مالیاتی ایوراڈ میں توسیع پر سندھ کی خاموشی
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ نامہ سہیل سانگی
July 3, 2015
سندھ میں صرف گرمی کی تیز لہریں ہی نہیں چل رہی ہیں بلکہ کئی سیاسی لہریں بھی تیز ہوگئی ہیں ان میں سے بعض زیر زمین ہین جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ ۔اسکاٹ لینڈ یارڈ ٹیم نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل میں پاکستان میں گرفتار دو ملزمان سے پوچھ گچھ کی، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی عروج پر رہی، سندھ حکومت نیب اور رینجرز کی صوبائی معاملات میں مداخلت پر احتجاج کرتی رہی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کراچی تشریف لے آئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس کشیدہ اور غیر یقینی صورتحال میں صوبے میں کئی انتظامی امور اور بعض مسائل پر فیصلہ سازی عملی طور پر معطل رہی۔
روزنامہ کاوش کے الیکٹرک میں اصلاح کریں خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں گرمی کی شدت بدستور جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گرمی کی شدت کا شکار ہونے والوں میں سے بڑی تعداد کا تعلق کراچی سے ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت کے باعث لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے دوسری طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے ان کی تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ بجائے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہلاکتوں کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے۔ بجلی وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے لہٰذا ان اموات کی ذمہ داری وفاق پر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کے الیکٹرک کو ہسپتالوں، واٹر بورڈ اور دیگر شہری سہولیات کے اداروں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کے الیکٹرک نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ نیپرا کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی نے کراچی میں اموات کی بڑی وجہ بجلی کے بحران کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے ۔ نیپرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک اپنی اہلیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہی ہے۔ دن میں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ کمپنی کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام بھی درست نہیں ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے کمپنی پر الزام عائد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی تمام سرکاری ہسپتالوں کو بجلی فراہم کر رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہوا ہے۔ اس درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ جو ادارے لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لئے ذمہ دار ہیں ان کی کارکردگی کا گاہے بگاہے معائنہ نہ کیا جائے اور اداروں میں سے احتساب کا عمل ختم ہو جائے تو پھر یہ ادارے عوام کے لئے بے فائدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
مانا کہ بجلی وفاقی معاملہ ہے۔ بجلی کا بحران ختم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر مختلف سرکاری ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے اور خود کو ذمہ داری سے بری کرینے کی کوشش کریں گے، تو لوگوں میں بے بسی اور لاچاری کا احساس اور بھی بڑھ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتی دونوں مل کر عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے والے اداروں کا اصلاح احوال کریں۔ اگر انسانی جانیوں کا ضیاع ہوگا تو لوگ حکومت سے ہی پوچھیں گے۔ کیونکہ ووٹ حکومت نے ہی لیا ہے۔ اور آخری تجزیے میں حکومت ہی ذمہ دار ہے۔
’’ساتویں مالایاتی ایوارڈ میں توسیع اور اس پر سندھ کی خاموشی ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ مالیاتی ایوارڈ مالی وسائل میں صوبوں اور وفاق کے درمیان اور خودصوبوں کے درمیان تقسیم کا تعین کرتا ہے۔ ساتویں ایوارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے ۔ لیکن وفاق کی عدم دلچسپی اور صوبوں کی نااہلی کی وجہ سے آٹھواں مالیاتی ایوارڈ تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ جس کے بعد صدر مملکت نے ساتویں مالیاتی ایوارڈ کو جاری رکھنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ وفاق اور پنجاب نہ کبھی مردم شماری کے حوالے سے سچے ہوئے اور نہ مالیاتی ایوارڈ کے بارے میں ۔ مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلی کی نشستوں ، مالی وسائل کی تقسیم اور دیگر اس طرح کے معاملات کا تعین کیا جاتا ہے اس میں مختلف رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے مردم شماری وقت پر نہیں ہو سکی ہے۔ ہر دس سال بعد مردم شماری کرانی ہے۔ مگر 1998 کے بعد نہیں کی جاسکی ہے۔ پرانی مردم شماری سے سب سے زیادہ مستفیض ہونے والا صوبہ ہے۔ وہ آبادی کی بنیاد پر مالی وسائل وغیرہ میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔
اب سترہویں سال بھی پنجاب زیادہ حصہ لے گا۔ان 17 سال کے دوران سندھ پر آبادی کا بوجھ بڑھا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور ممالک کے بشندے بڑی تعداد میں آکر سندھ میں آباد ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال میں مردم شماری نہ کرانے کی وجہ سے سندھ کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال مالیاتی ایوارڈ کی ہے۔ بنگلہ دیش بننے سے پہلے پنجاب مالیاتی ایوارڈ آبادی کی بنیاد پر دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے بعد پنجاب نے آبادی کو واحد شرط بنا کر مالی وسائل میں سے حصہ لینا شروع کیا۔ ساتواں مالیاتی ایوارڈ پہلا ایوارڈ ہے جس میں وسائل کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دیگر بنیادیں بھی تسلیم کی گئی ہیں۔ لیکن دوسری بنیادوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وسائل کا 82 فیصد ابھی بھی آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔ باقی 18 فی صد کا تعین آمدنی، غربت، اور ایراضی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ سندھ ملک کی آمدن کا 70 فیصد سے بھی زیادہ حصہ دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے پورے ملک کو پال رہا ہے۔ لیکن خود بہت غریب ہی رہتاہے۔ مالیاتی ایوارڈ اتفاق رائے ہی تیار کی جاتا ہے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے مالیاتی کمیشن کے اجلاسوں ہوتے رہتے ہیں اوراس اتفاق رائے کے لئے تقریبا ایک سال لگ جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مرتبہ نہ وفاق نے اور نہ ہی صوبوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت سندھ اس حوالے سے غیر سنجیدہ رہی اس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ وہ نہ اپنا مضبوط کیس بنا سکی اور نہ ہی مالیاتی کمیشن کو مسلسل اجلاس کرنے پر تیار کر سکی۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مسلسل بیرون ملک دورے بھی کمیشن کے اجلاسوں میں رکاوٹ بنے۔ سندھ حکومت اس پر وفاق سے بات بھی نہ کرسکی۔ نتیجے میں سندھ کو نئے مالیاتی ایوارڈ سے محروم ہونا پڑا۔ نئے مالیاتی ایوارڈ نہ آنے کا بلوچستان یا خیبر پختونخوا کا اتنا نقصان نہیں جتنا سندھ کا ہے۔ سندھ حکومت کے رویے سے لگتاا ہے کہ اس کو صوبے میں کوئی مستند اور ماہر شخص بھی نہیں مل رہا۔ جسے مالیاتی کمیشن کا میمبر نامزد کیا جاسکے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں وفاق کے پاس اپنا احتجا ریکارڈ کرائے۔
سندھ میں صرف گرمی کی تیز لہریں ہی نہیں چل رہی ہیں بلکہ کئی سیاسی لہریں بھی تیز ہوگئی ہیں ان میں سے بعض زیر زمین ہین جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ ۔اسکاٹ لینڈ یارڈ ٹیم نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل میں پاکستان میں گرفتار دو ملزمان سے پوچھ گچھ کی، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی عروج پر رہی، سندھ حکومت نیب اور رینجرز کی صوبائی معاملات میں مداخلت پر احتجاج کرتی رہی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کراچی تشریف لے آئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس کشیدہ اور غیر یقینی صورتحال میں صوبے میں کئی انتظامی امور اور بعض مسائل پر فیصلہ سازی عملی طور پر معطل رہی۔
روزنامہ کاوش کے الیکٹرک میں اصلاح کریں خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں گرمی کی شدت بدستور جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گرمی کی شدت کا شکار ہونے والوں میں سے بڑی تعداد کا تعلق کراچی سے ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت کے باعث لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے دوسری طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے ان کی تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ بجائے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہلاکتوں کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے۔ بجلی وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے لہٰذا ان اموات کی ذمہ داری وفاق پر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کے الیکٹرک کو ہسپتالوں، واٹر بورڈ اور دیگر شہری سہولیات کے اداروں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کے الیکٹرک نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ نیپرا کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی نے کراچی میں اموات کی بڑی وجہ بجلی کے بحران کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے ۔ نیپرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک اپنی اہلیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہی ہے۔ دن میں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ کمپنی کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام بھی درست نہیں ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے کمپنی پر الزام عائد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی تمام سرکاری ہسپتالوں کو بجلی فراہم کر رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہوا ہے۔ اس درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ جو ادارے لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لئے ذمہ دار ہیں ان کی کارکردگی کا گاہے بگاہے معائنہ نہ کیا جائے اور اداروں میں سے احتساب کا عمل ختم ہو جائے تو پھر یہ ادارے عوام کے لئے بے فائدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
