Saturday, March 5, 2016

تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے


سندھ نامہ ۔۔۔ تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے ۔۔ غوا انڈسٹری دوبارہ سرگرم 
 سہیل سانگی
مردم شماری، پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال اور اس کی ، ریلوے کریوں میں اضافے کی تجویز کے معاملات سندھ کے اخبارات کا موضوع رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تھر کے قحط پر حکومت کا ردعمل اور اغوا کی نئی لہر کو بھی اخبارات نے اپنا موضوع بحث بنایا۔ 

 ”عدالتی کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے “کے عنوان سے” روزنامہ کاوش“ لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے تھر میں بچوں کی اموات سمیت تمام صورتحال کاجائزہ لینے کے لئے دو ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دی ہے۔ یہ کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے گی کہ تھر میں بچوں کی اموات کے اسباب کیا ہیں۔ اس تمام صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں اور مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ یا حکومتی پالیسی پر عمل درآمد کرنے میں کوئی کمی بیشی ہے یا نہیں؟ کمیشن پندرہ روز کے اندر اپنی رپورٹ چیف سیکریٹری سندھ کو پیش کرے گی۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ تھر کی صورتحال پر سندھ حکومت کو تششویش ہے اور وہاں پر غربت کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور تھر کے ہسپتالوں میں ادویات کا بجٹ دگنا کردیا گیا ہے۔ 

 اس ریگستان کو اگر دکھوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ تھر کے تپتے ریگزاروں پر جن کے پاﺅں میں چھالے پڑ جاتے ہیں جن کو پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر نہیں۔ جہاں دوردراز دیہاتوں میں لوگوں کو مختلف امراض بے بس کرتے ہوں، لیکن ان کے علاج کے لئے علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں، اگر کچھ سہولیات ہوں تو اتنا دور اور مشکل کہ یہ عمل ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے برابر ہوں۔ ایسے میں مفلسی کے مارے یہ لوگ کسی ماہر ڈاکٹر سے کس طرح رجوع کر سکتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ یہاں کے لوگ جدت کی دنیا سے ناآشنا ہیں۔ آج بھی تھر میں اکثر بچوں کی پیدائش ہسپاتولوں میں نہیں ہوتی۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جس علاقے کے لوگوں کے ووٹ حکومتی نمائندوں کے لئے قیمتی ہیں لیکن ان لوگوں کے دروازے تک علاج کی بہتر سہولیات دینا اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی دینا حکومت وقت کے فرائض میں شامل کیوں نہیں؟ 

 چند برسوں سے تھر مسلسل قحط کی لپیٹ میں ہے۔ سینکڑوں بچے اپنی مﺅں کی جھولی خالی کر کے قبرستاوں میں مسکن بنا چکے ہیں ۔ کئی گھر اجڑ چکے ہیں۔ ان گھروں کے اجڑنے کا سبب حکومت کی سستی ہے کہ تھر میں معصوم گلاب مسلسل مرجھا رہے ہیں۔ لیکن مسند نشینوں کو تھر میں مہیا کی گئی” سہولیات“ گنوانے سے فرصت نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتی کمیشن جب رپورٹ دیتی ہے تو حکومت کس حد تک اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس داکوﺅں کی فریق بنی ہوئی پولیس اور حکومت کی بے بسی کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ غریب لوگوں کے لئے ڈاکولا کا کردار بنی ہوئی پولیس اور ڈاکوﺅں کے معاملے میں ان کا ساتھ دینے یا پھر ان کو دیکھ کر راستہ تبدیل کرنے کا کردار عام لوگوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ جرائم کا وجود، در اصل مجرموں، بھوتاروں اور پولیس کی ٹرائیکا کی بناءپر ہے۔ بااثر وڈیرے اپنا رعب اور دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے اپنے علاقے میں اپنی مرضی کے پولیس اہلکار تعینات کرتا ہے۔ جرم اور مجرم کی سرپرستی کرنے والے اس اشرافیہ اور پولیس کی معیشت بنی ہوئی ہے۔ اغوا انڈسٹری اس ٹرائکا کی آکسیجن کے ذریعے ہی سانس لنتی ہے۔ سازگار حالات میں یہ انڈسٹری ابھرتی ہے اور ترقی کرتی ہے جبکہ ناسازگار حالات میں وہ عارضی طور پر ہائبرنیشن میں چلی جاتی ہے۔ 

 کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد اغوا انڈسٹری دوبارہ سرگرم ہو گئی ہے۔ پولیس شہدادکوٹ سے اغوا ہونے والے دو افراد ایک ماہ گزرنے کے بعد بھ بازیاب نہیں کرسکی تھی کہ میروخان سے دوافراد کو اغوا کیا گیا۔ جس کے بعد شہدادکوٹ ضلع میں مغویوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ ایس یس پی شہدادکوٹ نے نصیرآباد اور قمبر کے تھانیداروں کو داخوﺅں سے گٹھ جوڑ کے الزام میں ریورٹ کردیا ہے۔ اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ جب بھی پولیس ڈاکوﺅں کے خالف کارروائی کا فیصلہ کرتی تھی تو یہ دونوں تھانیدار انہیں پہلے سے مطلع کر دیتے تھے۔ 

 وہ بھی زمانہ تھا جب جرائم کی خبریں سندھ کے اخبارات میں کسی کونے تک محدود ہوتی تھیں۔ پھر بڑھتے جرائم کے ساتھ یہ خبریں زیادہ جگہ لیتی گئیں اور اب پورا اخبار ان خبروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ان خبروں پر ایک نظر ڈالنے سے سندھ میں گورننس اور پولیس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ تمام پولیس افسران خان ہیں۔ یقیننا ایسے فرض شناس افسران کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے پولیس کا مزاج تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ فورس کی مزاج تبدیل کرنے کی اس کوشش کے دوران ان کا بااثر افراد کے ہاتھوں تبادلہ ہوگیا۔ باقی افسران ان بااثر افراد کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں ۔

 معصوم بچی فضیلہ سرکی کے اغوا کو اب کئی برس بیت گئے لیکن پولیس اسے بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔ حالنکہ وزیراعلیٰ سندھ اس ضمن میں احکامات اور ہدایات بھی جاری کرچکے تھے۔ لیکن پولیس کے انتظامی سربراہان اس حکم کو کسی حساب میں لانے کو تیار نہیں۔ عوام کا تحفظ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں قانون کا ہاتھ فالج زدہ بنا ہوا ہے۔ کیا وزیر داخلہ کو معلوم ہے کہ شہدادکوٹ سے اغوا ہونے والوں کو پورا ایک ماہ ہوگیا؟ اگر نہیں معلوم تو بے خبری ایک بڑیٰ خبر ہے۔


 شہدادکوٹ سے اغوا کی واردات کے بعد مجرموں نے انتظامیہ کے ردعمل کو پرکھ لیااو میروخان سے اغوا کی دوسری واردات کی۔ آخر ڈاکو سندھ حکومت کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ انہوں نے تو اپنا پیغام دے دیا، دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس کا کیا جواب دیتی ہے ۔ 

 فروری 12 , 2016

No comments:

Post a Comment