سندھ کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
10 July 2015
رینجرز اور نیب کی کارروایوں ، توانائی اور مالی وسائل کی تقسیم پر سندھ اور وفاق کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ سندھ کے اخبارات نے خبروں، اداریوں اور کالموں میں ان مسائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔ دوسری جانب صوبے میں نیب کی کرپشن کے خلاف کاروایاں جاری ہیں۔ ان کارویوں کے بعد صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ محکمہ کئی سال تک خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اس نے بھی بعض سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے ہیں۔
’’سندھ حکومت کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے بجلی کے بلوں کی مد میں 65 ارب روپے کی بقایاجات سے متعلق وفاق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی وسائل کے حق ملکیت کے لئے دھرنے دینے کی دھمکی دی ہے۔ صوبائی حکومت نے ملک میں بجلی کے بحران کے لئے وفاق کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے حیسکو اور سیپکو کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے لیڈر اعتزاز احسن اور سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بجلی کا بحران حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے بحران کا واحد حل تھر کول ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نواز شریف نے 1997 میں تھر کول پروجیکٹ ختم کردیا تھا۔ جبکہ وفاق سندھ میں ونڈ انرجی پروجیکٹ کے ذریعے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صرف دھرنوں سے ڈرتی ہے۔ سندھ کے ساتھ ناانصافی ختم نہیں ہوئی تو ہم بھی دھرنے دیں گے۔
سندھ توانائی پیدا کرنے میں ملک کے بقای صوبں سے آگے ہے۔ اس کے باوجود یہاں 20 گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔ پیپلزپاارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے چند روز پہلے وزیر اعظم نواز شریف کو بجلی کا بحران حل کرنے کے لئے ایک خط لکھا تھا۔ لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ وفاق نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان کے ساتھ بھی معدنی وسائل کے حوالے سے زیادتی کر رہا ہے۔ دسمبر 2014 سے اپریل 2015 تک بلوچستان کا بجلی کا مجموعی لوڈ 186 میگاواٹ رہا ہے۔ اس سے 2.9 ارب روپے، خیبر پختونخوا سے 488 میگاواٹ لوڈ کے عوض 2. 8 ارب روپے، پنجاب سے 2354 میگاواٹ استعمال کے عوض 11.6 ارب روپے اور سندھ سے 417 میگاوات بجلی استعمال کرنے کے عوض 16.5ارب روپے چارج کئے گئے۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ کتنی بھیانک ناانصافی ہورہی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا اور اس کی تقسیم صوبائی اختیار ہے۔ لیکن وفاق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے توانائی کا بحران حل نہیں ہو پارہا ہے اور مسئلہ بیچ میں لٹکا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ توانائی س متعلق کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں سندھ کے نمائندے کو شرکت کی دعوت بھی نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے عوام کو ایسے حکمران ملے ہیں جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے اس کو بلاوجہ لمبا طول دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توانائی کا بحران کئی برس گزرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔ تھر میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود گڈانی کے پروجیکٹ کے لئے کوئلہ بیرون ملک سے منگواکر قیمتی زرمبادلہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اگر یہی رقم تھر کول پر خرچ کی جاتی تو اب تک اس پروجیکٹ سے بجلی پیدا ہونا شروع بھی ہو چکی ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ 70 فی صد گیس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی بھی پیدا کرتا ہے۔ وفاق یہ حقیقت ماننے کے بجائے سندھ پر بجلی کی چوری کے الزامات لگا رہا ہے۔ لیکن تاحال ایک بھی کیس ثابت نہیں کر سکا ہے۔ وفاقی حکومت کو صرف سندھ کی ہی خامیاں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈ جاری کرنے میں بھی وفاق رکاوٹ بنتا ہے۔ جبکہ پنجاب کو فوری طور پر رقومات جاری کردی جاتی ہیں۔ نتیجے میں سندھ میں ایک عرصے سے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ وفاق کے اس رویے سے یقیننا چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
این ایف سے ایوارڈ کے تحت سندھ کے وفاق کی جانب اربوں روپے بقایاجات ہیں۔
وفاق کی ذمہ داری ہے کہ بجلی، تیل، گیس، سمیت معدنی وسائل ، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات میں منصفانہ سوچ کی بنیاد پر مشاورت کے ساتھ فیصلے کرے۔
