بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی. بلدیاتی اتحاد کے خلاف احتجاج جاری,
سندھ نامہ سہیل سانگی
25-09-12
سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ دن بدن جارحانہ ہوتا جا رہاہے۔بلدیاتی نظام کے خلاف سندھ کی اپنی آواز تسلیم کرنے کے بجائے وہ قوم پرستوں پر کو مورد الزام ٹہرا رہی ہے کہ وہ پنجاب کی ایما ء پر خاص طور پر نواز شریف کے کہنے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہے۔رواں ہفتے کے دوران بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل لیگ اس پورے احتجاج کو کیش کرنا چاہ رہی ہے۔پیر پگارا نے سندھ کے قلم کار وں کے ایک نمائندہ وفد نے ملاقات کی اور انہیں سندھ کی وحدت کے لیے اپنی حمایے کا یقین دلایا۔سندھ بچایو کمیٹی نے عید کے بعد تحریک کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا ہے۔یہ سب واقعات سندھ کے اخبارات کا خبروں، اداریوں اور کالموں میں موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس تمام سیاسی کرماگرمی کے باوجود اخبارات مقامی مسائل کو بھی فوکس کررہے ہیں۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے موجودہ حکومت کیجانب سے نوجوانوں کو مختلف ہنر، مہارتوں میں تربیت دے کے ان کو روزگار کے قابل بنانے اور بیروز گاری کے خاتمے کے لیے شروع کیا جانے والا بینظیر بھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بہتر نتائج نہیں دے سکاہے۔ حکومت وعدے کے مطابق تر بیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکی ہے۔اس پروگرام کے تحت صحت کے شعبے میں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دینی تھی۔ مگر صحت کے 19مختلف شعبوں میں تربیت التواء کا شکار ہے ۔سندھ کے 31 تربیتی مراکزپر کام کرنے والے 366ڈاکٹرز،اور پیرامیڈیکل عملے کو آٹھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ۔چار ہزار سے زائدزیر تربیت نوجوان تیں ماہ سے وظیفے سے محروم ہیں ۔ اس پروگرام کا یہ پانچواں مرحلہ ہے جوالتواء کا شکار ہوا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے بجٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد بیروزگاری کے خاتمے کے لیے جو اہم قدم اٹھائے تھے ان میں سے ایک قدم بینظیربھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بھی ہے۔ مگر یہ پروگرام بہتر منصوبہ بندی اور حکومت کی غیرسنجیدگی کے باعث بہتر نتائج نہ دے سکا ۔حکومت نے یہ پروگرام شروع تو کیا مگر اس کو کامیابی سے چلا نہ سکی ۔اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل والوں کو حکومت نے ملازمتیں دینے کا اعلاں کیا تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کے تر بیت مکمل کرنے والوں کو ملازمت کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا جائے گا۔حکومت اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکی ۔ اس تربیت کا کیافائدہ ؟ا حکومت نے اتنا خرچ بھی کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔تربیت یافتہ نوجوانوں کا ایک لشکر تیار ہے جوملازمتوں کے انتظار میں ہے۔
اس پروگرام میں بے قاعدگیوں کے کی خبریں میڈیا تک پہنچی ہیں۔ لاتعداد ایسے نوجوان ہیں جو سفارش کی بنیاد پے اس پروگرام میں کاغذوں میں تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کو وظیفہ بہی ملتا رہا ہے دوسری طرف لاتعداد نوجوان وظیفے سے محروم ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ تربیت کے معیار پربھی کئی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کہ یہ پروگرام اگر ہترین منصوبہ بندی کے ساتھ چلایا جاتا تو اس کے بہتر نتائج ملتے۔حکومت نے بیروزگار نوجوانوں کا لشکر تو پیدا کر دیا ہے مگر جس مقصد کے لیے یہ تربیت دی گئی یعنی روزگار کے لیے وہ وعدہ پورانہیں کیا جاسکا ۔حکومت سندھ سے گذارش ہے کہ اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل کرنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے پروگرام کو چلانے اور اس کے مقرر ہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے فنڈ جاری کیے جائیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے ادبی اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پہ ایک بار پھر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کومسترد کردیا ہے۔مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کے سینئر ادیبوں اورصحافیوں نے خبردار کرکیا ہے کہ جب تک حکومت آرڈیننس واپس نہیں لیتی تب تک حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی۔
ادبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سندھ کے سیاسی ، قومپرست اور ادبی حلقوں سے بات کرنے کو تیار ہے تو کم سے کم سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012پرعمل درآمد روک دے۔انکا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے تو دوسری طرف کراچی میں ٹاؤن بحال کرکے وہاں ٹاوٗن آفیسرز کا تقررکر رہی ہے۔
25-09-12
سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ دن بدن جارحانہ ہوتا جا رہاہے۔بلدیاتی نظام کے خلاف سندھ کی اپنی آواز تسلیم کرنے کے بجائے وہ قوم پرستوں پر کو مورد الزام ٹہرا رہی ہے کہ وہ پنجاب کی ایما ء پر خاص طور پر نواز شریف کے کہنے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہے۔رواں ہفتے کے دوران بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل لیگ اس پورے احتجاج کو کیش کرنا چاہ رہی ہے۔پیر پگارا نے سندھ کے قلم کار وں کے ایک نمائندہ وفد نے ملاقات کی اور انہیں سندھ کی وحدت کے لیے اپنی حمایے کا یقین دلایا۔سندھ بچایو کمیٹی نے عید کے بعد تحریک کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا ہے۔یہ سب واقعات سندھ کے اخبارات کا خبروں، اداریوں اور کالموں میں موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس تمام سیاسی کرماگرمی کے باوجود اخبارات مقامی مسائل کو بھی فوکس کررہے ہیں۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے موجودہ حکومت کیجانب سے نوجوانوں کو مختلف ہنر، مہارتوں میں تربیت دے کے ان کو روزگار کے قابل بنانے اور بیروز گاری کے خاتمے کے لیے شروع کیا جانے والا بینظیر بھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بہتر نتائج نہیں دے سکاہے۔ حکومت وعدے کے مطابق تر بیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکی ہے۔اس پروگرام کے تحت صحت کے شعبے میں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دینی تھی۔ مگر صحت کے 19مختلف شعبوں میں تربیت التواء کا شکار ہے ۔سندھ کے 31 تربیتی مراکزپر کام کرنے والے 366ڈاکٹرز،اور پیرامیڈیکل عملے کو آٹھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ۔چار ہزار سے زائدزیر تربیت نوجوان تیں ماہ سے وظیفے سے محروم ہیں ۔ اس پروگرام کا یہ پانچواں مرحلہ ہے جوالتواء کا شکار ہوا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے بجٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد بیروزگاری کے خاتمے کے لیے جو اہم قدم اٹھائے تھے ان میں سے ایک قدم بینظیربھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بھی ہے۔ مگر یہ پروگرام بہتر منصوبہ بندی اور حکومت کی غیرسنجیدگی کے باعث بہتر نتائج نہ دے سکا ۔حکومت نے یہ پروگرام شروع تو کیا مگر اس کو کامیابی سے چلا نہ سکی ۔اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل والوں کو حکومت نے ملازمتیں دینے کا اعلاں کیا تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کے تر بیت مکمل کرنے والوں کو ملازمت کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا جائے گا۔حکومت اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکی ۔ اس تربیت کا کیافائدہ ؟ا حکومت نے اتنا خرچ بھی کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔تربیت یافتہ نوجوانوں کا ایک لشکر تیار ہے جوملازمتوں کے انتظار میں ہے۔
اس پروگرام میں بے قاعدگیوں کے کی خبریں میڈیا تک پہنچی ہیں۔ لاتعداد ایسے نوجوان ہیں جو سفارش کی بنیاد پے اس پروگرام میں کاغذوں میں تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کو وظیفہ بہی ملتا رہا ہے دوسری طرف لاتعداد نوجوان وظیفے سے محروم ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ تربیت کے معیار پربھی کئی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کہ یہ پروگرام اگر ہترین منصوبہ بندی کے ساتھ چلایا جاتا تو اس کے بہتر نتائج ملتے۔حکومت نے بیروزگار نوجوانوں کا لشکر تو پیدا کر دیا ہے مگر جس مقصد کے لیے یہ تربیت دی گئی یعنی روزگار کے لیے وہ وعدہ پورانہیں کیا جاسکا ۔حکومت سندھ سے گذارش ہے کہ اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل کرنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے پروگرام کو چلانے اور اس کے مقرر ہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے فنڈ جاری کیے جائیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے ادبی اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پہ ایک بار پھر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کومسترد کردیا ہے۔مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کے سینئر ادیبوں اورصحافیوں نے خبردار کرکیا ہے کہ جب تک حکومت آرڈیننس واپس نہیں لیتی تب تک حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی۔
ادبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سندھ کے سیاسی ، قومپرست اور ادبی حلقوں سے بات کرنے کو تیار ہے تو کم سے کم سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012پرعمل درآمد روک دے۔انکا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے تو دوسری طرف کراچی میں ٹاؤن بحال کرکے وہاں ٹاوٗن آفیسرز کا تقررکر رہی ہے۔
سندھ کے عوام باشعور ہیں وہ اپنا نفع نقصان خوب سمجھتے
ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس سے صوبے میں دوہرا نظام
نافذ قائم ہو جائیگا اور یہ متنازع اور سندھ دشمن ہے کیونکہ یہ سندہ کو
انتظامی طور تقسیم کرنے کا قانون ہے اس بنیاد پے آگے چل کے کچھ حلقے الگ
صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں لہٰذا سے سندھ کے عوام کو کافی خدشات ہیں ۔
سندھ کے ادیب ،صحافی، سیاسی جماعتیں،قوم پرست حلقے تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ متنازع بلدیاتی نظام ختم نہیں کیا جاتا۔ سندھ پر جب بھی برا وقت آیا ہے تو سندھ دوست سیاسی جماعتوں ،قومپرست جماعتوں ادیبوں ،سول سوسائٹی اور سندھ کی عوام نے مل کے اس کی جغرافیائی وحدت پر وار نہ کرنے ،سندھیوں کا قومی تشخص برقرار رکھنے اور سندھی زبان کو بچانے کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سندھ کے سینئر صحافی اورادیب پیر پاگارا کی رہائش گاہ پر سندھ کے وجود پر وار کے خلاف جمع ہوئے اور مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر گاوں اور بستی میں جا کے اس آرڈیننس کے منفی اثرات کے بارے میں لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح سندھ کوتقسیم کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر کراچی میں پانچ اضلاع کوختم کرکے ایک انتظامی یونٹ بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کی سندھی آبادی کے لاکھوں لوگوں کو کس طرح اتحادی جماعت کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کچھ ادارے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس لسانی پارٹی کے پاس مسلح ونگ بھی ہے جو کراچی سے سندھیوں، بلوچوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں کو نکالنا چاہتا ہے۔
سندھ کے ادیب ،صحافی، سیاسی جماعتیں،قوم پرست حلقے تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ متنازع بلدیاتی نظام ختم نہیں کیا جاتا۔ سندھ پر جب بھی برا وقت آیا ہے تو سندھ دوست سیاسی جماعتوں ،قومپرست جماعتوں ادیبوں ،سول سوسائٹی اور سندھ کی عوام نے مل کے اس کی جغرافیائی وحدت پر وار نہ کرنے ،سندھیوں کا قومی تشخص برقرار رکھنے اور سندھی زبان کو بچانے کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سندھ کے سینئر صحافی اورادیب پیر پاگارا کی رہائش گاہ پر سندھ کے وجود پر وار کے خلاف جمع ہوئے اور مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر گاوں اور بستی میں جا کے اس آرڈیننس کے منفی اثرات کے بارے میں لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح سندھ کوتقسیم کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر کراچی میں پانچ اضلاع کوختم کرکے ایک انتظامی یونٹ بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کی سندھی آبادی کے لاکھوں لوگوں کو کس طرح اتحادی جماعت کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کچھ ادارے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس لسانی پارٹی کے پاس مسلح ونگ بھی ہے جو کراچی سے سندھیوں، بلوچوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں کو نکالنا چاہتا ہے۔
سینئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کے ٹارگیٹ کلنگ بھی اس منصوبہ کا حصہ ہے ۔اور کراچی میں پی پی کے خاتمے کی ذمہ دار بھی یہ ہی اتحادی جماعت ہے۔کچھ عرصہ قبل پی پی کراچی ڈویزن کے صدر نے بھی پی پی رہنماوں کے ٹارگیٹ کلنگ سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر پی پی کے رہنماوں نے اپنا اتحاد برقرار رکھنے کے لیے اس کو چپ کرا دیا ۔ حکومت کی یہ اتحادی جماعت نے اقلیت میں ہے مگروزیر اعلیٰ کا عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے میئر کے نام پے وزیر اعلیٰ کے سب اختیارلینے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا ہے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی میں ایک عرصے سے امن کا خواب بن گیا ہے ۔روزانہ ایک درجن افراد ٹارگیٹ کلنگ میں مارے جاتے ہیں جب کے ڈاکے لوٹ مار روز کا معمول ہیں۔ منگل کے روز کراچی میں بدامنی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سندھ حکومت، رینجرزاور پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے کہا کہ آئین کے آرٹیکل۹کے تحت شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں شہریوں کو تحفظ مہیا کرنے سے متعلق عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا ۔
عدالت نے صدارتی کیمپ آفیس بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی کے لیے روڈ پے دیوار تعمیر کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ سرکاری روڈ پر 50فٹ دیوار کھڑی گئی ہے کوئی بھی سرکاری روڈ پے قبضہ نہیں کر سکتا۔ اگر ضرورت ہے تو روڈ خرید کر لیا جائے۔ عدالت نے پولیس اور رینجرز کی جانب سے شہر میں نو گو ایریاز کے خاتمے کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے کہا کہ پورا شہر نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ ایک علاقے کا آدمی دوسرے علاقے میں نہیں جاتا ہے تو بوری میں بند لاش ملتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ کراچی میں اتنی نفری ہونے کے باوجود اب تک آخر موت کے سوداگر کے ہاتھ روکے کیوں نہیں جا سکے ہیں ؟ ان سوداگروں نے ادو دہائیوں میں کتنے گھر اجاڑے؟اس پر قانوں نافذ کرنے والے اورسرکاری حلقے غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ بہر حال کراچی ملکی معیشت کے لیے حب کی حثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا امن ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار کر سکتا ہے۔ لہٰذاہر حال میں امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ کراچی کو کسی بھی سیاسی مصلحت سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے ۔ ہر اس حلقے اور گروپ کے خلاف سخت کاروائی کی جائے جو کراچی کا امن بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کراچی میں اسلحے کے انبار ہیں جس کے زور پے مجرموں نے دہشت کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ جب تک کراچی کو اسلحے سے پاک نہیں کیا جاتا امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi
25-09-12
No comments:
Post a Comment