Saturday, March 5, 2016

کالا باغ ڈیم پر ضد ۔


سندھ نامہ سہیل سانگی 
کالا باغ ڈیم پر ضد ۔ حکومت شہروں کی وارث بنے
مردم شماری، مادری زبانوںا دن، نیب کے حوالے سے وفاقی حکومت کا موقف ،ڈاکٹر عاصم کے خلاف ریفرنس اور آصف علی زرداری کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کو قبل از وقت قرار دیا ہے اخبارات میں موضوع بحث رہے۔ عذیر بلوچ کے انکشافات کی ریکارڈنگ بھی میڈیا میں بحث کا موضوع رہے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ ملک میں جب بھی حالات اچھائی کی طرف جانے لگتے ہیں تو بعض حلقے ایسے تنازعات کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے نفرتیں اور فاصلے بڑھیں۔ نہیں معلوم کہ ان حلقوں کو ملک کے حالات بہپتری کی طرف جانے میں کیا اعتراض ہے۔ حال ہی میں حکمران جماعت کے نمائندے نے قومی اسمبلی میں ایک بار پھر کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلءپاکستان کسان اتحاد کے زرعی تباہی کے موضوع پر منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی حکمران جماعت کے نمائندوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا۔ اور سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں اور جماعتوں کو ڈیم کی تعمیر کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت دی۔ 
بلاشبہ پانی کے ذخائر ملک کے لئے ضروری ہیں لیکن کالا باغ ڈیم پر ضد کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ یہ متنازع منصوبہ ہے۔ جس کو تین صوبے کم از کم تین مرتبہ مسترد کر چکے ہیں۔ ایسے میں اس متنازع اشو کو ترک نہ کرنے میں کونسی دانشمندی ہے؟ کچھ ہزار میگاوات بجلی کے پیچھے کسی تہذیب، قوم یا دھرتی کو تباہ کرنا دانشمندی نہیں۔ اس دلیل میں وکئی سچائی نہیں کوٹری سے نیچے پانی ضایع ہو رہا ہے۔ کوٹری کے نیچے بھی ایک وسیع علاقہ ہے جس کی معیشت کا انحصار اس دریائی پانی پر ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندری کٹاﺅ کو روکنے کے لئے بھی پانی ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بحث کو اب ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہئے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں سندھی میڈیا یک آواز ہے اور سب نے اس کےخلاف اداریے لکھے ہیں۔ 

 روزنامہ کاوش نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پر اداریہ لکھا ہے کہ و فاقی حکومت نیب کے پر کاٹنے نہیں جارہی۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے تنازعات چل رہے ہیں خاص طور پر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور کرپشن کے نام پر وفاقی اداروں کے چھاپے قابل ذکر ہیں ۔ سندھ حکومت مسلسل شکایت کرتی رہی ہے کہ وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن اس کی یہ بات نہیں سنی گئی۔ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو پورے ملک میں کیا جائے۔ اس ضمن میں کچھ استثنا کویں چھوڑے جارہے ہیں۔ یہ سلیکٹیو احتساب اور سلیکٹیو انصاف کے زمرے میں آئے گا۔ 

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ حکومت کو چاہئے کہ کراچی سے لیکر کشمور تک ان شہروں کی مالک بنے اور وہاں شہری سہولیات پہنچانے کے لئے عوام د دوست اور شہر دوست پالیسیاں بنائے۔ پالیسیاں طے کرنے سے پہلے ان تمام امکانی رکاوٹوں کو بھی اپنے مشاہدے کا حصہ بنائے جن کی وجہ سے ان پالیسیوں پر عمل درآمد میں دیر ہو سکتی ہے۔ اس لئے سندھ حکومت کو ذات کے بجائے اپنے رویے شہروں کی طرف رکھنے ہونگے۔ کراچی میں شہری سہولیات کے لئے قائم کردہ سب سے اہم ادارے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بارے میں یہ معاملات سامنے آ رہے ہیں کہ مختلف سیاسی و نیم سیاسی تنظیموں کے رویوں کی وجہ سے اس ادارے میں خود زندہ رکھنے کی طاقت موجود نہیں۔اس لئے جو بھی پالیسیاں بنائی گئی ابہوں نے اس ادارے کو ڈبونے کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ حکومت جب کسی ادارے کی بہتری کے لئے کوئی اقدام اٹھاتی ہے تو ایک شور اور طوفان اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ 

حال ہی میں سندھ اسمبلی اور شہری اصلاحات کے ماہرین نے بعض پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ تاکہ بلدیاتی اداروں کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے۔ اس ضمن میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی سالہا سال سے قائم اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ اس حوالے سے شہر میں چھ ضلعی میٹرو کونسلز، اور اسیک ضلعی کونسل کے اختیارات بحال کر دیئے گئے ہیں۔ ان ہر ضلع کو فنڈز الگ سے ملا کریں گے۔ ایسا کرنے سے
 رقومات کے استعمال، اور امکانی کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کے ایم سی کے سچے اور گھوسٹ ملازمین کی کل ماہانہ تنخواہ ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کے بعد یہ تنخواہیں بھی ہر ضلع کو الگ الگ بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملازمیں جو سرزمین پر بھی نہیں تھے، کسی بھی ضلع میں ان کی انٹری نہیں تھی۔ ان کی تنخواہوں کا معاملہ سامنے آیا۔ جب یہ لوگ کے ایم سی کی شیٹ پر نہیں تھے تو سالہا سال تک کیسے تنخواہیں وصول کرتے رہے اور کون وصول کرتا رہا۔ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
Feb 26,2016

No comments:

Post a Comment