روز نامہ کاوش ’’اختیارات سے متعلق اختلاف اور خدشات‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بلآخروفاق اور سندھ حکومت کے درمیان رینجرز کی تعینات کے بارے میں معاملات طے ہوگئے ہیں۔ سندھ حکومت کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی پر پیپلزپارٹی کی قیادت ن کیمنظوری کے بعد صوبائی حکومت نے رینجرز اور پولیس کو 90 روز تک ملزم کو اپنی تحویل میں رکھنے اختیارات کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسکی منظوری آئین کی شق 147 کے تحت سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں لی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے شیرک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہناہے کہ قیام امن کے لئے پولیس اور رینجرز کی بڑی قربانیاں ہیں۔ جبکہ سول اور ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سندھ میں رینجرز قانون اور ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ پہلے جرائم کی تعداد آسمان تک پہنچی ہوئی تھی۔ رینجرز نے امن قائم کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت کے رینجرز سے متعلق تحفظات جلد دور ہو جائیں گے۔ اور رینجرز اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کام کرے گی۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے سندھ میں رینجرز کی کارروایوں کے بارے میں پیپلزپارٹی کے تحفظات ختم کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد طویل صلاح مشورے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ کو بذریعہ فون رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کرنے کی ہدایت کی۔
سندھ میں کرپشن کے خلاف نیب اور رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا سیاہ داغ اکثر سرکاری اداروں کا دامن میلا کرچکا ہے۔ کرپشن کے ناسور کے باعث اکثر سرکاری ادارے مخصوص طبقے کے لئے سونے کی کان بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ عوام ہر حاصلات سے محروم ہیں۔ جس ادارے میں بھی کرپشن ہو اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے کوئی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ کسی بھی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے کاروائی نہیں کرنی چاہئے۔ جس سے اختلاف کی آگ بھڑک اٹھے۔ اس کی مثال سندھ حکومت کے خدشات اور تحفظات ہیں۔ رینجرز کی جانب سے حکومت سندھ کے سرکاری دفاتر اور پیپلزپارٹی سے
منسلک افرد کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے، گرفتارییاں کرنے کے بعد سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ نتیجے میں صوبائی حکومت نے رینجرز کے اختیارات اور اور صوبے میں اس کی تعینات کی مدت میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد اس مدت میں ایک ماہ کی توسیع کردی گئی ہے
رینجرز اور نیب کی کارروایوں ، توانائی اور مالی وسائل کی تقسیم پر سندھ اور وفاق کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ سندھ کے اخبارات نے خبروں، اداریوں اور کالموں میں ان مسائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔ دوسری جانب صوبے میں نیب کی کرپشن کے خلاف کاروایاں جاری ہیں۔ ان کارویوں کے بعد صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ محکمہ کئی سال تک خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اس نے بھی بعض سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے ہیں۔
’’سندھ حکومت کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے بجلی کے بلوں کی مد میں 65 ارب روپے کی بقایاجات سے متعلق وفاق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی وسائل کے حق ملکیت کے لئے دھرنے دینے کی دھمکی دی ہے۔ صوبائی حکومت نے ملک میں بجلی کے بحران کے لئے وفاق کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے حیسکو اور سیپکو کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے لیڈر اعتزاز احسن اور سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بجلی کا بحران حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے بحران کا واحد حل تھر کول ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نواز شریف نے 1997 میں تھر کول پروجیکٹ ختم کردیا تھا۔ جبکہ وفاق سندھ میں ونڈ انرجی پروجیکٹ کے ذریعے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صرف دھرنوں سے ڈرتی ہے۔ سندھ کے ساتھ ناانصافی ختم نہیں ہوئی تو ہم بھی دھرنے دیں گے۔
سندھ توانائی پیدا کرنے میں ملک کے بقای صوبں سے آگے ہے۔ اس کے باوجود یہاں 20 گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔ پیپلزپاارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے چند روز پہلے وزیر اعظم نواز شریف کو بجلی کا بحران حل کرنے کے لئے ایک خط لکھا تھا۔ لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ وفاق نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان کے ساتھ بھی معدنی وسائل کے حوالے سے زیادتی کر رہا ہے۔ دسمبر 2014 سے اپریل 2015 تک بلوچستان کا بجلی کا مجموعی لوڈ 186 میگاواٹ رہا ہے۔ اس سے 2.9 ارب روپے، خیبر پختونخوا سے 488 میگاواٹ لوڈ کے عوض 2. 