مالک ہو۔ اس معاملے پر جی ایم سید اور کامریڈ جتوئی کے درمیان دوری پیدا ہوگئی ۔
گروہ بندی کا آغاز: ساٹھ کی دہائی میں جب سوویت یونین اور چین کے درمیان فکری اختلافات پیدا ہوئے تودنیا بھر کے کمیونسٹوں کی طرح سندھ ہاری کمیٹی میں بھی دوگروپ ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ہاری فرنٹ کی رہنمائی کرنے والے رہنما کامریڈ عزیز سلام بخاری نے چین نواز لائن اختیار کی۔ نتیجتاً ہاری کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گروپ میں شامل ہوگئی۔اس گروپ کی جانب سے چمبڑ ہاری
تحریک چلائی گئی۔ جس میں کامریڈ احمد اور دیگر رہنماؤں نے حصہ لیا۔ کامریڈ جتوئی کے بعد:
چوتھا دور کامریڈ جتوئی کی وفات کے بعد کا ہے۔ کامریڈ جتوئی کی زندگی میں ہی شاگرد، ہاری مزدور رابطہ کمیٹی قائم کی گئی۔ ان دنوں سندھ میں طلباء تحریک زوروں پر تھی۔ اور مزدور تحریک میں بھی ابھار آیا ہوا تھا۔ اس اتحاد کا مقصد یہ تھا کہ تمام مظلوم طبقات مشترکہ جدوجہد کریں۔ دوسرا یہ کہ ہاریوں کوطلباء اور مزدور تحریک سے فائدہ ملے۔ کامریڈ جتوئی کی زندگی میں ہی سکرنڈ ہاری کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر ان کی وفات کے باعث یہ کانفرنس ملتوی کردی گئی ۔ چند ماہ کے وقفے کے بعد یہ کانفرنس منعقد ہوئی۔اس
کانفرنس میں ہاری کمیٹی کو منظم کرنے کے لیے کامریڈ جام ساقی کو آرگنائزر مقرر کیا گیا۔کمیونسٹ پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل امداد قاضی کا کہنا ہے کہ جام ساقی کی شمولیت سے اگرچہ ہاری تنظیم کا رنگ زیادہ ریڈیکل ہوا مگر یہ تنظیمی طور پر سکڑ گئی۔ان کے مطابق جام ساقی ہاری لیڈر کے بجائے پارٹی لیڈر کے طور پر کام کرتے رہے ۔ انہوں نے نظریاتی پہلو پر
زیادہ توجہ دی۔
اور ہاری کمیٹی ماس موومنٹ نہ بن سکی ۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر تحریک نہیں چل سکی تاہم چھوٹی چھوٹی کئی تحریکیں چلیں ۔ہاری کمیٹی کے کچھ پاکٹس بنے جس میں بلہڑیجی، شہدادکوٹ، لاڑکانہ، ڈہرکی کے علاقے کھروہی کے سیکٹر زیادہ سرگرم رہے اور کئی معاملات میں انہوں نے رہنمایانہ کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ ہاری کمیٹی نے
اپنے رہنما عرس سیلرو کو نادر مگسی کے مقابلے میں کھڑا کیا ۔ کھروہی میں کامریڈ ماندھل شر کی قیادت میں ہاریوں کا ایک مضبوط مرکزقائم ہوا۔نواب شاہ میں
پیر شہاب اور ٹنڈوالہ یار میں پہاڑ لغای کے علاقے میں ہاریوں کے مؤثر مرکز قائم ہوئے ۔ جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ کامریڈ جتوئی کے بعد عملاً ہاری تحریک ختم ہو گئی ۔یہ زرعی معاشرے کا المیہ ہے کہ کوئی بڑاآدمی موجود ہے تو تنظیم اور تحریک بنتی ہے ۔جتوئی کے بعد کوئی
بڑاآدمی ہاری کمیٹی میں نہیں آیا ۔ رسول بخش پلیجو کی رہنمائی میں عوامی تحریک نے ’’سندھی ہاری تحریک‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ جامی چانڈیو کے مطابق اس ہاری تنظیم نے بھی ضیا دور میں کام بند کردیا ۔زیادہ تر
رجحان قومی سوال کی طرف ہوگیا ۔ ستر کی دہائی سے لے کر اسی اور نوے کی دہائی میں مختلف شکلوں میں ہاری تنظیمیں بنیں مگر کوئی بھی نئی تنظیم فعال تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ ضیا مارشل لاء میں ہاری تحریک ختم ہونے کی وجہ قومی اور جمہوری سوال کا اولین ترجیح بننا تھا۔جس کو اٹھانا وقت کی ضرورت بھی تھی اور سیاسی جماعتیں ان دو سوالوں کو ہی ترجیح دے رہی تھیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہاری تنظیموں نے ضیا مارشل لاء کے خلاف بھر پور جدوجہد کی اور ایم آرڈی تحریک میں بھی
حصہ لیا۔ سیاسی کلچر اور ماحول میں تبدیلی: جی ایم سید ہاری کمیٹی کے شروع کے دو ادوار میں بھرپور طریقے سے شامل رہے، مگر ساٹھ کی دہائی اور خاص کر سترکے انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ۔ اور پھر ہاریوں کے مسائل کبھی نہیں اٹھائے۔ 40کے عشرے سے 70 کے عشرے تک ہاری سوال پر سیاسی جماعتوں میں کوئی مسابقت نہیں تھی۔ بلکہ وہ سب اس نکتے پر ایک ساتھ تھے۔کہیں اگر ہاریوں کا مسئلہ ہوتا تھا تو سب مل کر جدوجہد کرتے تھے ۔بعد میں ہر
سیاسی گروپ نے اپنی الگ سے ہاری تنظیم بنالی ۔ دوسرا ابھار:سندھ ہاری کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری صوفی حضور بخش، جامی چانڈیو کی اس رائے سے متفق نہیں کہ ضیا دور میں ہاری تحریک ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ 80 کے عشرے میں سندھ ہاری کمیٹی نے ایک چھال دی تھی جس سے ہاری تحریک کو ایک بار پھر عروج مل گیا۔اس کی وجہ ہاریوں میں کام کرنے والے مختلف گروپوں کا مل کر کام کرنا تھا۔اس دور میں سینکڑوں جلسے جلوس ہوئے ۔ ہاری جدوجہدیں بھی ہوئیں جس میں سے بیشتر کامیاب بھی ہوئیں ۔ بعد میں ان گروپوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے خاص طور پر سگیوں کانفرنس کے بعد تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ ہوگئی اور ہاری کمیٹی ایک بار پھر کمزور ہوگئی۔ صوفی حضور بخش کا کہنا ہے کہ اگر کاز کے ساتھ وقف کرنے والی لیڈرشپ اور کارکن موجودہوں اور ہاریوں میں کام کرنے والے بائیں بازو کے مختلف گروپوں کی حمایت حاصل ہو تو ایک بار پھر
ہاری کمیٹی فعال اور سرگرم ہوسکتی ہے۔ ہاری کمیٹی کی حاصلات: ون یونٹ مخالف تحریک کو دیہی علاقوں تک پہنچانا، روشن خیال فکر پھیلانا اور سیاسی شعورپیدا کرنا، تنظیم کاری اوردیہی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی جدوجہدیں کرنا ہاری کمیٹی کی اہم حاصلات ہیں۔جس سے مجموعی طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی جاگرتا پیدا
ہوئی۔ اس جاگرتا کا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا ۔
اس کے علاوہ پانچ ٹھوس حاصلات ہیں جن کو یکھا اور ناپا جاسکتا ہے: 1۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری
2۔ بیراج کی زمینیں باہر کے لوگوں کوانعام اور نیلام میں دینے کے بجائے مقامی ہاریوں میں
تقسیم کرنا 3۔ بوگس کلیموں کو روکنا
4۔ زرعی پیداوار میں ہاری کا آدھا حصہ قانونی طور پر تسلیم کرانا اور اس پر عمل درآمد کرانا 5۔ ہاریوں کی بے دخلیاں روکنا ۔ ان پانچ حاصلات کے لیے سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کی رہنمائی میں جامع حکمت
عملی کے ساتھ متواتر جدوجہد کی۔دراصل ہر حاصلات کی ایک الگ الگ تحریک ہے جس نے سندھ
کے زمینداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کامریڈ جتوئی ایک برجستہ اور بہادر رہنما تھے ۔ان کی جدوجہد کثیرجہتی تھی۔یعنی قانونی جنگ بھی لڑتے تھے۔ احتجاج اور جلسے جلوس بھی کرتے تھے تو دوسری پارٹیوں کے ساتھ لابنگ بھی کرتے
تھے تاکہ ان کے مطالبے کودوسرے حلقوں سے بھی حمایت حاصل ہو۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں پیداوار کے ذرائع میں تبدیلی آئی ہے۔ لوئر سندھ میں گنے اور دوسری نقد فصل کے عام ہونے سے بڑے پیمانے پر زرعی مزدور پیدا ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے اس نیم ہاری نیم مزدور کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔لیکن باقی علاقوں میں ہاری روایتی انداز میں موجود ہے۔اور اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہے۔بھٹو دور کے بعد مسلسل زمیندار طبقہ سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہوا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ میں اثرورسوخ کی وجہ سے مکمل طور پر ہاری اور دیہی آبادی پر حاوی ہے۔ دوسری طرف ہاری تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مزاحمت نہیں
۔ نتیجے میں ہاری معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر پہلے کے مقابلے میں زیادہ پس رہا ہے۔مارکیٹ اکانومی کی وجہ سے معاشی طور پر تمام نزلہ ہاری پر گرتا ہے۔ کارخانے دار، بڑا تاجر، چھوٹا دکاندار اور سرکاری خواہ نجی ملازم اپنا تمام معاشی وزن عام حالات میں اور خاص طور پر معاشی بحران کی صورت میں ہاری پر ہی ڈال دیتے ہیں۔ملکی ترقی، سائنس اور ٹیکنالاجی کی ترقی سے ہاری کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی وہی کسمپرسی والی حالت ہے۔ کسی منظم اور فعال تنظیم کی عدم موجودگی میں ہاری سوال سیاست اور ریاست دونوں کے ایجنڈا سے غائب ہے۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران بعض این جی اوزہاریوں کے مسائل اٹھاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ حقیقی ہاری تنظیمیں نہیں۔یہ بعض واقعات کے بعد ان ایشوزکو انسانی حقوق یا لیبر ایشو کے طور پر اٹھاتی ہیں۔ جس سے صرف وقتی طور پر تورلیف ملتا ہے۔ دراصل یہ سماج کا طبقاتی اور سیاسی سوال ہے۔ معاشی اور سماجی نابرابری کا سوال ہے۔این جی اوز کا نہ وژن ہے نہ ان میں صلاحیت اورنہ ارادہ۔یہ ایک http://www.naibaat.pk/?p=52324c
طبقاتی سوال ہے جسے سیاسی جماعتوں کو ہی اٹھانا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment