Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
گزشتہ سیلاب کی کوتاہیوں کو نہ دہرائیں سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی
17 جولائی 2015
روزنامہ کاوش ’’گزشتہ سیلاب کے دوران کوتاہیوں کو نہ دہرایا جائے’’ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ اطلاعات ہیں کہ 2010 اور 2011 کے سیلاب دوران انتظامی خواہ حکومتی کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ہی سندھ اور پنجاب میں زمینداری پشتوں کو ہٹایاجا گیا ہے ۔ اتنی بڑی کوتاہی کرنے والے افسران کو سزا بھی نہیں مل سکی۔ 2010 اور 2011 کے حوالے سے نواز لیگ کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں 61 اعتراضات اتھائے گئے تھے۔ ان اعتراضات اور کوتاہی کے ذمہ داران کے خلاف کاررروائی کا جائزہ لینے کے لئے گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجا آصف کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ کے سیکریٹری آبپاشی نے سیلاب سے تحفظ کے لئے پشتوں کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ دریا کے پشتوں کی صورتحال ٹھیک ہے۔ ان پشتوں کی اسٹون پچنگ بھی کردی گئی ہے۔ اجلاس میں سیکریٹری آبپاشی سندھ سے پوچھا گیا کہ دریا کے کچے کے علاقے میں زمینداری پشتوں اور قبضے ہٹانے کے کئے صوبائی حکومت ریور ایکٹ جاری کیا تھا۔ اس کے تحت کیا کارروائی کی گئی ہے؟ کتنے قبضہ خوروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان کا جواب نفی میں ملا۔ سیکریٹری نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ جس نے سابق سیکریٹری آبپاشی شجاع جونیجو سمیت تمام کوتاہی کرنے والے افسران کو الزامات سے بری کر دیا اور قرار دیا کہ سیلاب کے معاملے میں ان کا کوئی قصور نہیں ۔ خیال رہے کہ آج کل سندھ میں نچلے درجے کے سیلاب کا امکان بتایا جارہا ہے۔ دریائے سندھ میں چشمہ کے پاس اونچے درجے کا اور کالا باغ اور تونسہ کے پاس درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ پانی اب سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آبپاشی حکام کا کہنا ہے کہ گڈو اور سکھر کے پاس دریا میں پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے۔
چند سال پہلے سندھ میں سیلاب نے تباہی مچائی تھیْ۔ بڑے پیمانے پر معاشی نقصان ہوا۔ سندھ کے لاکھوں لوگ بے گھر اور دربدر ہوئے ۔ اس کے بعد نواز لیگ کی ایم این اے ماروی میمن نے سپریم کورٹ میں 61 اعتراضات اٹھائے۔ لیکن نہ ان اعترضات کا ازالہ کیا گیا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ا ب اس سیلاب کو بڑا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی ممکن تھی۔ سندھ کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی شکل و صورت بھی سدھر سکتی تھی۔ جن لوگوں کا مالی نقصان ہوا اور روزگار چھن گیا، ان کی بھرپور مدد کی جاسکتی تھی۔ لیکن ہم سب نے دیکھا کہ سندھ کے سیلاب متاثرین کی بروقت امداد نہیں کی جاسکی۔ اور بعد میں ان کی بحالی کے لئے موثر کوشش نہیں کی گئی۔ ان متاثرین کی مدد کے لئے اگرچہ ملکی خواہ غیر ملکی غیر سرکاری ادارے بھی میدان میں آئے۔ اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے، جن لوگوں کو سیلاب نے دکھوں کے پانی میں ڈبودیا وہ ابھی تک ان دکھوں کا دریا پار نہیں کر سکے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اس سیلاب کو جن افراد نے مزید نقصان دہ بنایا اور کاہلی اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا حکمران ان افسران کا احتساب نہیں کر پائے۔ ایک کمیشن قائم کیا گیاجس نے ان افراد کو بے قصور ٹہرا یا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد زمینداری بند بھی نہیں ہٹائے گئے ہیں۔
امکان خواہ نچلے درجے کے سیلاب کا ہو یا اونچے درجے کے سیلاب کا، سوال حکومت کی تیاری کا ہے۔ کسی امکانی سیلاب سے نمٹنے کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ گزشتہ سیلاب کے دوران کوتاہی برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے اور زمینداری بند ختم کئے جائیں۔ یہ سب کچھ سیلاب آنے سے پہلے ہونا چاہئے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ ان کے ’’ مجرم سپاہ ‘‘ اور پولیس کی ٹرائیکا جرائم کی دینا کو مضبوط کئے ہوئے ہے۔ جرگہ سسٹم کے ذریعے ان بھوتاروں نے متوازی عدالتی نطام قائم کر رکھا ہے۔ جو انصاف کے نام پر نا انصافی کو فروغ دے رہا ہے۔ صوبے کے نصف درجن اضلاع میں ریاستی قانون کا سکہ نہیں چلتا۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ ، اپنا رعب اور دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے مجرم اور ڈاکو پالتی رہی ہے۔ ایسے بھوتاروں کی زیرسرپرستی سندھ اور بلوچستان میں جرائم، قتل و غارت، خوف اور دہشت کا بازار گرم رکھنے والا بدنام ڈاکو نظرو ناریجو گڑھی یاسین کے گولو دڑو علاقے میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ڈاکوٗون کی فائرنگ میں دو پولیس اہلکار بھی شہید ہوگئے ۔ ڈاکو نظرو ناریجو کے پر دو کروڑ روپے کا نعام رکھا گیا تھا۔ وہ قتل اور اغوا کے دو سو مقدمات میں مطلوب تھا۔ سندھ حکومت نے شہید پولیس اہلکاروں کے ورثاء ایک ایک کروڑ روپے اور ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔
اغوا انڈسٹری ہو ، یا قبائلی اور بردریوں کے تنازع میں لوگوں کا قتل، یا جرگوں کے ذریعے زندگی کی یا عصمت کی قیمت لگانے والے بھوتاروں کی انصاف کے نام پر ناانصافی ہو، کونسا جرم ہے جس کی پشت پناہی یہ بھوتار نہیں کرتے؟ جرائم تب بڑھتے ہیں جب ان کی اعلیٰ سطح پر سرپرستی ہوتی ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اس پردہ نشین اشرافیہ کی مختلف اوقات میں نقاب کشائی بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن ان کی رسائی اعلیٰ ایوانوں تک ہونے کی وجہ سے وہ گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلیٰ کے دو رمیں ان کے مشیر سردار غلام سرور سرکی نے ایسے 70 سے زائد افراد کی لسٹ تیار کی تھی جو مجرموں کی سرپرستی کرتے تھے۔ اس لسٹ میں وقت کے یا اس کے بعد کے ادوار میں وزیر، مشیر اور رکن اسمبلی کے نام بھی شامل تھے۔ بعد میں جب دباؤ پڑا تو حکومت نے اس لسٹ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ بدنام ڈاکو نظرو ناریجو سکھر پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ وہ شکارپور ضلع میں رہتے ہوئے بھی وہاں کی پولیس کو نظر نہیں آیا۔ شاید وہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ سندھ میں جرائم کی سرپرستی کس سطح پر ہوتی ہے اسکا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خفیہ اداروں کے پاس نظرو ناریجو کی بڑے بڑے افسران اور سیاستدانوں کے ساتھ ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ ایک ڈاکو جو 200 سے زائد وارداتوں میں مطلوب ہو، ریاست اور قانون سے طاقتور نہیں ہوسکتا۔ اس کو جان کی امان حاصل رہی ۔ اتنے برسوں تک اسے جرم کرنے کے مواقع میسر رہے۔ اسے کسی عام یا معمولی اور نچلی سطح کی سرپرستی حاصل نہیں ہو سکتی ۔بھوتار اس لئے ڈاکو پالتے ہی کہ ان کا رعب قائم رہے۔ لیکن کوئی وزن یا دباؤ پڑنے پر یا جب قانون نافذ کرنے والے گھیراؤ تنگ کرتے ہیں تو انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ ڈاکو کی گرفتاری کی صورت میں ان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ ایسے میں وہ ڈاکو کو مروانے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ تاکہ راز مرنے ولاوں کی دلوں میں ہی دفن رہیں۔ نظرو ناریجو کے معاملے میں دراصل کیا ہوا؟ یہ حقائق ابھی عام ہونا باقی ہیں۔
No comments:
Post a Comment