مانا کہ بجلی وفاقی معاملہ ہے۔ بجلی کا بحران ختم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر مختلف سرکاری ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے اور خود کو ذمہ داری سے بری کرینے کی کوشش کریں گے، تو لوگوں میں بے بسی اور لاچاری کا احساس اور بھی بڑھ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتی دونوں مل کر عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے والے اداروں کا اصلاح احوال کریں۔ اگر انسانی جانیوں کا ضیاع ہوگا تو لوگ حکومت سے ہی پوچھیں گے۔ کیونکہ ووٹ حکومت نے ہی لیا ہے۔ اور آخری تجزیے میں حکومت ہی ذمہ دار ہے۔
’’ساتویں مالایاتی ایوارڈ میں توسیع اور اس پر سندھ کی خاموشی ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ مالیاتی ایوارڈ مالی وسائل میں صوبوں اور وفاق کے درمیان اور خودصوبوں کے درمیان تقسیم کا تعین کرتا ہے۔ ساتویں ایوارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے ۔ لیکن وفاق کی عدم دلچسپی اور صوبوں کی نااہلی کی وجہ سے آٹھواں مالیاتی ایوارڈ تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ جس کے بعد صدر مملکت نے ساتویں مالیاتی ایوارڈ کو جاری رکھنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ وفاق اور پنجاب نہ کبھی مردم شماری کے حوالے سے سچے ہوئے اور نہ مالیاتی ایوارڈ کے بارے میں ۔ مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلی کی نشستوں ، مالی وسائل کی تقسیم اور دیگر اس طرح کے معاملات کا تعین کیا جاتا ہے اس میں مختلف رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے مردم شماری وقت پر نہیں ہو سکی ہے۔ ہر دس سال بعد مردم شماری کرانی ہے۔ مگر 1998 کے بعد نہیں کی جاسکی ہے۔ پرانی مردم شماری سے سب سے زیادہ مستفیض ہونے والا صوبہ ہے۔ وہ آبادی کی بنیاد پر مالی وسائل وغیرہ میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔
اب سترہویں سال بھی پنجاب زیادہ حصہ لے گا۔ان 17 سال کے دوران سندھ پر آبادی کا بوجھ بڑھا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور ممالک کے بشندے بڑی تعداد میں آکر سندھ میں آباد ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال میں مردم شماری نہ کرانے کی وجہ سے سندھ کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال مالیاتی ایوارڈ کی ہے۔ بنگلہ دیش بننے سے پہلے پنجاب مالیاتی ایوارڈ آبادی کی بنیاد پر دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے بعد پنجاب نے آبادی کو واحد شرط بنا کر مالی وسائل میں سے حصہ لینا شروع کیا۔ ساتواں مالیاتی ایوارڈ پہلا ایوارڈ ہے جس میں وسائل کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دیگر بنیادیں بھی تسلیم کی گئی ہیں۔ لیکن دوسری بنیادوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وسائل کا 82 فیصد ابھی بھی آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔ باقی 18 فی صد کا تعین آمدنی، غربت، اور ایراضی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ سندھ ملک کی آمدن کا 70 فیصد سے بھی زیادہ حصہ دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے پورے ملک کو پال رہا ہے۔ لیکن خود بہت غریب ہی رہتاہے۔ مالیاتی ایوارڈ اتفاق رائے ہی تیار کی جاتا ہے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے مالیاتی کمیشن کے اجلاسوں ہوتے رہتے ہیں اوراس اتفاق رائے کے لئے تقریبا ایک سال لگ جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مرتبہ نہ وفاق نے اور نہ ہی صوبوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت سندھ اس حوالے سے غیر سنجیدہ رہی اس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ وہ نہ اپنا مضبوط کیس بنا سکی اور نہ ہی مالیاتی کمیشن کو مسلسل اجلاس کرنے پر تیار کر سکی۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مسلسل بیرون ملک دورے بھی کمیشن کے اجلاسوں میں رکاوٹ بنے۔ سندھ حکومت اس پر وفاق سے بات بھی نہ کرسکی۔ نتیجے میں سندھ کو نئے مالیاتی ایوارڈ سے محروم ہونا پڑا۔ نئے مالیاتی ایوارڈ نہ آنے کا بلوچستان یا خیبر پختونخوا کا اتنا نقصان نہیں جتنا سندھ کا ہے۔ سندھ حکومت کے رویے سے لگتاا ہے کہ اس کو صوبے میں کوئی مستند اور ماہر شخص بھی نہیں مل رہا۔ جسے مالیاتی کمیشن کا میمبر نامزد کیا جاسکے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں وفاق کے پاس اپنا احتجا ریکارڈ کرائے۔
No comments:
Post a Comment