سندھ نامہ۔۔ امن و امان, ذوالفقارآباد
سہیل سانگی
سندھ کے اخبارات میں اس ہفتے صدر آصف علی زرداری کی کراچی میں موجودگی
اور اس حوالے سے کئے گئے مختلف فیصلوں پر کلام اور اداریے لکھے ہیں۔وفاقی
دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ میگاپروجیکٹ
ذوالفقارآباد کا معاملہ زیادہ زیر بحث رہا۔
روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کاہمیشہ اصل فوکس بڑے شہر ہوتے ہیں اور چھوٹے شہر نظرانداز ہوجاتے ہیں۔دیکھا جائے تو سندھ کے چھوٹے شہر بھی جرائم پیشہ افراد کے پاس یرغمال بنے ہوئے ہیں۔صرف ایک روز کا اخبار اٹھا کے دیکھیں آپ کو اغوا سے لیکر سر عام دکانوں سے لوٹ مار کے واقعات کی خبریں ملیں گی۔بلوچستان سے اغوا کئے گئے خیرپور کے آٹھ مغوی تو واپس آ گئے مگر پولیس میہڑ کے تین مغویوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔نتیجتہ ایک مغوی کا باپ بیٹے کی جدائی کے صدمے میں فوت ہو گیا۔شکارپور میں جرائم پیشہ افراد کا راج ہے، جہاں اغوا برائے تاوان ایک کاروبار بن گیا ہے۔یہاں کے 8 مغویوں کا تاحال کو سراغ نہیں ملا ہے۔شہدادکوٹ میں ایک جوئیلر کا اغوا کر لیا گیا۔ حیدرآباد میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کے دوران ایک ملزم مارا گیا۔بدین ضلع میں مسلح افراد کے ہاتھوں ایک شخص ہلاک ہوگیا، بدین میں ڈیپلو کے رہائشی مغوی کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔ جامشورو بدامنی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔مگر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔قاسم آباد میں ایک جنرل اسٹور سے لوٹ مار کی جارہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے ملزمان کو پکڑ لیا۔عمرکوٹ میں بدامنی کے خلاف شہریوں نے ریلی نکالی۔
یہ سب ایک روز کی خبریں ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے لوگ بدامنی کے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا سورج ڈوب چکا ہے۔مجرموں کا راج عروج پر ہے۔
روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کاہمیشہ اصل فوکس بڑے شہر ہوتے ہیں اور چھوٹے شہر نظرانداز ہوجاتے ہیں۔دیکھا جائے تو سندھ کے چھوٹے شہر بھی جرائم پیشہ افراد کے پاس یرغمال بنے ہوئے ہیں۔صرف ایک روز کا اخبار اٹھا کے دیکھیں آپ کو اغوا سے لیکر سر عام دکانوں سے لوٹ مار کے واقعات کی خبریں ملیں گی۔بلوچستان سے اغوا کئے گئے خیرپور کے آٹھ مغوی تو واپس آ گئے مگر پولیس میہڑ کے تین مغویوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔نتیجتہ ایک مغوی کا باپ بیٹے کی جدائی کے صدمے میں فوت ہو گیا۔شکارپور میں جرائم پیشہ افراد کا راج ہے، جہاں اغوا برائے تاوان ایک کاروبار بن گیا ہے۔یہاں کے 8 مغویوں کا تاحال کو سراغ نہیں ملا ہے۔شہدادکوٹ میں ایک جوئیلر کا اغوا کر لیا گیا۔ حیدرآباد میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کے دوران ایک ملزم مارا گیا۔بدین ضلع میں مسلح افراد کے ہاتھوں ایک شخص ہلاک ہوگیا، بدین میں ڈیپلو کے رہائشی مغوی کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔ جامشورو بدامنی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔مگر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔قاسم آباد میں ایک جنرل اسٹور سے لوٹ مار کی جارہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے ملزمان کو پکڑ لیا۔عمرکوٹ میں بدامنی کے خلاف شہریوں نے ریلی نکالی۔
یہ سب ایک روز کی خبریں ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے لوگ بدامنی کے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا سورج ڈوب چکا ہے۔مجرموں کا راج عروج پر ہے۔
حالت یہ ہے کہ لوگ جب کسی دکان پر خریداری کرنے جاتے ہیں تو وہاں بھی ڈاکو کھڑے ہوتے ہیں۔سو میں سے کوئی ایسا واقعہ ہوگا کہ لوگ مزاحمت کرے لٹیروں کو پکڑ لیتے ہیں۔جیسے قاسم آباد میں ہوا۔ورنہ اکثر واقعات میں لوگ اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگاتے۔پولیس نہ ڈاکوؤں سے تحفظ دیتی ہے اور نہ ہی اغوا کرنے والوں سے۔پھر بھی وہ خود کو محافظ کہلاتی ہے۔جب اس طرح کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے حکومت آپریشن کا اعلان کرتی ہے۔مگر اس آپریشن کا نتیجہ ماسوائے سرکاری گولیاں ضایع کرنے کے کچھ نہیں نکلا ہے۔ا
گر کبھی مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں تو معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کو پولیس خانہ پوری کے طور پر پکڑتی ہے۔باقی وہ مجرم جنہوں نے علاقے میں آگ لگائی ہوئی ہوتی ہے ایسے آپریشن میں نہ کبھی گرفتارہوئے ہیں نہ مارے گئے ہیں۔دور کیوں جاتے ہیں باگڑجی میں جو آپریشن چل رہا ہے اسکا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ یہ آپریشن پولیس کی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا ہے اورپولیس ہر گھر میں گھس رہی ہے۔اور مبینہ طور گھروں میں لوٹ مار کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپریشن کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ایوارڈز بھی عطا کئے گئے ۔ کسی کارنامہ کے برعکس پولیس زیادتیوں کی خبریں شایع ہو رہی ہیں پھر بھی اہلکاروں کو ایوراڈ؟
