بعض زمینی حقائق نے سنجیدہ سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا سندھ جو صوفیوں کی سرزمین تھی، رواداری ، بھائی چارے ، امن اور آشتی کی زمین تھی، وہ اب ایسی نہیں رہی؟ گزشتہ چند برسوں سے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہو رہے تھے جو سندھ کی روایتی رواداری کی نفی کرتے تھے۔ مگر گزشتہ دنوں شکارپور اور جیکب آباد میں ایک روحانی پیشوا کے کارواں پر اور اس کے چند روز بعد ایک درگاہ پر حملوں نے اس سوال کو مزید تیز کردیا ہے۔
امن اور آشتی کی سرزمین سندھ اب دھماکوں سے گونجنے لگی ہے۔ سندھ کے لوگ اس طرح کے دھماکوں کی آواز کے عادی نہیں تھے۔ درگاہوں اور خانقاہوں پر حملوں کے بعد روایتی میلے اور اس طرح کے ثقافتی اجتماعات کی راہیں بھی مسدود ہو رہی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ سندھ نسلی یا لسانی، خواہ مذہبی اعتبار سے، رواداری کی سرزمین رہی ہے۔اس مٹی میں اتنی صلاحیت رہی ہے کہ باہر سے آنے والے خواہ وہ لشکر کشی کے دوران آئے یا افریقہ سے غلام بن کر یہاں بکے، ان کو اپنی گود میں سمو لیا اور یہاں کی آبادی کا حصہ بن کر رہے۔ یہاں مختلف مذاہب ایک ساتھ رہے جن میں کوئی ٹکراؤ یا تصادم نہیں تھا۔
قلندرلال شہباز کے فقیروں کی دھمال، شاہ عبداللطیف بھٹائی کافکر، سچل سرمست کی شاعری، شاہ عنایت شہید کی مزاحمتی جدوجہد کے اصل رنگ ایک ہی ہیں۔ ان کے پیروکار ہندو اور مسلمان دونوں رہے ہیں۔ اڈیرولال اس کی آگے بڑھی ہوئی مثال ہے جہاں ایک ہی درگاہ کے ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف ہندو آکر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں۔
لیکن سندھی سماج تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں بعض تکلیف دہ علامات سامنے آئی ہیں۔ قبائلی ، سرداری اور برادری کا رجحان بڑھا ہے۔ صوبے کی آبادی کے ایک حصے میں ہندوؤں اور عورتوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے ۔ بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کی آمد اور ان کے یہاں آکر آباد ہونے سے سماجی، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی صورت حال بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ زندہ رہنے کے وسائل پر باہر کے لوگوں کے قبضے نے مقامی آبادی کے لیے وسائل کو محدود کردیا ہے جس نے بدترین غربت کو بڑھایا اور لوگوں میں بیچارگی کا احساس بڑھا۔ قانون اور ریاست کے ادارے لوگوں کی مدد کو نہ آئے تو وہ قبائلی اور برادری پرستی میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ جس کے نتیجے میں انارکی بھی بڑھی اور مذہبی انتہا پسندی کو بھی جگہ ملی۔ سندھ کی رواداری اور پیار ومحبت کے کلچر پرریاست کی پالیسیاں بری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں ۔ سیاسی اور معاشی پالیسیاں کچھ ایسی رہی کہ تمام مثبت روایات دم توڑنے لگیں۔ اب تو سب اہل دانش یہ ماننے لگے ہیں کہ ملک کی سیاست میں آلودگی کے تین بڑے اسباب رہے ہیں۔ پہلا عنصر خارجی ہے۔ جس میں ملک کی خارجہ خواہ اندرونی پالیسیاں امریکہ کے ماتحت بنائی گئیں۔ دوسرے دو عنصر اندرونی ہیں جس میں سیاست میں مذہب کا کردار بڑھا، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جس کی وجہ سے کوئی سیاسی نظام نہیں بن سکا۔ان تین عناصر کی وجہ سے ملک میں اپنا معاشی نظام نہیں بن سکا۔ ملکی سیاست میں مذہب کا کیا کردارہو؟ بانیان پاکستان کا نقطہ نظراس سے بہت مختلف تھا جو آج ہمیں بتایا جارہا ہے۔ یا جس پر ہم عمل پیرا رہے ہیں۔ یہ بات آج علمی سطح پر تو کہی جاتی ہے مگر عملی طور نہ تو مانی جارہی ہے اور نہ کی جارہی ہے۔ اگر بات کی تہ تک جایا جائے تو پتہ چلے گا کہ آج ملکی سلامیت کوجو خطرات درپیش ہیں وہ ناگزیر طور پر مذہب کے حوالے سے ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہیں جو اب انتہاپسندی کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ اس انتہا پسندی نے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج تباہ کیا ہوا ہے۔ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا دیاہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ معاشرہ دہشت زدہ ہے۔ چاروں طرف خوف کے سایے ہیں۔ پہلے شدت پسند وں کی کارروائیاں صرف قبائلی علاقوں تک محدود تھیں۔اس کے بعد شہری علاقوں تک پہنچیں۔اور اب دیہی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ انتہاپسند معاشرے کے بعض کمزورحصوں میں مقبول ہورہے ہیں۔ جس انتہا پسندی کو آج ہم بھگت رہے ہیں اس کا آغاز اس بات سے ہوا کہ قیام پاکستان کے بعدان عناصر کو خوف محسوس ہوا کہ نیا ملک اگر جدید مسلمان ملک بن گیا، ان کے مذہبی نظریات خطرے میں پڑ جائیں گے۔انہوں نے نوزائیدہ ریاست کی سیاست اور حکمرانی پر قبضہ کرنے کی مرحلہ وار حکمت عملی بنائی۔ جب ضیاء الحق حکومت میں آیا تو اس پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔ ملک کے ابتدائی دنوں میں جمہوری عمل میں مداخلت اور آئین بنانے میں ناکامی نے اس طرح کے مذہبی حلقوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ بلند کریں۔ رجعت پسندانہ مذہبی خیالات نے ریاستی ڈھانچے میں ایوب کے دور حکومت میں راستہ بنایا۔ بعض عالمی قوتوں کی ایماء پر رجعت پسندانہ خیالات کو مذہب کے نام پر پروان چڑھایا گیا۔ کیونکہ یہ غیرملکی قوتیں مذہب کو کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مؤثر ہتھیار سمجھتی تھیں۔ آگے چل کر سرد جنگ میں جتنی تیزی آتی گئی اتنا ہی ان رجعت پسندانہ خیالات کو مضبوطی ملی۔افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد کے بعد ان مذہبی عناصر کے لیے کامیابی کو مزیدیقینی بنادیا۔ باہر کی مالی اعانت اور حکومت اور میڈیا کی سرپرستی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک آلے کے طور رپر استعمال کیا گیا۔ آگے چل کر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کی بنیاد پر پالیسیاں بننے لگیں جس میں خود وقت کی حکومت نے بھی کردار ادا کیا۔ بڑے پیمانے پر مدارس کھلنے لگے۔ 1979ء میں پڑوسی ملک ایران میں انقلاب آنے سے شیعہ انتہا پسندی بڑھی۔ضیاء الحق نے مارشل لاء لاگو کرنے کے بعد اسلام کا بنیاد پرستی پر مبنی فکر پھیلانا شروع کیا۔انہوں نے دیو بندی اور جماعت اسلامی کے نظریات پر بھروسہ کیا۔اب تو نہ صرف شیعہ سنی بلکہ بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر تقسیم چل رہی ہے جس میں بعض عالمی قوتوں کے ملوث ہونے کی علامات نظر آنے لگی ہیں۔ رجعت پسندانہ مذہبی خیالات اور مذہبی خیالات کو پروان چڑھانے میں تعلیمی نصاب نے بھی کام دکھایا جو کہ تعصب پر مبنی رہا ہے۔اور مذہبی رواداری کی نفی کرتاہے۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھ میں مذہبی حوالے سے الگ مکاتب فکر تھے جو انڈیا کے مکاتب فکر سے مختلف تھے۔ لیکن ملکی سیاست، حکومتی پالیسیوں، بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کی آمد نے سندھ کے ان مذہبی مکاتب فکر کوپیچھے دھکیل دیا۔ اب سندھ میں بڑی حد تک مذہبی حوالے سے وہی صورت حال بنی ہوئی ہے جو ملک کے کسی اور جگہ پر ہوسکتی ہے۔ فکری، ثقافتی اور سماجی طور پر ملاوٹ نے سندھ کے فائبر کو تہس نہس کردیا ہے۔ سندھ میں یہ اندیشہ ظاہرکیاجارہا ہے کہ ممکن ہے کہ سندھ میں بیک وقت نسلی اور مذہبی فسات کرائے جائیں۔ اس کے بعد کمزور سندھ کو آسانی کے ساتھ تقسیم کیا جاسکے۔ صدیوں سے صوفیانہ شناخت رکھنے والے سندھ کو اب انتہاپسندی کا اجگر نگل رہا ہے۔سندھ پہلے ہی برادری جھگڑوں میں پھنسا ہوا تھا۔ اب مذہبی رواداری کا درس دینے والی درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ سندھ کے تصوف پر کوئی بڑا وار ہونے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment