Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا معاملہ۔
سانگھڑ میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے قتل ۔۔
گنے کی قیمتیں
سندھ میں رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا معاملہ پورا ہفتہ میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا۔رینجرز اگرچہ صوابئی حکومت کے کہنے پر دارلحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے تعینات ہے جسے پولیس کی مدد کے لئے ملک کے اس معاشی حب میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ لیکن کراچی میں موجودہ نواز شریف حکومت کے دور میں آپریشن کرنے کے لئے اس کوکو رواں سال جولائی میں پولیسنگ کے اختیارات چار ماہ کے لئے دیئے گئے تھے۔ جس کی مدت چھ جولائی کو ختم ہو گئی تھی۔
کراچی آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصؒ ہوئیں جس کا اعتراف صوبائی خواہ وفاقی دونوں حکومتیں کر رہی ہیں ۔ رینجرز اور وفاقی حکومت کا خیال تھا جو کہ بعد میں دباﺅ کی صورت میں بھی ظاہر ہوا کہ رینجرز کے ان خصوصی اختیارات میں مزید توسیع کردی جائے۔ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں بعض تحفظات تھے کہ رینجرز اپنے میڈیٹ اور حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ جس سے سویلین اتھارٹی میں مداخلت ہو رہی ہے۔
یہ معاملہ اس وجہ سے بھی پیش آیا کہ رینجرز نے کرپشن کے بعض کیسز میں ہاتھ ڈالنا شروع کر دیئے تھے۔ اس میں بعض حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ملوث ہو رہے تھے۔ اخبارات میں ہفتے بھر تک اس معاملے کے مختلف پہلوﺅں پر بحث اور اراءشایع ہوتی رہی۔ زیادہ تر اخبارات کا خیال یہ تھا کہ رینجرز کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں انہی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔
اور دہشتگردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کے معاملات کو دیکھنا چاہئے۔ کرپشن کی شکایات ہیں لیکن اس کے لئے صوبے خواہ وفاق میں ایسے ادار موجود ہیں ان کو ی کام کرنا چاہئے۔ دہشتگردی وغیرہ اور وہائیٹ کالر کرائیم کو الگ الگ سے ڈیل کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کیا گیا تو خود آپریشن متاثر ہوگا۔
صوبائی حکومت پر جب یہ دباﺅ بڑھا تو وہ اس معاملے کو صوبائی اسمبلی میں لے گئی، جہاں رینجرز کو مشروط اختیارات دینے کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قراداد اور صوبائی حکومت کے فیصلے سے وفاقی وزیر داخلا خوش نہیں ہیں۔ مشروط قراراد جس میں قانون نافذ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیارات گھٹا دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ کہ بعض معاملات میں رینجرز کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا ہے اور اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ اخبارات کا کہنا ہے کہ بنیادی اتھارٹی صوبائی حکومت کی ہے اور اسی نے رینجرز کو بلایا ہے اور مشروط طور پر اختیارات دیئے ہیں، جس کی صوبائی اسمبلی نے توثیق بھی کی ہے۔ لہٰذا اس کی قراداد اور فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے۔
گزشتہ دنوں بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران سانگھڑ میں ہونے والے تصادم اور اس کے نتیجے میں چار افراد کا قتل ہوا۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس سانگھڑ سانحہ اور انتظامیہ کی نااہلی کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سانگھڑ کی انتخابی مہم کے دوران چار انسانی جانیں ضیائع ہو گئیں ۔ ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضعل خیرپور کے درازا پولگ اسٹیشن پر 12 افراد قتل ہوگئے تھے۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بھی اس طرح کی خون ریزی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا سانگھڑ میں انتخابات ملتوی کرکے 17 دسمبر کو کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن پولنگ سے دو روز قبل کے واقعہ میں چار افراد کی قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ خبروں کے مطابق دو مخالف جماعتوں کی رییاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیں بات نعرے بازی سے شروع ہوئی اور پتھاﺅ اور ہوائی فائرنگ کے بعد ایک دوسرے پر براہ راست فائرنگ تک چلی گئی۔
سانگھڑ ضلع میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ناتظامیہ کی نااہلی ثابت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہامری سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کی بھی چغلی لگاتا ہے ۔ ہمارے جیسے ملک جہاں ابھی جمہوریت کے پاﺅں پختے نہیں ہوئے ہیں وہاں اس طرح کے واقعات ذاتی دشمنیوں کا باعث بن جاتے ہیں جو بعد میں نسل در نسل چلتی ہیں ۔
یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اختلااف رائے اور مخلتف نقطہ نظر کو ذاتی دشمنی سمجھتے ہیں۔ ہم دلیل کے بجائے بندوق کی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ اپنے مخالف کو دلائل کے ذرعیے قائل کرنے کے بجائے بندوق کے ذریعے ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیتے ہیں۔ ہم جو ابھی تک قبیلوں ، بردریوں اور ذات پات میں بٹے ہوئے ہپیں وہ اپنی جھولی میں جمہوریت کے لئے جگہ نہیں بنا پائے ہیں۔ اس ضمن میں انتظامیہ سے سخت پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے اور ان اقدامات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ جو سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے وہ ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہ ہو جائے۔
روازنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سنیٹ کی فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں بتایا گیا کہ سندھ کے کاشتکار گنے کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو صحیح قیمتیں نہ دینا حکومت سندھ کی بے ایمانی ہے اور اس ضمن میں مشترکہ مفادات کی کونسل مطلوبہ کردار ادا نہ کر سکی ہے۔
گنا ہو یا کپاس یا دھان کی فصل جب پک جاتے ہیں تو قیمتیں گرا دی جاتی ہیں نتیجے میں کاشکاروں کو اپنے فصل کی صحیح قیمتیں نہیں مل پاتیں۔ حال ہی میں دیر سے ہی صحیح ھکومت نے گنے کی قیمت مقرر کی لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے ۔ اس ضمن میں چند روز قبل کاشکاروں نے سندھ کے دارلحکومت میں ویزر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے مظاہر کیا تھا جن پر لاٹھیاں برسائی گئیںس۔
سندھ میں زراعت کے کمزور ہونے اور دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فصلوں کی قیمتیں صحیح نہیں ملتی اور وقت پر فصل نہیں اٹحائے جاتے۔ بظاہر یہ صوبائی معاملہ ہے لیکن غربت اور فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے ملکی معمالہ بھی ہے جس کے لئے صوبوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کو موثر اور قابل عمل قبول پالیسی بنانے کی ضرورت ہے
December 18, 2015
Nai Baat
Nai Baat
No comments:
Post a Comment