Friday, August 16, 2013

سندھ میں تبدیل کیا ہوا؟


سندھ میں تبدیل کیا ہوا؟

گزشتہ ڈیڑھ سال سے نواز شریف کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا وجود ملک گیر پارٹی کے طور پر منوائیں لیکن پنجاب کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں یہ کام وہ پارٹی کی مخصوص پالیسیوں، تنظیمی رکاوٹوں او ر ٹیم میں بااعتماد ساتھیوں کی کمی کے باعث نہ کرسکے۔سندھ میں انہوں کچھ تجربے کرنے کی کوشش کی۔ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کی شمولیت اس سلسلے کی کڑی ہیں۔اس کے علاوہ ماروی میمن نے عوامی سطح پر جانے کی بھرپور کوشش کی۔مگر پارٹی مرکزی قیادت اور صوبے میں موجود بااثر شخصیات نے انہیں مزید کام کرنے سے روک دیا۔یہ کوئی اتنا خاص کامیاب تجربہ بھی نہیں تھا جسے دوسرے صوبوں میں بھی دہرایا جاسکے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نواز شریف نے ملک بھر میں پارٹی کو منظم کرنے کے بجائے اتحادوں کی سیاست پر انحصار کیا۔ بلوچستان میں سردار مینگل سے عملی مفاہمت پیدا کی جس کے بعد اسلام آباد اور لاہور کے دانشوروں نے سرادار اختر مینگل کے بیانات کو وفاق کی طرف بڑھایا ہوا آخری ہاتھ اور آخری آواز قرار دیا۔ نواز شریف کی کوششوں سے ابھی سندھ میں 22 جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد بنایا ہے۔ جس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اکیلی ہو گئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس پارٹی کی جیت مشکوک ہوگئی ہے۔ نواز شریف نے جب اس مرتبہ سیاست شروع کی تو انہوں نے سندھ میں مختلف گروپوں کے ساتھ الگ الگ انڈر اسٹینڈنگ بنائی۔ انہوں نے سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر قادر مگسی، عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے جلال محمود شاہ سے الگ الگ رابطے کیے۔ ان رابطوں کے بعد جلال محمود شاہ نے بھانپ لیا کہ نواز شریف کے اشتراک سے سندھ میں حکومت مخالف جو گروپ ابھر رہا ہے۔ اور نوز شریف کے پاس ان کی پارٹی میں خواہ اتحادیوں میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں ہے جو سندھ میں اس لابی کو قابل قبول ہو۔ انہوں نے باقی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر نواز شریف سے تحریری طور پر معاہدہ کرلیا۔یوں وہ دوسرے قوم پرستوں کے مقابلے میں نواز شریف سے زیادہ قریب ہو گئے۔ ایسا کرکے جلال محمود شاہ نے لیاقت جتوئی کے نمبر کم کردیئے جو سندھ میں نواز شریف کی لابی کی سندھ میں سربراہی کے خواہاں تھے۔ لیاقت جتوئی نے حال ہی میں منعقد ہونے والے سیوہن کے ضمنی انتخابات میں جلال محمود شاہ پر اپنا غصہ یوں نکالا کہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں سامنے اپنے میداور کو نہیں ہٹایا۔ایسا کرکے لیاقت جتوئی نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جلال محمود شاہ کی پوزیشن خود اپنے آبائی حلقے میں بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ بعد میں جب متنازع بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک چلی تو جلال محمود شاہ بآسانی سندھ بچایو کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔آگے چل کر جب بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک چلی تو مسلم لیگ فنکشنل سندھ میں حکومت مخالف تحریک کی قیادت کی دعویدار کے طور پر سامنے آئی۔ پیر پگارا نے قوم پرستو ں جماعتوں اور دیگر گروپوں کو اپنی چھتری کے نیچے جمع کرلیا۔ حکومت مخالف دھڑے کے کھڑا ہونے کے بعد سندھ کے حوالے سے نواز شریف یا کسی اور کو بات کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے نہ قوم پرستوں سے یاجلال محمود شاہ سے بات کرنے کے بجائے پیرپگارا سے ہی بات کی۔ ادھر نواز شریف کی ڈاکٹر قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ اور جلال محمود شاہ کا نواز شریف سے کیا گیا تحریری معاہدہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اب پیر پگارا اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے فیصلے اہم بن گئے۔ پیر پگارا نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے گزشتہ ہفتے نواز شریف سے ہونے والی بات چیت کی توثیق قوم رستوں یعنی سندھ بچایو کمیٹی سے ایک میٹنگ میں کرالی ۔ سندھ میں نواز شریف کی سیاست اس مرتبہ قوم پرستوں سے بات چیت سے شروع ہوئی ۔ جس میں قوم پرست جماعتوں نے سندھ کے مطالبات رکھے اور پنجاب اور نواز شریف کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا اور بعض یقین دہانیاں بھی مانگی ۔ یوں سندھ کے مطالبات کا رخ پنجاب مخالف یا پنجاب سے کچھ لینے کے بارے میں تھا۔ اس اثنا میں پیپلز پارٹی پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس لے آئی۔ اس متنازع قانون نے سندھ میں تحریک کو جنم دیا اور سندھ کے سیاسی حلقے اس قانون کو سندھ کی وحدت پر حملہ قرار دے رہے تھے۔ اس قانون نے جدوجہد کا رخ اور جدوجہد کی قیادت کو بدل ڈالا۔ اب جدوجہد کا رخ پنجاب مخالف نہیں بلکہ کیو ایم مخالف ہوگیا۔ اس جدوجہد میں نواز شریف بھی قوم پرستوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس بات نے نواز شریف اور پنجاب دونوں کو سوالات اور یقین دہانیوں سے بری کرلیا۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فنکشنل لیگ سندھ کا کیس تب تک نہیں اٹھایا جب تک اس کا رخ پنجاب مخالف تھا۔وہ ایسے وقت میں سامنے آئی جب تضاد سندھیوں اور ایم کیوایم کے درمیان تھا۔ سندھ میں نیا منظرنامہ متنازع بلدیاتی نظام لاگو کرنے کے بعد ہی بنا۔ اس چکر میں سندھ کا اصل ایجنڈا گم ہوگیا اور صرف ایک ہی مطالبہ ہونے لگا کہ بلدیاتی قانون واپس لیا جائے۔ اب جب حکومت نے یہ قانون واپس لے لیا ہے اور ایم کیو ایم حکومت سے علحدہ ہوگئی ہے تو عملی طور پربلدیاتی نظام کی مخالفت کا ایک نکاتی ایجنڈا ہی ختم ہو گیا ہے۔ البتہ یہ شبہ اپنی جگہ پر ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس قانون کو دوبارہ نافذ کر سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ماضی کے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ اس کے پاؤں تب تک نہیں اکھیڑے جا سکتے ہیں جب تک شہری علاقے اس کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔1977ء کی پی این اے کی تحریک، بینظیر بھٹو کی دو حکومتوں کا جانا یہی بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں کی مخالفت کے بعدیہ سب کچھ ہوسکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیوایم کو ہاتھ نکلنے نہیں دے رہی ہے اور ہر حال میں اسے ساتھ رکھنا چاہ رہی ہے۔ جہاں تک الیکشن اور سندھ میں ووٹ بنک کا سوال ہے ان دونوں پیپلز پارٹی اس طرح سے نہیں دیکھتی جس طرح سے مخالفین دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی خالصتاً وڈیروں کے اسٹائل سے انتخابی عمل کو دیکھتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ’’ فلاں وڈیرے یا رئیس کے پاس اتنے ووٹ ہیں۔ اس کو اس طرح یا اس طرح اپنے ساتھ ملالیا جائے گا۔ باقی کچھ ووٹ پارٹی کے ہیں۔ کوئی کوئی مضبوط امیدوار میدان میں نہیں لہٰذا یہ سیٹ پکی ہے‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ سندھ میں سیاسی یا فکری حوالے سے پیپلز پارٹی کمزور ہوئی ہے کیونکہ یہ دونوں حلقے اس کے خلاف کھڑے ہیں تاہم عملی طور پر یا الیکشن کے حوالے سے پیپلز پارٹی اتنی کمزور نہیں ہوئی ہے۔ نواز شریف ، فنکشنل لیگ یا ان کے اتحادی قوم پرست کسی بھی حلقے میں اس کو نہیں چبھتے۔ سندھ میں فنکشنل لیگ کے پاس صوبائی اسمبلی کی 7نشستیں ہیں۔ سیاسی فضا میں تبدیلی اور تمام زور لگانے کے بعد فنکشنل لیگ ایک دو نشستوں کا اضافہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دو نشستوں پر پیپلز پارٹی کو دقت درپیش آسکتی ہے مگر مجموعی طور سندھ میں اس پارٹی کی نشستوں پر اثر نہیں پڑ رہا ہے اورموجودہ صورت حال میں اس کو کوئی بڑا سیٹ بیک نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment