بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
July 31, 2015
’’بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار ‘‘کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول ایک ماہ تک ملتوی کرانے پر غور کر رہی ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سیلاب اور بارش کی صورتحال کی وجہ سے یہاں پر دونوں صوبائی حکومتیں امدادی کاموں اور متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول جاری نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کرانے کے لئے عملہ انتظامیہ سے لیا جاتا ہے اور یہ عملہ ابھی سیلاب سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے کہ ایک ماہ تک یہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ حکومت سندھ نے صوبے میں مرحلہ وار انتخابات کرانے کے لئے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔
اس سے قبل ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اسے بدقسمتی کہئے یا انتظامی نااہلی کہ وہاں پر بلدیاتی محکمے نے تاحال کام شروع نہیں کیا ہے۔ یہ مرحلہ بھی جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ملک کے دواہم صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں کسی نہ کسی طرح سے بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ کچے کے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ کو ہی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کا ذمہ دار ٹہرایاجاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں صوبائی حکومتوں کو علم تھا کہ جولائی میں بارشیں ہونگی اور گلیشرز پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔لیکن اس ضمن میں پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ۔اگر پہلے سے کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاجاتا، دریا کے پشتوں کو مضبوط کردیا جاتا۔تو آج صورتحال مختلف ہوتی، اور انتظامیہ دباؤ کی کیفیت میں نہ ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں یہ روایت قائم ہوچکی ہے کہ جب سیلاب مختلف علاقوں کو ڈبونا شروع کرتا ہے تو انتظامیہ ہنگامی اقدامات پر غور شروع کرتی ہے۔ اس دوران خواہ کسی کی فصلیں ڈوب جائیں یا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہو۔
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2005 میں مشرف دور میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ انتخابات 2009 میں منعقد ہونے تھے، لیکن 2008 کے عام انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں جیت کر آئیں ان کے منشور میں شاید اقتدار کی نچلے سطح پر منتقلی شامل نہیں تھی۔ لہٰذا آج تک یہ انٹخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کراکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا آئین کی تقاضا ہے۔ آئین کی پاسداری کے دعویداروں نے جب جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اختیارات کو اپنے پاس ہی قید رکھا۔ نتیجے میں بعض لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں جمہوریت کے دعویدار ان انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ کئی مرتبہ عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومتوں سے شیڈیول طلب کیا۔ لیکن ہر شنوائی پر ایک نیا بہانہ بنا کر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ نتیجے میں سپریم کورٹ کو ہی شیڈیول جاری کرنا پڑااور انتخابات کی تاریخ دینی پڑی۔
ایک بار پھر صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن گٹھ جوڑ کر کے سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے امدادی کاموں کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار کو عام لوگوں کی حالت پر رحم کر کے بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہئے۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ قدرتی آفات دیگر ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں کی حکومتیں متاثرین کی نہ صرف بروقت مدد کرتی ہیں بلکہ ان کی تب تک مدد کی جاتی ہے جب تک وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ہمارے پس صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان قدرتی آفات کے آنے سے پہلے کوئی پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ یہ آفات کا طوفان اپنے گہرے نقش اور ایک طویل خاموشی چھوڑ جاتا ہے۔اس کے بعد حکمران فضائی دورے کر کے ان تباہیوں کے منظر دیکھنے آتے ہیں۔ اور متاثرین کو چند روپوں کے چیک دے کر اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھتے ہیں۔
سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے۔ ایک طرف سیلاب کا پانی ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن صوبائی انتظامیہ اس کو ’’بڑا‘‘ خطرہ نہیں سمجھتی۔ لیکن جو مصیبت صوبائی حکومت کی نظر میں چوھٹی ہے اس نے بھی لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف کچے کے باسی یں جہاں حکومت کے کچے اقدامات نے انہیں در بدر کردیا ہے۔ وہ لوگ انتظامیہ کی عدم توجہگی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب صوبے کے اکثر شہروں میں بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی ہے۔ ان شہروں میں روڈ ، گلیاں بازاریں زیر آب ہیں۔ شہری زندگی اور کاروبار معطل اور مفلوج ہے۔ گٹر کا پانی شہروں کو جہیلوں میں تبدیل کر چکا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا امکان ہے۔ بدین ضلع میں سیم نالوں کے پانی چڑھنے سے دیہی علاقوں میں لوگ مصیبت میں آگئے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی یا اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو تباہی سیلاب اور بارشیں کرتی ہیں اسے زیادہ تباہی ادھورے اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حکمران فضائی جائزے لینے کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں اور موثر اقدامات کے بارے میں حکمت عملی بنائیں۔
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ قومی احتساب بیورو ایک طویل ہائبرنیشن نے بعد سرگرم ہوا ہے۔ اس نے بعض میگا کرپشن کیس ظاہر کئے ہیں۔ تازہ رپورٹ میں 480 ارب روپے کے 29 کیس سامنے آئے ہیں۔ جن کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ جس میں مالی بیقاعدگیوں، زمین کی فروخت کے ذریعے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفصیلات سامنےّ ئی ہیں۔
سندھ میں گزشتہ سات سالہ دور حکمرانی میں مفاہمت کامظاہرہ کیا گیا جس سے جرائم پیشہ، لوگ، دہشتگرد، اشتہاری مجرم، کرپٹ نوکر شاہی، اور ان کے سیاسی اور انتظامی سرپرست مستفیض ہوئے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا مفہوم تبدیل کر کے اداروں سے انتقام لیا گیا۔ حکمرانی دراصل اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ اداروں کا قبرستان بن چکا ہے۔
