Friday, August 16, 2013

سندھ میں متبادل قیادت کا خواب


سندھ میں متبادل قیادت کا خواب
پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے سندھ میں تشکیل کردہ دس جماعتی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سوال پر اختلافات کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کئی مقامات پر اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنے علیحدہ امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف میڈیا میں بیان بازی بھی کر رہی ہیں ۔ یہ گرانڈ الائنس پیر پگارا کی چھتری کے نیچے قائم ہوا اور ان کا اتحاد نواز لیگ سے ہے۔کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ نواز شریف سے سندھ کی صورت حال نہ سنبھل سکی تو سندھ کا ٹاسک اب فنکشنل لیگ کو دے دیا گیا ہے جس کو حکومت میں اب جونیئر پارٹنر کے طور پر لیا جائے گا؟ پرانے سیاسی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب
اسلام آباد کے لیے سندھ کے قوم پرست ترجیحات میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں جو اپنی نوعیت میں ترقی پسند اور سیکولر جماعتیں رہی ہیں اور پیروں، میروں اور وڈیروں کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں ہیں اب میروں پیروں کی قیادت میں آکر بیٹھی ہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتوں کے
ساتھ اتحاد کئے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں بھی اس طرح کے اتحاد بنتے رہے ہیں۔ سندھ قومی اتحاد 1988ء کے اتخابات کے موقع پر بنا تھا۔ اس وقت جی ایم سید زندہ تھے۔ نوے کی دہائی میں بھی سندھ قومی اتحاد کے بینر تلے قوم پرستوں نے انتخابات میں حصہ کیا۔ دونوں موقعوں پر ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے تھا۔جس کا اور کسی کو فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو دادو کے جتوئی خاندان کو فائدہ ہوا۔ اور وہ صوبے کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔ مگر اس مرتبہ قوم پرست کسی اور فائدہ دینے کے موڈ
میں نہیں لگتے۔ موجودہ دس جماعتی اتحاد کی بنیاد قوم پرست تھے جنہوں چند برس پہلے سندھ نیشنل الائنس (سپنا)کے نام سے قوم پرستوں کا اتحاد بنایا تھا۔ گزشتہ سال متنازع بلدیاتی قانون نافذ ہونے پر مسلم لیگ فنکشنل جو چار سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل تھی وہ بھی میدان میں آگئی۔ جس کے بعدسندھ کی سیاست کچھ عرصے کے لیے فنکشنل لیگ کی قیادت میں چلی گئی تھی۔ نواز شریف اس مرتبہ اس سندھ میں مختلف حکمت عملی اختیار کی ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو سندھ میں منظم کرکے براہ راست سندھ کا اسٹیک ہولڈر بننے کے بجائے اس بات کو ترجیح دی کہ الیکٹ ایبلز کے ساتھ اتحادبنایا اور سندھ دوست ہونے کے ثبوت کے طور پر قوم پرستوں سے اتحاد
کیا۔ سندھ کے معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اس حکمت عملی پر یہ تنقید کر رہے ہیں کہ ان کو مستقل بنیادوں پر سیاست کرنی ہے تو موقع پرستوں پرانحصار کے بجائے مکمل متبادل کے طور پر سامنے آنا چاہئے۔ صرف نہیں کرنا چاہئے ۔ موقع پرست ہرحکومت میں شامل ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ مختلف بااثر لوگوں کو ملا کر
وہ اپناکام نکال سکتے ہیں مگر سندھ کے لوگوں کو کچھ ڈلیور نہیں کرسکیں گے۔ لیاقت جتوئی مشرف دور میں وفاقی وزیر رہے۔ مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل حالیہ دور میں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی ہیں۔ان تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف کی پالیسی میں یہ نقص ہے اور وہ سندھ میں دور رس یا دیرپا سیاسی مفادات نہیں رکھنا چاہتے۔ سندھ میں اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ علامہ طاہرالقادری کے دھرنے کے موقع پر نواز شریف نے اپوزیشن پارٹیوں کا رائیونڈ میں اجلاس بلایا اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا تو سندھ کی کسی بھی قوم پرست پارٹی کو نہیں بلایا۔جبکہ بلوچستان،
