سندھ نامہ مارچ 4
یونیورسٹیوں کی رینکنگ ۔۔ کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام
رواں ہفتے سندھ کے اخبارات میںآصف علی زرداری کا فوج سے متعلق ”یو ٹرن“ والا بیان، ، مردم شماری، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس
محکمہ انسداد رشوت ستانی کی صوبے میں مختلف کاروایاں، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کا اعلان، کرپشن مقدمات میں سندھ کے بعض وزراءکی طلبی کے معاملات زیر بحث رہے۔
روز نامہ عوامی آواز سندھ کی یونیورسٹیوں کی صورتحال پر لکھتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کی جاری کردہ ریٹنگ لسٹ کے مطابق ماسوائے زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے سندھ کی کوئی بھی یونیورسٹی اس قابل نہیں رہی ہے کہ وہ اس مقابلے کی دوڑ میں اپنی جگہ حاصل کر سکے۔ ایک وقت تھا کہ سندھ یونیورسٹی جنرل یونیورسٹی کے طور پر اور لیاقت میڈیکل کالج طب کی تعلیم میں مثالی اداروں کے طور پر تسلیم کئے جاتے تھے۔ ان اداروں کو ایسا گرہن لگ گیا ہے کہ اب یہ ادارے اہم شمار ہونا دور کی بات غیر اہم فہرست میں بھی کھڑے نظر نہیں آتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سال 2015 کے دوران دس یونیورسٹیوں کی نمبر وار فہرست جاری کی ہے ۔ جس میں قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، آغا خان یونیورسٹی، کامسیٹس یونیورسٹی، پاکتان انسٹیٹیوٹ آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، کراچی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور، اور وٹنریری یونیورسٹی لاہور سر فہرست ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین کے مطابق کارکردگی کی کسوٹی معیار تعلیم، تحقیق، معاشی سہولیات، اور سماجی کردار کے پہلوﺅں کو نظر میں رکھ کر مختلف کیٹیگریز بنائی گئی تھیں۔
زرعی شعبہ میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پہلے نمبر پر ، وٹرنری یونیورسٹی لاہور دوسرے نمبر پر اور سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام تیسرے نمبر پر آئی ہیں۔ بزنیس کٹیگری میں آئی بی اے سکھر کوئی پوزیشن نہیں لے سکا۔
میڈیکل کے شعبے میں آغا خان یونیورسٹی پہلے نمبر پر، لاہور میڈیکل یونیورسٹی دوسرے نمبر پر اور ڈاﺅ میڈیکل یونیورسٹی تیسرے نمبر پر آئی۔ انجنیئرنگ کے شعبے کی 21 یونیورسٹیز میں اسلام آباس انجنیئرنگ یونیورسٹی سب سے آگے رہی۔ جنرل کٹیگری کی 73 یونیورسٹیز میں قائداعظم یونیورسٹی پہلے نمبر پر، پنجاب یونیورسٹی دوسرے نمبر پر اور نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد تیسرے نمبر پر آئیں۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کی اہلیت پرکھنے کی کسوٹی تعلیم کے حصول، اس کے لئے موجود ماحول، اور انتظامی صالاحیت ہوتی ہیں۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیز کی ریٹنگ پوزیشن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کو مذکورہ بالا نکات کو سامنے رکھ کر از سرنو ٹارگیٹ متعین کرنے پڑیں گے۔
سندھ کی یونورسٹیوں میں سب سے بڑا مسئلہ وائیس چانسلرز کے تقرر کے قانون، اس قانون پر عمل درآمد، غیر ضروری عناصر کی یونورسٹیز کے معاملات میں مداخلت سے چھٹکارا پانا ہے۔ جب تک سندھ میں قانون اور اخلاقیات کو ایک ساتھ رکھ کر تعلیم کو اولیت نہیں بنایا جائے گا، اپنی ذات اور ذاتی خوشنودی سے آگے بڑھ کر سوچا نہیں جائے گا، تب تک اگر سورج مغرب سے بھی نکلے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے جو اہلیتیں تسلیم شدہ ہیں ، جو قانون موجود ہے، اس کی بنیاد پر سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائیس چانسلرز کو فارغ کردیا جائے، جو علم اور اہلیت کی بناید پر نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے اس عہدے پر براجماں ہیں۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ ایسے نااہل اور ریٹائرڈ وائیس چانسلرز سے یونیورسٹیز کوچھٹکارا دلایا جائے جواس عہدے پر دو یا تین میعاد مکمل کرنے کے باوجود اس اہم شعبے میں کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔
اکثر پڑھانے والے خود اپنے مضمون کے بارے میں لاعلم ہیں یا پھر اپنی ذات کے آگے نہیں سوچتے۔ بی اے پاس انتظامیہ کو پروفیسرز اور تربیت کاروں کا انتظام چلانے کا کام دیا گیا ہے۔ تدریس کے کام میں وہ مخلوق بھی شامل ہے جو طلباءمیں سائنس، جدید علوم کی تحقیق میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ۔ اب سندھ حکومت کو اس ضمن میں آغاز کر ہی دینا چاہئے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں گرین لائین بس سروس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی میں بائیس مقامات پر اسٹیشنز قائم کی اجئیں گی۔ اس منصوبے کے تحت تین لاکھ مسافر سفر کر سکیں گے۔ سندھ کے عوام سفر کرنے کی سرکاری اور معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔ بیس سال پہلے صوبائی حکومت نے سندھ کے لوگوں کو معمولی قسم کی سفری سہولت مہیا کرنے والے ادارے سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو مختلف وجوہات کی بناءپرختم کردیا تھا۔ یہ سرکاری بسیں فروخت کردی گئیں۔ زیادہ تر ان لوگوں نے خرید کیں جو یہاں کے مالزمین کی یونین کے عہدیداران تھے۔ بعد میں یہ بسیں سندھ ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام پر چلنے لگیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری ٹرانسپورٹ کے اس ادارے کو کس طرح سے تباہ کیا گیا۔
1976 میں وزارت ریلوے نے کراچی ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تجویز دی تھی۔ لیکن یہ منصوبہ بھی اعلان کی حد تک رہا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کراچی میں جب بھی ہنگامے ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نقصان ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے۔ اس میٹروپولیٹن شہر کے ٹرانسپورٹ نظام کو جدید بنانے کے بجائے یہاں کوچز متعارف کرائی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی سرپرستی بھی کی گئی۔ ناقص حکمت عملی اور مخصوص مفادات کے میلاپ نے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور کراچی سرکلر ریلوے کو بند کردیا گیا۔ دس سال پہلے شہری نظام کے تحت جاپان کی کمپنی نے نجی اور سرکاری شعبے کے اشتراک سے شہر میں چار ہزار نئی سی این جی بسیں متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا۔ مگر اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ شہر میں ڈھائی سو سے زائد روٹس بند ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلو جانے والے بچوں، خواتین اور بڑی عمر کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اب عموما رات گیارہ بجے کے بعد کسی عوامی ٹرانسپورٹ کا ملنا محال ہے۔
نوز شریف حکومت نے لاہور میں میٹرو بس سروس شروع کی۔ اس منصوبے کو اب صوبے کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلایا جارہا ہے۔
کراچی میں گرین لائین ٹرانسپورٹ منصوبہ خوش آئند بات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر جلد اور موثر طور پر عمل ہو، اور یہ منصوبہ بے ضابطگیوں سے پاک ہو۔
March 4, 2015
No comments:
Post a Comment