’’بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار ‘‘کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول ایک ماہ تک ملتوی کرانے پر غور کر رہی ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سیلاب اور بارش کی صورتحال کی وجہ سے یہاں پر دونوں صوبائی حکومتیں امدادی کاموں اور متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول جاری نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کرانے کے لئے عملہ انتظامیہ سے لیا جاتا ہے اور یہ عملہ ابھی سیلاب سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے کہ ایک ماہ تک یہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ حکومت سندھ نے صوبے میں مرحلہ وار انتخابات کرانے کے لئے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔
اس سے قبل ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اسے بدقسمتی کہئے یا انتظامی نااہلی کہ وہاں پر بلدیاتی محکمے نے تاحال کام شروع نہیں کیا ہے۔ یہ مرحلہ بھی جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ملک کے دواہم صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں کسی نہ کسی طرح سے بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ کچے کے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ کو ہی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کا ذمہ دار ٹہرایاجاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں صوبائی حکومتوں کو علم تھا کہ جولائی میں بارشیں ہونگی اور گلیشرز پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔لیکن اس ضمن میں پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ۔اگر پہلے سے کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاجاتا، دریا کے پشتوں کو مضبوط کردیا جاتا۔تو آج صورتحال مختلف ہوتی، اور انتظامیہ دباؤ کی کیفیت میں نہ ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں یہ روایت قائم ہوچکی ہے کہ جب سیلاب مختلف علاقوں کو ڈبونا شروع کرتا ہے تو انتظامیہ ہنگامی اقدامات پر غور شروع کرتی ہے۔ اس دوران خواہ کسی کی فصلیں ڈوب جائیں یا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہو۔
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2005 میں مشرف دور میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ انتخابات 2009 میں منعقد ہونے تھے، لیکن 2008 کے عام انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں جیت کر آئیں ان کے منشور میں شاید اقتدار کی نچلے سطح پر منتقلی شامل نہیں تھی۔ لہٰذا آج تک یہ انٹخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کراکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا آئین کی تقاضا ہے۔ آئین کی پاسداری کے دعویداروں نے جب جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اختیارات کو اپنے پاس ہی قید رکھا۔ نتیجے میں بعض لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں جمہوریت کے دعویدار ان انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ کئی مرتبہ عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومتوں سے شیڈیول طلب کیا۔ لیکن ہر شنوائی پر ایک نیا بہانہ بنا کر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ نتیجے میں سپریم کورٹ کو ہی شیڈیول جاری کرنا پڑااور انتخابات کی تاریخ دینی پڑی۔
ایک بار پھر صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن گٹھ جوڑ کر کے سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے امدادی کاموں کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار کو عام لوگوں کی حالت پر رحم کر کے بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہئے۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ قدرتی آفات دیگر ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں کی حکومتیں متاثرین کی نہ صرف بروقت مدد کرتی ہیں بلکہ ان کی تب تک مدد کی جاتی ہے جب تک وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ہمارے پس صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان قدرتی آفات کے آنے سے پہلے کوئی پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ یہ آفات کا طوفان اپنے گہرے نقش اور ایک طویل خاموشی چھوڑ جاتا ہے۔اس کے بعد حکمران فضائی دورے کر کے ان تباہیوں کے منظر دیکھنے آتے ہیں۔ اور متاثرین کو چند روپوں کے چیک دے کر اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھتے ہیں۔
سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے۔ ایک طرف سیلاب کا پانی ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن صوبائی انتظامیہ اس کو ’’بڑا‘‘ خطرہ نہیں سمجھتی۔ لیکن جو مصیبت صوبائی حکومت کی نظر میں چوھٹی ہے اس نے بھی لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف کچے کے باسی یں جہاں حکومت کے کچے اقدامات نے انہیں در بدر کردیا ہے۔ وہ لوگ انتظامیہ کی عدم توجہگی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب صوبے کے اکثر شہروں میں بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی ہے۔ ان شہروں میں روڈ ، گلیاں بازاریں زیر آب ہیں۔ شہری زندگی اور کاروبار معطل اور مفلوج ہے۔ گٹر کا پانی شہروں کو جہیلوں میں تبدیل کر چکا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا امکان ہے۔ بدین ضلع میں سیم نالوں کے پانی چڑھنے سے دیہی علاقوں میں لوگ مصیبت میں آگئے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی یا اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو تباہی سیلاب اور بارشیں کرتی ہیں اسے زیادہ تباہی ادھورے اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حکمران فضائی جائزے لینے کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں اور موثر اقدامات کے بارے میں حکمت عملی بنائیں۔
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ قومی احتساب بیورو ایک طویل ہائبرنیشن نے بعد سرگرم ہوا ہے۔ اس نے بعض میگا کرپشن کیس ظاہر کئے ہیں۔ تازہ رپورٹ میں 480 ارب روپے کے 29 کیس سامنے آئے ہیں۔ جن کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ جس میں مالی بیقاعدگیوں، زمین کی فروخت کے ذریعے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفصیلات سامنےّ ئی ہیں۔
سندھ میں گزشتہ سات سالہ دور حکمرانی میں مفاہمت کامظاہرہ کیا گیا جس سے جرائم پیشہ، لوگ، دہشتگرد، اشتہاری مجرم، کرپٹ نوکر شاہی، اور ان کے سیاسی اور انتظامی سرپرست مستفیض ہوئے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا مفہوم تبدیل کر کے اداروں سے انتقام لیا گیا۔ حکمرانی دراصل اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ اداروں کا قبرستان بن چکا ہے۔
No comments:
Post a Comment