Sindhi Press Sindh Nama - Sohail Sangi
سرکاری افسران کی گرفتاریاں,
پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم
سرکاری افسران کی گرفتاریاں,
پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم
سندھ نامہ سہیل سانگی
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فوج پر تنقید کے بعد صورتحال سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے دیگر بعض شہروں میں سرکاری افسران کی گرفتاریاں جاری ہیں ابھی تک ڈیڑھ درجن افسران کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ نصف درجن اعلیٰ سرکاری افسران نے حفظ ماتقدم ضمانتیں کرالی ہیں ۔ صوبے میں ایک طرح کے کریک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں صوبائی سیکریٹریٹ کے افسران میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔
اخبارات نے پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال اور کرپشن کے الزام میں افسران کی گرفتاریوں کو موضوع بنایا ہے۔
اخبارات کے مطابق کرپشن کی شکایات عام ہیں لیکن اس کو روکنے یا ختم کرنے کے لئے سویلین م اور صوبائی مکینزم موجود ہے ۔ اسی مکینزم کو فعال بناکر اقدامات کئے جائیں جو کہ قانون اور آئین دونوں کے تقاضوں کے مطابق ہونگی۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رینجرز کا مینڈیٹ ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنے حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا؟ بعض تجزیہ نگاروں نے نیب اور رینجرز کے ان چھاپوں کو وفاق کی جانب سے صوبائی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور صوبے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے وفاقی یا سندھ بجٹ پر اخبارات میں جامع بحث نہیں ہو سکی۔
روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کی شکایات اور نیب اور رینجرز کے چھاپے کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت ادارے رینجرز نے سندھ کے مختلف محکموں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور رینجرز نے زمین کی الاٹمنٹ کا رکارڈ تحویل میں لیا۔ایک اور وفاقی ادارے نیب نے سندھ لائنز ایریاز ری ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ اہم افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں چائنا کٹنگ کے ذریعے 1200 سے زیادہ پلاٹ مختلف مافیا کو فروخت کر کے چار ارب روپے سے زائد رقم ہڑپ کی۔ ای سی ایل میں پچاس سے زائد افسران کے نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ صوبائی محکموں کے افسران کے خلاف رینجرز کی ان کارروایوں کے بارے میں صوبائی حکومت کو آگاہی نہ دینے پر صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ نیب کی کارروایوں اور رینجرز کے چھاپوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت پت عدم اعتماد کا اظاہر کر رہا ہے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ میں کرپشن کا راگ گایا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف سندھ حکومت کو بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خطرہ ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اپنی بھی ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی اور عام آدمی کو پینے کے پانی، صحت، تعلیم وغیرہ کی بنیادی سہولیات مہیا کرتی وفاق کو سندھ حکومت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کو شفاف بنائے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کے تحت کرپشن میں ملوث افسران قابل گرفت ہوں ۔ اگر وفاق کسی آڑ میں سندھ حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس کے لئے وفاق سے باضابطہ بات کرنی چاہئے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کام زیادہ اور پیسہ کم ہے۔ سندھ کا خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ اس خسارے کے لئے صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی پول سے سندھ کو 381 ارب روپے ملنے تھے۔ بعد میں یہ تخمینہ کم کرکے 353 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن عملا گزشتہ 9 ماہ کے دوران 287 روپے سندھ کو جاری کئے گئے اور مجموعی طور پر وفاق نے 52 ارب روپے کم جاری کئے ۔ وفاق سے کم رقم ملنے کی وجہ سے اہم ترین شعبوں تعلیم، صحت، بلدیاتی اداروں، جنگلات لایو اسٹاک کی ترقیاتی رقامت میں کٹوتی کی گئی ہے۔
سندھ تیل ، گیس، اور دیگر قدرتی وسائل کے ذریعے وفاق کو بڑی آمدنی دیتا ہے، لیکن صوبے کا کم حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جو حصہ رکھا جاتا ہے اس کی ادائیگی بی پوری نہیں کی جاتی اکثر ادفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ رقومات وقت پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے سندھ میں ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کی طرف یہ رویہ اپنی جگہ پر۔ لیکن سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے وفاق کے ساتھ مالی معاملات اٹھائے نہیں جاتے۔ کے حکمران اس وقت نیند کے خمار سے جاگتے ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل صرف وفاق کے حوالے سے شکایات کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو رقومات حاصل وہئی ہیں ان کے موثر اسعتمال کو یقینی بنایا جایت اور اس کے ساتھ ساتھ مالی امور کے حوالے سے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پورا سال اس پر کام کرتی رہی۔ اور جامع کیس بنا کر وفاق کے سامنے پیش کیا جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاق کی جانب سے سندھ کو کم رقومات کے اجراء پر اداریہ لکھا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کو مالی وسائل میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔
Sindh nama June 19, 2015