الیکٹرانک اور پرنٹ میں میڈیا میں بدامنی کے حوالے سے جو تصاویر آرہی ہیں انکو دیکھ کے ہونا تو یہ چاہئے کہ پولیس اہلکاروں کو ایوارڈ نہیں سزائیں ملنی چاہئیں۔ پہلے مجرم چھپ چھپ کے وارداتیں کرتے تھے اب تو لوگوں کے ہجوم میں گھس جاتے ہیں اور اسلحے کے زور پر لوگوں سے پیسے چھین لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مجرموں کو پتہ ہے کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے پاس یرغمال بنی ہوئی ہے۔
روزنامہ کاوش کے کالم نگار اشفاق آذر’’ فیملی گیٹ کونسے بچے اور انڈے دے گا ‘‘کے عنوان سے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور ان پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں دونوں صورتوں میں اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔
روزنامہ عبرت کے کالم نگار نثار لغاری سندھ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بجٹ میں شہید بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں انٹرنیشنل وٹنری انڈ اینیمل سانئسز یونیورسٹی اور لاڑکانہ میں اس یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔بجٹ میں کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ بینظیرآباد، سکھر، میرپورخاص کے لیے خصوسی پیکیج رکھے گئے ہیں۔بدین، تھرپارکر اور بعض دوسرے بڑے اضلاع کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
کالم نگار لکھتے ہیں کہ بجٹ میں تو بڑے بڑے اعلانات کئے جاتے ہیں مگر مالی سال کے اختتام پر پتہ چلتا ہے
کی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم خرچ ہی نہ ہو سکی ہے۔گذشتہ مالی سال کے دوران بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ جس پر لوگوں میں غم اور غصہ پایا جاتا ہے۔کیونکہ دیہات میں سڑکیں، اسکول اور ہسپتالیں ک تباہ حال ہیں۔صوبے میں سینکڑوں ایسے دیہات ہیں جہاں روڈ، گیس، بجلی اور پینے کے پانی کا بندوبست نہیں۔
روزنامہ عوامی آواز’’ ذوالفقارآباد سے متعلق عوام کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے کہا ہے کہ ذوالفقارآباد منصوبے پر نظرثانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو قوم پرستوں سمیت سندھ کے عوام کو منصوبے کے بارے میں مکمل معلومات دے گی۔ اور انہیں اعتماد میں لے گی۔اگر منصوبے میں کوئی خامی یا کوتاہی ہوگی تو اسے دور کیا جائے گا۔اور مقامی لوگوں کی رائے لازمی طور پر شامل کی جائے گی۔
جب گوادر پورٹ بن رہا تھا تب بلوچستان کے قوم پرستوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہاں پر ملکی خواہ غیر ملکی لوگوں کو آباد کیا جائے گا۔جس سے بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔مگر حکومت نے بلوچوں کی ایک بھی نہیں سنی۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ بلوچوں نے دوسرے صوبوبوں کے آبادکاروں کے لیے بلوچستان کی سرزمین تنگ کردی۔ملکی خواہ غیرملکی سرمایہ کار جو دوسری قوموں کے وسائل ہڑپ کرنے کی تاک میں رہتے ہیں وہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کی آڑ میں انکو اقلیت میں تبدیل کرنے بلوچوں سے ان کے وسائل اس طرح سے چھینے جاتے جس طرح سے دنیا می بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں بسایا گیا۔آج دنیا سمجھتی ہے کہ فلسطین کی دھرتی کے اصل مالک عرب تھے۔آج زمین کے مالکان کو دھکیل کر دور کردیا گیا ہییہودیوں کا ملک اسرائیل ایسی طاقت بن کے ابھرا ہے کہ جو اسرائیلیوں نے نہ صرف مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ردی ہے بلکہ بلکہ اسلامی ممالک کے درمیان بیٹھ کر انہیں آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اگر بلوچ ترقی کے نام پر باہر کے لوگوں کی دلی طور پر آجیاں کرتے تو آئندہ 40 برسوں میں بلوچ بلوچستان میں اپنی شناخت کھو بیٹھتے۔اور اقلیت میں آجانے کے بعد اکثریت کے سامنے گھٹنے تیک دیتے۔
غیرجاندار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار آباد ان منصوبوں کی کڑی ہے جن کا مقصد سندھ کے پرانے باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔نئے شہر وق کی ضرورت ہوتے ہیں مگر ایسے شہر جن سے مقامی لوگوں کو خدشات ہوں ہرگز نہیں بننے چاہئییں۔ذوالفقارآباد سے متعلق سندھ کے لوگوں کے خدشات دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اب وقت بتائے گا کہ صوبائی حکومت یہ خدشات کس طرح سے دور کرتی ہے۔سندھ کے لوگوں کو ترقی میں شامل کرنے، اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے کیا ضمانت دیتی ہے۔
Sindh Nama June, 15, 2012
No comments:
Post a Comment