Friday, August 16, 2013

سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی۔۔۔1


سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی۔۔۔1

ملک میں نئے انتخابات ہوئے۔نہ کوئی ہاری تنظیم نظر آئی اور نہ کوئی کسان کا نعرہ اور مطالبہ۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ تقریبا چالیس برس تک یہ ایک مضبوط تحریک کے طور پر موجود تھی جو سیاسی عمل اور فکر پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوتی تھی ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال ، آرائیں ، مدیجی ۔ اور سکرنڈ کسان کانفرنسیں ملک کے دیہی اور پچھڑے ہوئے طبقے کی جدوجہد کے سنگ میل ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے بدل گیا؟ ہاری تحریک کے کمزور ہونے کے معروضی خواہ موضوعی

دونوں اسباب ہیں۔ سندھ میں کسان تحریک کی صورت حال کچھ اس طرح سے رہی۔ ہاری کمیٹی برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے تسلسل اور آل انڈیا کسان سبھا کے حصے کو طور پروجود میں آئی۔ جس کے قیام میں کمیونسٹوں کے علاوہ اس وقت کے روشن خیال اور حقیقی جمہوریت پسندوں جی ایم سید، جمشید

نرسوانجی اور دیگر رہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سندھ کی ہاری جدوجہد کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔ پہلا دور 1930ء کا عشرہ ہے جس میں ابتدائی طور پر تنظیم سازی، فکری بحث اور اجلاس ہوتے رہے۔ ہاری کمیٹی کے پہلے اور دوسرے دور میں روشن خیال اور جمہوریت پسند حلقوں کا اثر نمایاں تھا جس کی وجہ سے اس کے مطالبے میں سرکاری زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے اور کسانوں سے منصفانہ رویہ رکھنے پر زور تھا۔ جبکہ کمیونسٹوں کی جانب سے جاگیرداری ختم کرنے کا مطالبہ تھا۔ یہ دونوں رجحان ہاری

کمیٹی میں آخر تک چلتے رہے۔ دوسرا دور 1940ء کا ہے۔جس میں جیٹھمل پرسرام اور قادر بخش نظامانی جیسی شخصیات نے ہاریوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔1946ء میں ٹنڈوالہ یار میں ہاریوں نے تالپوروں اور لغاریوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔جس کا ذکر آل انڈیا کسان سبھا کے رکارڈ سے ملتا ہے۔ اس طرح

کے واقعات سے لگتا ہے کہ ہاری تحریک میں شدت پسندی اور ہیروازم آگئی تھی۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے سرکاری ملازمت چھوڑکر ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس تنظیم میں نیا جوش اورولولہ آگیا۔ کامریڈ جتوئی مارکسسٹ تھے۔ انہوں نے ہاری کمیٹی کو ایک

طبقاتی تنظیم کے طورپر منظم کیا۔ یہ ہاری کمیٹی کی کئی پہلوؤں سے ترقی کا دور تھا۔ پرانے ہاری ورکر ، شاعر اور صحافی منصور میرانی کامریڈ جتوئی کے ساتھی کامریڈ رمضان شیخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں ضلعی سطح پر ہاری حقدار کے نام سے دفاتر ہوا کرتے تھے، جہاں باقاعدگی سے ہاری کارکن ڈیوٹی دیتے تھے۔ ان دفاتر میں ہاریوں کی بے دخلیوں، زمینداروں اور پولیس کی زیادتیوں کے بارے میں شکایات نوٹ کی جاتی تھیں۔ اور اس ضمن میں متعلقہ حکام سے خط و کتابت کی جاتی تھی۔ اور عوامی سطح پر یہ مسئلہ اٹھایا جاتا تھا۔ تیسرے دور میں سب سے بڑا کام سندھ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری تھا۔1950 ء میں سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم پر صوبے بھر سے کسانوں نے کراچی پہنچ کر سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔ یہ دھرنا اتنا مضبوط تھا کہ اسمبلی ممبران ایوان کے اندر ہی محصور ہو کر رہ گئے۔ یہاں تک کہ باہر سے ان تک کھانے پینے کی اشیاء بھی نہیں پہنچ پارہی تھیں۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ بہت بڑا کارنامہ تھا کیونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسان اور زمیندار کو زراعت میں برابر کا حصہ دار تسلیم کیا گیاتھا۔ بیج، کھاد، زرعی اشیاء اور پیداوارمیں دونوں فریقین میں پچاس پچاس فیصد