پختونخوا یہاں تک کہ کراچی سے بھی مختلف جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سندھ میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف براہ راست سندھ میں اپنا سیاسی اسٹیک شو کرے اور اسکے ساتھ ساتھ سندھ کے قوم پرستوں سے وہ براہ راست بات کریں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ فنکشنل لیگ کے حوالے کرنے سے بااثر وڈیرے ہی آگے آئیں گے اور قوم پرستوں کی سنی نہیں جائے گی۔یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ اتحاد کسی پروگرام کے بجائے صرف پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کیوں؟ اس اتحادکا پروگرام یا منشور کیا ہے؟ اس کو کیوں نہیں سامنے لایا جارہا
ہے۔ سندھ کے حلقوں میں یہ بات شدت سے کہی جا رہی ہے کہ اگر وڈیروں پر ہی اعتماد کا اظہار ہے اور انہیں ووٹ دینا ہے تو پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ میں سے ایک کو منتخب کرنا ہے۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی میں کیا برائی ہے؟ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر فنکشنل لیگ بھی جیت کر آتی ہے تو وہ بھی ایم کیو ایم سے اتحاد کرکے حکومت بنائے گی۔ یہی کام پیپلز پارٹی پہلے سے
کر رہی ہے۔ دس جماعتی اتحاد میں پہلا اختلاف قاسم آباد کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہوا جہاں پر سندھ ترقی پسندپارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی اورعوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو دونوں اتخاب لڑنا چاہ رہے تھے۔بعد میں قادر مگسی اس نشست سے دستبردار ہوگئے۔ لیکن اس سے پہلے انہوں ایک جلسہ عام میں ایاز لطیف پلیجو کو خاصا لتاڑا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں اتحاد نے مختلف نشستوں پرامیدوروں کے ناموں کو حتمی شکل دی۔ دوسرے روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما خالد محمود سومرو نے ان حلقوں سے اپنی پارٹی کے امیدوروں کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ سندھ پاگارا کی نہیں ہے۔اس خام خیالی سے نکلنا پڑے گا۔اتحاد نے ہمیں اہمیت نہیں دی ہے
لہٰذا ہم الگ امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔ جیکب آباد میں جے یو آئی کے امیدوروں نے الگ سے اپنے پارٹی کی ٹکٹ جمع کرادی ہیں ۔ فنکشنل لیگ دادو کے صدر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انہیں اہمیت نہیں دے رہی۔ نون لیگ اور لیاقت جتوئی دادو کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی کا کہنا ہے کہ دس جماعتی اتحاد کے فیصلے کے تحت تمام جماعتیں نوشہروفیروز سے دستبردار ہوگئی ہیں لیکن نون لیگ کے امیدوار کھڑے ہیں۔اس طرح کی صورت حال بعض اور حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اتحادی جماعتوں کی انا کو دیکھتے ہوئے یہ اختلافات ناقابل حل نظر آتے
ہیں۔ سندھ میں یہ بات بھی سنائی دے رہی ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں اسلام آباد کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ پہلے یہ رائے پیپلز پارٹی کے خلاف تھی اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی مخالف سیٹ اپ وجود میں آئے گا۔ لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو جڑ سے اکھاڑنے کا منصوبہ باقی نہیں ہے۔ اس کے بجائے مخلوط حکومت کے فارمولا پر کام کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم اور قاف لیگ کے مشاہد حسین نے ایک ہی دن ایک ہی طرح کی بات کہی ہے۔ دونوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکیلے طور پر اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی، لہٰذا مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مرکز میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ملکر حکومت بنائیں گی جبکہ پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں
پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے خلاف وسیع تر اتحاد کی کوششوں میں سب سے بڑا نقصان قوم پرستوں کو ہوا جو متبادل قیادت سمجھے جاتے تھے اور اپنی الگ شناخت رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ دونوں چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ وہ قوم پرست شناخت کے ساتھ الگ انتخاب لڑتے۔ اس http://www.naibaat.pk/?p=46556c
کے علاوہ پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنانے کا خواب بھی ادھورا دکھائی دیتا ہے۔











No comments:

Post a Comment