لیکن حکومت کی توجہ اس طرف نہیں جارہی تھی۔ شاہراہوں پر سفر کرناکانوائے کے بغیر چلنا محال ہوگیا تھا۔ ایسے میں اگر وفاق تحرک نہیں لیتا ، بعض فرض شناس پولیس افسران کو سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات نہیں کرتا ، تو آج صورتحال مزید خراب ہوتی۔ اس لاپروائی کے رویے نے عام لوگوں کو پیپزلپارٹی سے دور کر دیا ہے۔ ایسے میں بلدیاتی انتخابات پارٹی کو امتحان میں ڈال سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے کابینہ میں ردوبدل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ تب تک سودمند ثابت نہیں ہو سکتا جب تک مجموعی طور پر حکومت سے متعلق حضرات بشمول وزراء کے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام نہیں کریں گے۔
پارٹی کی حکومت کے دو ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قیادت خواہ وزراء اورفسران تک عوام کو بھلا کر خود کو بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جب ملک خاص طور پر سندھ میں سیلاب کے امکانات بتائے جارہے ہیں، فوج کو الرٹ کیا جا چکا ہے، ایسے میں حکومت سندھ کے ذمہ داران اگر دبئی میں اجلاس منعقد کریں تو اس پر تنقید تو ہوگی۔ اگر پیپلزپارٹی عوام کے لئے واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو ابھی بھی وقت مکمل طور پر ہاتھوں سے نہیں نکلا ہے۔ اب بھی پارٹی سچائی اور عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان میں آئے۔ تو سندھ کے عوام جس نے پیپلز پارٹی کا برے دنوں میں ساتھ دیا ہے وہ ایک بار پھر ساتھ نبھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ اگر اس مرتبہ بھی حکومت سندھ نے روایتی روش اختیار کی تو آنے والا وقت پیپلزپارٹی کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سیلاب کا پانی سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں گھوٹکی اور کشمور کے کچے کا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ لاکھوں لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں ۔ ہزرہا ایکڑ پر کھڑی فصلیں ڈوب چکی ہیں۔ صوبائی سیکریٹری آبپاشی نے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ سندھ میں مون سون بارشیں سیلاب کی خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔ ہر سال ملک سیلاب کی لپیٹ میں آتا ہے ۔ جہاں ایک سال کی تباہی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں سے دوسرے سال کی تباہی شروع ہوجاتی ہے۔ بحالی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ صرف بیمار ذہن بیوروکریسی اور منتظمین کی بحالی ہی نظر آتی ہے۔ قدرتی آفات دوسرے ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں پر بہتر انتظامات کے ذریعے اس کے تباہ کن اثرات کو کم کیا جاتا ہے ۔ سندھ میں سیلاب منتظمین اور کرپٹ افسران کے لئے منافع بخش سیزن کے طور پر ہوتا ہے۔ کسی بھی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ حفاظتی پشتوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور نہ ہی مرمت۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک بھر میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ ماضی کے دو سیلابوں کی وجہ سے سیلاب کا خوف خاص طور پر سندھ کے لوگوں کے ذہنوں میں بری طرح سے بیٹھ چکا ہے۔ اب جیسے ہی سیلاب کے امکانات بتائے جاتے ہیں تو سندھ کے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سیلاب کا پانی ان کے جینے کے وسائل نہ بہا کر لے جائے۔ سندھ کے لوگوں نے دو سپر سیلابوں کو بھگتا ہے، انہیں دربدر اور بے گھر ہونا پڑا تھا۔ تمام سندھ کیمپ کا سماں بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس مرتبہ پانی کا مقدار کزشتہ برسوں کے سیلاب سے کم بتایا جاتا ہے۔ لیکن گلیشر کے پگھلنے یا سلیمانکی پہاڑی سلسلے میں زوردار بارشوں کے نتیجے میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ سندھ میں دریا کا پانی کچے میں داخل ہوچکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔ اور سیلاب کا پانی گزر جانے تک انہیں صرف کیمپوں میں بند کر کے رکھنے کے بجائے ان کی عملی مدد کرے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ 2010 کے تلخ تجربے کے باوجود دریائے سندھ کے حفاظتی پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ صوبائی خواہ وفاقی بجٹ میں حفاظتی پشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے مختص کی گئی رقم تاحال صوبائی محکمہ آبپاشی کو جاری نہیں کی گئی ہے ۔ یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ گزشتہ دو سیلابوں کے دوران انتظامی نااہلی نے سندھ کو ڈبویا تھا۔ اس مرتبہ حکومت کو ان تمام تلخ تجربوں کی روشنی میں موثر، ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

No comments:

Post a Comment