8 ارب روپے، پنجاب سے 2354 میگاواٹ استعمال کے عوض 11.6 ارب روپے اور سندھ سے 417 میگاوات بجلی استعمال کرنے کے عوض 16.5ارب روپے چارج کئے گئے۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ کتنی بھیانک ناانصافی ہورہی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا اور اس کی تقسیم صوبائی اختیار ہے۔ لیکن وفاق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے توانائی کا بحران حل نہیں ہو پارہا ہے اور مسئلہ بیچ میں لٹکا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ توانائی س متعلق کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں سندھ کے نمائندے کو شرکت کی دعوت بھی نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے عوام کو ایسے حکمران ملے ہیں جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے اس کو بلاوجہ لمبا طول دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توانائی کا بحران کئی برس گزرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔ تھر میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود گڈانی کے پروجیکٹ کے لئے کوئلہ بیرون ملک سے منگواکر قیمتی زرمبادلہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اگر یہی رقم تھر کول پر خرچ کی جاتی تو اب تک اس پروجیکٹ سے بجلی پیدا ہونا شروع بھی ہو چکی ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ 70 فی صد گیس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی بھی پیدا کرتا ہے۔ وفاق یہ حقیقت ماننے کے بجائے سندھ پر بجلی کی چوری کے الزامات لگا رہا ہے۔ لیکن تاحال ایک بھی کیس ثابت نہیں کر سکا ہے۔ وفاقی حکومت کو صرف سندھ کی ہی خامیاں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈ جاری کرنے میں بھی وفاق رکاوٹ بنتا ہے۔ جبکہ پنجاب کو فوری طور پر رقومات جاری کردی جاتی ہیں۔ نتیجے میں سندھ میں ایک عرصے سے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ وفاق کے اس رویے سے یقیننا چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
این ایف سے ایوارڈ کے تحت سندھ کے وفاق کی جانب اربوں روپے بقایاجات ہیں۔
وفاق کی ذمہ داری ہے کہ بجلی، تیل، گیس، سمیت معدنی وسائل ، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات میں منصفانہ سوچ کی بنیاد پر مشاورت کے ساتھ فیصلے کرے۔
روز نامہ کاوش ’’اختیارات سے متعلق اختلاف اور خدشات‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بلآخروفاق اور سندھ حکومت کے درمیان رینجرز کی تعینات کے بارے میں معاملات طے ہوگئے ہیں۔ سندھ حکومت کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی پر پیپلزپارٹی کی قیادت ن کیمنظوری کے بعد صوبائی حکومت نے رینجرز اور پولیس کو 90 روز تک ملزم کو اپنی تحویل میں رکھنے اختیارات کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسکی منظوری آئین کی شق 147 کے تحت سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں لی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے شیرک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہناہے کہ قیام امن کے لئے پولیس اور رینجرز کی بڑی قربانیاں ہیں۔ جبکہ سول اور ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سندھ میں رینجرز قانون اور ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ پہلے جرائم کی تعداد آسمان تک پہنچی ہوئی تھی۔ رینجرز نے امن قائم کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت کے رینجرز سے متعلق تحفظات جلد دور ہو جائیں گے۔ اور رینجرز اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کام کرے گی۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے سندھ میں رینجرز کی کارروایوں کے بارے میں پیپلزپارٹی کے تحفظات ختم کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد طویل صلاح مشورے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ کو بذریعہ فون رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کرنے کی ہدایت کی۔
سندھ میں کرپشن کے خلاف نیب اور رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا سیاہ داغ اکثر سرکاری اداروں کا دامن میلا کرچکا ہے۔ کرپشن کے ناسور کے باعث اکثر سرکاری ادارے مخصوص طبقے کے لئے سونے کی کان بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ عوام ہر حاصلات سے محروم ہیں۔ جس ادارے میں بھی کرپشن ہو اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے کوئی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ کسی بھی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے کاروائی نہیں کرنی چاہئے۔ جس سے اختلاف کی آگ بھڑک اٹھے۔ اس کی مثال سندھ حکومت کے خدشات اور تحفظات ہیں۔ رینجرز کی جانب سے حکومت سندھ کے سرکاری دفاتر اور پیپلزپارٹی سے
منسلک افرد کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے، گرفتارییاں کرنے کے بعد سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ نتیجے میں صوبائی حکومت نے رینجرز کے اختیارات اور اور صوبے میں اس کی تعینات کی مدت میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد اس مدت میں ایک ماہ کی توسیع کردی گئی ہے
No comments:
Post a Comment