سندھ نامہ سہیل سانگی
۱۱ مارچ
صوبے کے سیاسی افق پر متحدہ قومی موومنٹ میں باغی گروپ کے پیدا ہونے ، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات کی جنگ کا عدالت تک پہنچنا اور اس طرح کے سیاسی و اقتداری معاملہ موضوع بحث رہے۔ تاہم اخبارات سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی بحث کی ہے۔
روزنامہ کاوش ترقیاتی رقم کیوں کرچ نہ ہو سکی کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت رواں مالی سال کے لئے مختص 168 ارب روپے کی ترقیاتی رقم میں سے صرف 56 فیصد خرچ کر پائی ہے۔ تعلیم، صحت، خوراک، امور داخلہ، لائیو اسٹاک، فشریز اور کچی آبادی جیسے اہم محکموں سمیت 256 اسکیموں پر ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں کر پائی ہے۔
اس کے علاوہ ہیپٹائٹس، چائلڈ کیڑئر، ملیریا، ڈینگی، اور تھیلسمیا کے کنٹرول پر رکھی گئی سوا ارب روپے میں سے بھی کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی۔ جو ملک ترقی کر رہے ہیں وہ ان ممالک کے حکمرانوں کی محنت اور نیک نیتی کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ وہ عوام کے سامنے خود کو جوابدہ بھی سمجھتے ہیں اور عوام انکا ووٹ کے ذریعے احتساب بھی کرتا ہے۔
ہمارا ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ادارے بظاہر بہت مضبوط نظر آتے ہیں۔ درحقیقت ان کو کرپشن کی دیمک نے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔ کسی ادارے کو کرپشن کا روگ لگتا ہے اور اسکا بروقت علاج نہیں کیا جاتا اس ادارے کا ترقی میں کوئی کردار ادا کرنا تو در کی بات اپنے وجود کا جواز بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہی صورتحال مجموعی طور پر ملک کے تمام اداروں کی ہے۔
روزنامہ کاوش ترقیاتی رقم کیوں کرچ نہ ہو سکی کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت رواں مالی سال کے لئے مختص 168 ارب روپے کی ترقیاتی رقم میں سے صرف 56 فیصد خرچ کر پائی ہے۔ تعلیم، صحت، خوراک، امور داخلہ، لائیو اسٹاک، فشریز اور کچی آبادی جیسے اہم محکموں سمیت 256 اسکیموں پر ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں کر پائی ہے۔
اس کے علاوہ ہیپٹائٹس، چائلڈ کیڑئر، ملیریا، ڈینگی، اور تھیلسمیا کے کنٹرول پر رکھی گئی سوا ارب روپے میں سے بھی کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی۔ جو ملک ترقی کر رہے ہیں وہ ان ممالک کے حکمرانوں کی محنت اور نیک نیتی کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ وہ عوام کے سامنے خود کو جوابدہ بھی سمجھتے ہیں اور عوام انکا ووٹ کے ذریعے احتساب بھی کرتا ہے۔
ہمارا ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ادارے بظاہر بہت مضبوط نظر آتے ہیں۔ درحقیقت ان کو کرپشن کی دیمک نے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔ کسی ادارے کو کرپشن کا روگ لگتا ہے اور اسکا بروقت علاج نہیں کیا جاتا اس ادارے کا ترقی میں کوئی کردار ادا کرنا تو در کی بات اپنے وجود کا جواز بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہی صورتحال مجموعی طور پر ملک کے تمام اداروں کی ہے۔
سندھ کے حوالے سے یقیننا یہ حقائق حیران کن ہیں کہ مالی سال کے ختم ہونے میں باقی بہت ہی کم وقت ہے، اس کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں سے بشمکل آدھی رقم خرچ ہو سکی ہے۔ باقی اداروں کو چھوڑیں صحت جیسے اہم اور تعلیم جیسے حساس معاملے پر بھی خرچ کرنے میں کاہلی سے کام لیا گیا ہے۔
حقیقت کی آنکھ سے اگر دیکھا جائے تو محکمہ صحت سندھ خود ایک بیمار محکمہ ہے۔ جس کی مناسب علاج کی ضرورت ہے۔ سرکاری شفا گھر غریب لوگوں کے لئے شفا کا باعث کم اور کوس گھر زیادہ بنے ہوئے ہیں۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں غرب لوگوں کا مفت میں علاج نہیں ہوتا۔ نتیجة لوگوں کو علاج کے لئے نجی ہسپتالوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ان نجی ہسپتالوں کے بھاری بل غریب لوگ تو کیا متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس محکمے کی بجٹ خرچ کرنے میں کیوں سستی کی گئی؟ نہ حکومت سے یہ سوال کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی حکموت اس کے جواب دینے یا عوام کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
ہپیٹائٹس، تھلسمیا، ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض کے لئے جو رقم خرچ ہونی تھی وہ جاری ہی نہیں کی گئی ہے۔ سندھ میں تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ دوسرے محکموں میں ”وقت کے بادشاہ“ کرپشن کے ذریعے اپنا منہ میٹھا کر لیتے ہیں۔ ان بادشاہوں نے محکمہ تعلیم کو بھی نہیں بخشا۔ اس محکمے کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے تا حال رقم جاری نہیں کی گئی ہے۔
حقیقت کی آنکھ سے اگر دیکھا جائے تو محکمہ صحت سندھ خود ایک بیمار محکمہ ہے۔ جس کی مناسب علاج کی ضرورت ہے۔ سرکاری شفا گھر غریب لوگوں کے لئے شفا کا باعث کم اور کوس گھر زیادہ بنے ہوئے ہیں۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں غرب لوگوں کا مفت میں علاج نہیں ہوتا۔ نتیجة لوگوں کو علاج کے لئے نجی ہسپتالوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ان نجی ہسپتالوں کے بھاری بل غریب لوگ تو کیا متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس محکمے کی بجٹ خرچ کرنے میں کیوں سستی کی گئی؟ نہ حکومت سے یہ سوال کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی حکموت اس کے جواب دینے یا عوام کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