تقسیم کا فارمولا دیا گیاتھا۔ اسی دور میں سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کو نواب سلطان احمد خان چانڈیو کے مقابے میں الیکشن میں کھڑا کیا۔ اس الیکشن ورک میں ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب سمیت ملک بھر کے ترقی پسند کارکنوں نے شرکت کی۔ جالب نے کامریڈ جتوئی کی انتخابی مہم کے لیے خصوصی نظمیں بھی لکھیں ۔سردار چانڈیو کے لوگوں نے ہاری کارکنوں پر کتے چھوڑے جس میں کامریڈ رمضان شیخ اور دیگر کارکن بری طرح زخمی ہوئے ۔ کتوں کے کاٹنے کے نشانات کامریڈ رمضان کی ٹانگ پر مرتے دم تک رہے۔جرأتمندانہ جدوجہد کی وجہ سے ہاری سوال سیاسی بحث کا حصہ بنا۔ اس دور میں چینی وزیراعظم چو این لائی پاکستان کے دورے پرّ آئے تو انہوں نے پاکستان حکومت سے فرمائش کی

کہ ان کی ملاقات کامریڈ حیدربخش جتوئی سے کرائی جائے۔ 1957ء میں اپر سندھ میں پہلی ہاری کانفرنس تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں آرائیں میں منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس تاریخ میں آرائیں کانفرنس کہلاتی ہے۔ اس کانفرنس میں شیخ ایاز اور کراچی میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم طالب علموں نے شرکت کی۔ اس دور میں مختلف اضلاع میں دفاتر اور کارکنوں کا نیٹ ورک سوائے ہاری کمیٹی کے کسی اور پارٹی کے پاس نہیں

تھا۔ اس دور کے ہاری لیڈرپڑھے لکھے اور عالم فاضل تھے، ہاری کمیٹی میں مذہبی پس منظر والے کمیونسٹ اور کانگریس کے حامی سب لوگ تھے ۔لیکن سب مل کر اس طرح کام کرتے تھے کہ ان کی سیاسی وابستگی یا فکر کبھی بھی آڑے نہیں آیا۔ کئی کا پس منظر مذہبی تھا اور وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے فکر سے متاثر ہوکر ہاری کمیٹی میں شامل ہوئے تھے۔ کامریڈ مولوی نذیرحسین جتوئی، حافظ نیک محمد فضلی، عبدالرحمان عیسانی، محمد عالم مگریو اس دور کے اہم لیڈر تھے جوبالائی سندھ میں ہر وقت گھومتے رہتے تھے اور ہاری جدوجہد کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ سندھ ہاری کمیٹی صوبے میں کام کرنے والی تمام سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ مورچہ

تھی۔ جی ایم سید ہوں یا اللہ بخش سومرو سب ہاری کمیٹی کے مدگار تھے۔ پچاس کی دہائی میں جو بھی ہاری کانفرنس ہوئی وہ سندھ میں سیاسی ہلچل کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوئی۔ ایسی ہی ایک کانفرنس میں کامریڈ جام ساقی (جو بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل

سیکرٹری بنے ) کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ صوبے میں طلباء تنظیم منظم کریں۔ کسان تحریک کے جاں نثار :یہ وہ دور تھا جب زمیندار ہاریوں اور ہاری کارکنوں پر تشدد کرتے تھے۔ زمینداروں کی ننگی زیادتیوں کا کئی ہاری کارکن شکار ہوئے۔ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے جس میں ایک درجن کارکن شہید بھی ہوئے ۔ قتل کے زیادہ تر واقعات بٹائی تحریک کے دوران ہوئے جب قانون منظور ہونے کے بعد بھی زمیندار عمل نہیں کر رہے تھے ۔ ٹنڈو باگو کے ہاری پٹھائی انڑ کو اس وجہ سے قتل کردیا گیا کہ انہوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے قانون کی مدد لی۔ انہوں نے بٹائی میں اپنا قانونی حصہ تو لے لیا مگر دو دن بعد وہ اپنے بیٹے سمیت زمیندار کے لوگوں

کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔ ٹنڈوالہ یار کے قریب ہار کارکنوں کے ایک گروپ پر زمیندار نے حملہ کردیا کیونکہ یہ کارکن کسانوں کو پچاس فیصد بٹائی پر منظم کر رہے تھے اور اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کر رہے تھے۔ اس حملے میں سات ہاری کارکن زخمی ہوئے جن میں خمیسو خاصخیلی زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گیا۔ غلام مصطفےٰ عباسی اور بالاچ بروہی کو نوابشاہ میں قتل کیا گیا۔ ہاری رہنما اور شاعر عزیزاللہ مجروح کو گڑھی یاسین کے علاقے میں قتل کیا گیا۔ ہاری رہنماؤں کے لیے ان کے ساتھی عزیزاللہ مجروح کا قتل ناقابل برداشت تھا، ان کے ساتھیوں مولوی نذیرحسین جتوئی، حافظ نیک محمد فضلی اور دیگر نے ان کی تدفین کے بعد قبر پر عہد کیا کہ وہ ہاری لیڈر کا بدلہ لیں گے۔ اور بعد میں انہوں نے قاتلوں کو قتل کیا۔شہید بختاور کو کنری کے پاس زمینداروں نے قتل کیا جب مرد ہاری جھڈو میں منعقدہ ہاری کانفرنس میں گئے ہوئے تھے اور وہ گندم کے ڈھیر کی

حفاظت کر رہی تھی ۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکن منصور میرانی کا کہناہے کہ جس طرح سے ہاری کمیٹی کے کامریڈوں نے سخت محنت کی، کٹھن زندگی گزاری، اپنی زندگیاں وقف کر کے اپنے مشن کو آگے بڑھایا اس لحاظ سے اگر وہ کسی بیماری کی وجہ سے بھی فوت ہوئے، ان کے نزدیک وہ بھی شہید

ہیں۔ خود کو وقف کرنے والے: ہاری کارکنوں کی ایک لمبی لسٹ ہے جنہوں نے اپنی زندگی اور جوانی ہاری کاز کے لیے وقف کی۔مختلف ادوار میں کام کرنے والوں میں بڑے بڑے نام بھی ہیں۔جیٹھمل پرسرام، قادربخش نظامانی، کامریڈ غلام محمد لغاری،مولوی عزیزاللہ جروار، کامریڈ میر محمد تالپور، عبدالرحمان عیسانی، محمدعالم مگریو، عبدالقادر کھوکھر، کامریڈ رمضان شیخ، رئیس بروہی، عبدالقادر انڈہڑ، قاسم پتھر ، باقر سنائی، عنایت دھمچر،علامہ شامہ محمد امروٹی، صوفی جنن چن،سلیمان لاکھو، محمدخان لاکھو، غلام حسین سومرو، جام ساقی، ماندھل شر، حسین مگسی،مولوی شاہ محمد بنگلانی، غلام حیدر لغاری اور دیگر شامل ہیں ۔1980ء کے بعد جن کارکنوں اور رہنماؤں نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں لالا شاہ محمد درانی، صوفی حضوربخش، غلام رسول سہتو،عثمان لغاری، احمدخان لغاری، پھوٹو رستمانی،محب نظامانی، صالح بلو، گلاب پیرزادو، محب پیرزادو، اسماعیل قریشی، تاج مری، یارمحمد جلالانی، غلام قادر مرڑانی، منصور میرانی، غلام حسین شر، مراد چانڈیو، خادم چانڈیو، قاضی عبدالخالق، شاہمیر بھنگوار، حسین بخش جج، محمدعثمان شیدی، بقا بروہی، پیر شہاب الدین، حاجی حسین جونیجو، ولی محمد انڑ، دین محمد انڑ، اسماعیل کھوسو شامل ہیں۔ رسول بخش پلیجو کی قیادت میں چلنے والی عوامی تحریک نے ستر کے عشرے میں الگ سے ہاری تنظیم سندھی ہاری تحریک کے نام سے بنائی۔ اس تنظیم میں فضل راہو نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔اس تنظیم کے دوسرے اہم لیڈروں میں علی سوڈھو، قادر رانٹو، http://www.naibaat.pk/?p=51696cوشنو مل، شیرخان لِنڈ اور گل حسن کیڑانو اہم رہنما تھے۔ (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment