March 18, 2016
کرپشن کے گہرے بادل
سندھ ایک بار پھر سیاسی سرگرمی کا مرکز
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
سندھ ایک بار پھر سیاسی سرگرمی کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں ایک طرف کراچی میں دہشتگردی کےخلاف آپریشن جاری ہے، دوسری جانب نیب نے کرپشن کے خلاف کاروائیاں تیز کردی ہیں۔ ایم کیو ایم میں مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ایک دھڑے نے الطاف حسین سے بغاوت کردی ہے۔ پیپلزپارٹی سے ناراض بعض رہنماﺅں کو منایا جارہا ہے کہ کہیں وہ باضابطہ فاروڈ بلاک نہ بنا لیں۔ سندھ پولیس کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نیا سربراہ اے ڈی خواکہ مل گئے ہیں۔ جس کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھ کر بہت امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے باوجود ان اداروں کے سربراہاں کا انتخاب نہیں ہو سکا ہے۔ جس کی وجہ سے شہری ہسولیات کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔
روزنامہ کاوش اپنے اداریے” کرپشن کے گہرے بادل“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ اگرچہ کرپشن کہیں کم کہیں زیادہ لیکن ملک بھر میں ہے۔کرپشن کے بوجھ نے ملکی معیشت کو بالکل نحیف کردیا ہے۔کئی ادارے اس داغ سے خود کو بچا نہیں سکے ہیں۔بعض اداروں کو کرپشن کے کنیسر نے کھوکھلا کر دیا ہے۔لہٰذا اکثر ادارے اپنے وجود کا جواز بھی کھو بیٹھے ہیں۔ملک بھر میں کرپشن ہونے کے باوجود سندھ میں اس حوالے کاروائیاں کچھ زیادہ نظر آتی ہیں۔
کچھ عرصے تک ڈاکٹر عاصم سے لیکر شرجیل میمن تک خبروں میں رہے۔ اب فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین نثار موارئی خبروں میں ہیں۔ گزشتہ روز انسداد دہشتگردی عدالت نے نثار موارئی کو 90 روز کے لئے رینجرز کی تحویل میں دے دیا۔ انہیں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔
رینجرز کے وکیل کا کہنا ہے کہ نثار مورائی ناجائز طور پر کمائی کے پیسے سمندری لانچوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے میں ملوث ہیں۔ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ دہشتگردی کی کاروایوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی مالی اعانت کرنے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت کو پندرہ روز کے اندر جے ٹی آئی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب نیب نے اربوں روپے کی مالیت کی 12 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر کے چائنا کٹنگ کے ذریعے فروخت کرنے کے الزام میں صدر ممنون حسین کے بیٹے سمیت دیگر افراد کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہے۔ نیب کی کاروائیاں یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس ادارے کی تحقیقات کا ارخ منرل ایند مائینز ڈپارٹمنٹ اور محکمہ توانائی کے زیر انتظام چلنے والے کوئلے کے منصوبوں میں مبینہ کرپشن کی طرف بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آتھ ہزار ایکڑ زمین پر موجود کوئلے پر بجلی گھر قائم کرنے کا منصوبہ بغیر ٹینڈر طلب کرنے کے غیرقانونی طور پر الفتح گروپ کو دیا گیا۔ لیکن سرمایہ کاروں نے وہاں پاور پلانٹ لگانے کے بجائے کوئلہ نکال کر مارکیٹ میں بیچنا شورع کردیا۔ نیب نے اہم معاملے کی تحقیقات کے دوران وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کا بیان قلمبند کر لیا ہے۔
کرپشن ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کمزور ہوتی ہے بلکہ اس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ادارے کمزور اور کنگال ہو جاتے ہیں۔ ان کا حشر پی آئی اے جیسا ہو جاتا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہونے سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی اہم ادارے عوام کے لئے لاھاصل ہو جاتے ہیں۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرپشن کئی بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ اگر صرف کرپشن پر ہی کنٹرول کیا جائے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
سندھ میں ایک بار پھر نیب کی کاروئیاں تیز ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ اس پر اب سندھ حکومت کے اعتراضات بھی سامنے آئیں گے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبائی ادارے جو کرپشن کی روک تھام کے لئے کام کرتے ہیں اور چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں وہ بہت پہلے سرگرم ہو جاتے۔ ایسی صورت میں نیب کے وفاقی ادارے کو مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگرچہ وقت گزر چکا ہے تاہم اب بھی یہ ادارے اپنا رول چاہیں تو ادا کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ نچلی سطح پر ہونے والی چھوٹی موٹی کرپشن کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری اوپر کی سطح کی کرپشن کو روکنا ہے جو اربوں اور کروڑوں میں ہوتی ہے۔ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی ہتھیا کر بیرون ملک منتقل کردی جاتی ہے۔ اس کا سختی سے احتساب ہونا چاہئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کرپشن کے خلاف کاروائی کرتے وقت ان اداروں کو اپنے آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔ایسا نہ کیا گیا تو آخری نتیجے میں اس کا فائدہ ملزمان کو ہی پہنچے گا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ گزشتہ روز گڑھی یاسین تھانے کی حدود میں کوریجا گوٹھ کے قریب پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر نامعلوم افراد نے حملہ کر دیا ۔ ملزمان کی فائنگ کے نتیجے میں پولیہو ورکر افشاں مہر شدید زخمی ہوگئیں لیڈی ہیلتھ ورکر افشان کے بھائی کو کہ ان کے ساتھ تھے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ابتدائی طبی امدا کے بعد افشاں مہر کو نازک حالت کی وجہ سے چانڈکا ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
گڑھی یاسین کے ہی علاقے میں گوٹھ نوشہرو ابڑا میں پولیو ٹیم پر کتے چھوڑے گئے۔ اور ٹیم سے پولیو کا تمام سامان، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاءچھین لی گئیں۔ ٹیم کے اراکین کو دھمکیاں دی گئیں کہ آئندہ اگر وہ لوگ گاﺅں میں آئیں گے تو ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جائے گا۔
یہ ہمارے سماج کی ایک شکل ہے جس کو ان واقعات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیو ورکرز کا کام معصوم بچوں کو قطرے پلانا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی جسمانی معذوری سے بچ سکیں۔ اور خود کو صحتمند معاشرے کا حصہ بنا سکیں۔ لیکن اس طرح کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل ہو رہے ہیں۔
کیا یہ سندھی سماج کی بے حسی نہیں کہ خواتین پر کتے چھوڑ دیئے جائیں ؟ وہ بھی ان خواتین پر جو مسیحا بن کر آتی ہیں اور بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلاتی ہیں۔
سندھ میں اسطرح کے رویوں کے جنم لینے کا مطلب یہ ہے کہ سندھی سماج اب انتہاپسندی اور طالبانزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات وقفے کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ لیڈیٰ ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ لیکن حخومت کی جانب سے انہیںکوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ یہ ان خواتین کی ہمت ہے کہ اس کے باوجود وہ پولیو کے قطرے پلانے پنچ جاتی ہیں۔ پولیو سے تحفط کے قطروں کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کر کے ایسی سوچ پیدا کردی گئی کہ لوگ ان قطروں کو خراب سمجھیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ کیونکہ یہ پولیو ورکرز کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اگر یہ خواتین کل اس خطرے کے پیش نظر قطرے پلانے سے انکار کردیں تو ہزاروں بچے اس دائی سے محروم ہو جائیں گے اور ان کی جسمانی معذوری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سازئیں دے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو جسمانی معذوری سے بچانے والی ان خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنا فریضہ بغیر کسی
Nai Baat March 19, 2016خوف کے سر انجام دے سکیں۔ مطلب حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ پولیو کی مہم جاری رہ سکے۔
No comments:
Post a Comment