ہپیٹائٹس، تھلسمیا، ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض کے لئے جو رقم خرچ ہونی تھی وہ جاری ہی نہیں کی گئی ہے۔ سندھ میں تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ دوسرے محکموں میں ”وقت کے بادشاہ“ کرپشن کے ذریعے اپنا منہ میٹھا کر لیتے ہیں۔ ان بادشاہوں نے محکمہ تعلیم کو بھی نہیں بخشا۔ اس محکمے کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے تا حال رقم جاری نہیں کی گئی ہے۔
ہمارے پاس ہر سال اربوں روپے کی بجٹ آتی ہے۔ اگر بجٹ کی رقم کو سرزمین پر موجود ترقی یا صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے پاس اکثر ترقیاتی کام صرف کاغذوں میں دکھائے جاتے ہیں۔ روڈ بھی کاگذوں پر بنتے ہیں، تعلیم بھی کاگذوں پر ترقی کرتی ہے۔ محکمہ صحت بھی کاغذوں میں صحتمند ہے۔ جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس کا یقیننا احتساب ہونا چاہئے کہ مطلوبہ رقم کیوں جاری نہیں کی گئی، اور جو رقم جاری کی گئی وہ خرچ کیوں نہیں ہو سکی؟
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتاہے کہ ہمارے پاس اقتداری سیاست کے نئے اور پرانے بحران حل ہونے کا نام لیں تو شاید عوامی زندگی کے لئے عذاب بنے ہوئے مسائل پر کسی کی نظر پڑے۔ عام آدمی شدید مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے ایوانوں تک ان مسائل کی ب بھی نہیں پہچتی۔ جو کہ تھوڑی سی انتظامی صلاحیت بہتر کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے شہر ہیں۔ ہمارے شہروں میں باقی ترقیاتی کام دور کی بات گند کچرہ بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی حالت یہ ہے کہ بدبو ہی بدبو ہے۔
گزشتہ روز کارچی میں سیاسی مقابلے کے طور پر صفائی کی مہم کی بازگشت سننے میں آئی ہے۔ سندھ کے باقی شہروں کا کیا حال ہے؟ اس کا اندازہ حیدرآباد ک میں گندگی سے متعلق شایع ہونے والی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے دوسرے نمبر پر بڑے شہر میں روزانہ 700 ٹن کے لگ بھگ کچرہ جمع ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ اس کچرے کو شہر سے باہر لے جا کرکہیں ضیاع کیا جائے کہ عام شہری کی صحت پر اس کے مضر اثرات نہ پڑیں۔
روزانہ ٹنوں کے حساب سے جمع ہونے والا یہ گند کچرہ حیدرآباد کے شہریوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد سے جمع کیا گیا کچرہ کوہسار اور نسیم نگر کے پاس کھلے میدانوں میں جلانے کی وجہ سے کئی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جن کو کچرہ اٹھانے کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں ان کو ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کچرہ بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ شہر کی ہر گلی اور ہر چوک کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔
کراچی سے شروع ہو کر حیدرآباد سے ہوتے ہوئے ہم اگر سندھ کے مختلف شہروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ یہاں بھی کچھ ایسے ادارے ہیں جو صفائی ستھرائی کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کی بجٹ لیتے ہیں۔ ان کے پاس سینکڑوں اور ہزاروں میں عملہ بھی بھرتی کیا ہوا ہے جو باقاعدگی سے تنخواہیں لے رہا ہے۔ اس عملے اور افسران کو باقی سب کچھ یاد ہے۔ اگر یاد نہیں تو صرف یہ کہ ان کے بھی کچھ فرائض ہیں۔
گزشتہ روز کارچی میں سیاسی مقابلے کے طور پر صفائی کی مہم کی بازگشت سننے میں آئی ہے۔ سندھ کے باقی شہروں کا کیا حال ہے؟ اس کا اندازہ حیدرآباد ک میں گندگی سے متعلق شایع ہونے والی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے دوسرے نمبر پر بڑے شہر میں روزانہ 700 ٹن کے لگ بھگ کچرہ جمع ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ اس کچرے کو شہر سے باہر لے جا کرکہیں ضیاع کیا جائے کہ عام شہری کی صحت پر اس کے مضر اثرات نہ پڑیں۔
روزانہ ٹنوں کے حساب سے جمع ہونے والا یہ گند کچرہ حیدرآباد کے شہریوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد سے جمع کیا گیا کچرہ کوہسار اور نسیم نگر کے پاس کھلے میدانوں میں جلانے کی وجہ سے کئی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جن کو کچرہ اٹھانے کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں ان کو ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کچرہ بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ شہر کی ہر گلی اور ہر چوک کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔
کراچی سے شروع ہو کر حیدرآباد سے ہوتے ہوئے ہم اگر سندھ کے مختلف شہروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ یہاں بھی کچھ ایسے ادارے ہیں جو صفائی ستھرائی کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کی بجٹ لیتے ہیں۔ ان کے پاس سینکڑوں اور ہزاروں میں عملہ بھی بھرتی کیا ہوا ہے جو باقاعدگی سے تنخواہیں لے رہا ہے۔ اس عملے اور افسران کو باقی سب کچھ یاد ہے۔ اگر یاد نہیں تو صرف یہ کہ ان کے بھی کچھ فرائض ہیں۔
No comments:
Post a Comment