Friday, June 19, 2015

گدھا اور وزراء کی جذباتیت

Sindhi Press, Sindh Nama  Sohail Sangi 
گدھا اور وزراء کی جذباتیت
سندھ نامہ سہیل سانگی
وزراء کی جذباتیت کوگنیز بک میں شامل کرنا چاہئے کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ ہمارے ملک کا عام آدمی زندگی کی گاڑی تب چلا پاتا ہے جب وہ پورا دن محنت مزداری کرتا ہے۔اسے ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ دراصل یہ عام آدمی ہی ہے جس کے ووٹ کی چابی سے اقتدار کے ایوانوں کے تالے کھلتے ہیں۔ وہ رعایا بنتے ہیں اور ووٹ دے کر اپنا حاکم منتخب کرتے ہیں۔ اور خود پر حکمرنی کا حق دیتے ہیں۔ یہ ملک کے لوگ ہی ہیں جن کے ووٹ ایک ایک اینٹ بن کر اقتدار کا ایوان تعمیر کرتے ہیں۔ اس بندے کے کتنے مشکل ہیں زندگی کے اوقات۔ مہنگائی کی مہلک بیماری میں ملک کا ہر بندہ مبتلا ہے۔ بیروزگاری کی آگ میں اس کی اولاد جلتی رہتی ہے۔ بھوک بدحالی، مفلسی اور فاقہ کشی کا بھی یہی عام آدمی مقابلہ کر رہا ہے۔ اگر ان باتوں کو حقائق کے آئینے میں دیکھا جائے تو عام آدمی کا حخمرانوں کے خلاف کتنا بڑا کیس ہے؟

آج ہم بات کریں گے ملک کے حکمرانوں کی جو سرکاری گاڑی کی غلط ڈرائیونگ کر کے ان عام آدمیوں کی زندگگی میں حادثات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حادثات اچانک نہیں ہوتے۔ مگر اس ملک کے مسند نشینوں کی کیا بات کی جائے، کہ سب کچھ اجنتے پہوئے بھی بے خبر ہیں۔ 
ایک گدھا گاڑی چلانے والا کس طرح زندگی گزارتا ہے۔ ایک محنت کش کارخانوں اور اینٹوں کے بٹھوں میں کس طرح پکتا رہتا ہے۔ ؟ تعلیم اور ترقی کا سفر کیوں رک گیا ہے؟ حکمران عام آدمی کے ان حالات سے باخبر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی بے خبری آج کے دور کی بڑی خبر ہے۔ حیدرآباد کے قاسم آباد کے علاقے میں ایک ہفتہ پہلے بجلی کا تار گرنے کے باعث ایک محنت کش کا گدھا مر جاتا ہے تو اس کا مقدمہ حیسکو کے افسران کے خلاف داخل ہوتا ہے۔ تو پانی و بجلی کے مملکتی وزیر شیر علی تھانے کے باہر آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد پولیس کے گلو بٹ ڈوب کر مریں اگر ہمت ہے تو میرے افسران کو گرفتار کر کے دیکھیں۔ روز لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ ان کء مقدمات داخل نہیں ہوتے۔ مگر ھگے مرنے کا کیس داخل کرنے پو سندھ پولیس کا نام گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل کیا جانا چاہئے۔
یہ زبان اور یہ دھمکیاں اس وزیر کی ہیں جس کے ہاتھ میں بجلی کا اہم محکمہ ہے۔ یہ ’’دلفریب ‘‘ زبان اس شخص کی ہے جنہیں ایک اہم محکمء کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ جس معاشرے میں انسان بے موت مرتے ہوں مگر ان کی قدردانی نہ ہو، اس معاشرے میں ایک گدھے کا مرنا بظاہر خواہ مملکتی وزیر کے لئے معمولی بات ہو، لیکن اس مزدور کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ اس کے لئے زندگی کی گاڑی چلانا یقیننا کٹھن ہو گیا۔ کیا ملک کا قانون سب شہریون کے لئے برابر نہیں؟ یا مملکتی ویزر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود ، ان کا محکمہ اور اس کے ملازمین ہر احتساب سے آزاد ہیں۔ اور قانون سے بالاتر ہیں۔ اگر وزیر کی ’’زبان درازی‘‘ کی بات کی جائے تو جس میں وہ گدھے کو صرف گدھا کہہ کر اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ 

ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے جس اہم ادارے کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی گئی ہیوہ اس وقت کہاں کھڑا ہے؟ اس محکمے میں کتنی کرپشن ہے؟ ملک میں لوڈ شیڈنگ کتنی ہے؟ بجی کی چوری کتنی ہورہی ہے؟ کیا یہ تمام خامیاں دور کرنے میں وزیرکامیاب ہوئے ہیں۔ یا ان سے وہ خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مملکتی وزیر کے اس رویے پر لائیو اسٹاک اور فشریز کے صوبائی وزیر جام خان شورو اعتراض تو کرتے ہیں مگر اس صوبائی وزیر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کی اپنی حکومت کی کیا کراکردگی ہے؟ یہ جو اتنے سارے لوگ بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں، ان کی ایف آئی آر کس کے خلاف داخل کی جائے۔
وفاق کے خلاف حکومت سنھ کی چیخ و پکار کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاق نے اگر سندھ کے خلاف ناانصافیاں ختم نہ کیں تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کرابی میں آب رسانے کے منصوبے کی سنگ بنیا د کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف امن و مان کے لئے کراچی میں اجلاس تو کرتے ہیں لیکن سندھ کو اس کے حصے کے فنڈز جاری نہیں کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ مایوس کن ہے اور سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال وفاق کے ترقیاتی پروگرام میں سندھ کے لئے 85 ارب روپے رکھے گئے لیکن صرف آتھ ارب روپے جاری کئے گئے۔ جبکہ اس سے پہلے 525 ارب روپے میں سے صرف 22 ارب روپے جاری کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سے بدلہ لیا جارہا ہے جہاں دیہی علاقوں میں 18 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔ 

سندھ کے ساتھ ناانصافیوں کے حوالے سے دو رائے نہیں۔ قومی خزانے میں سب سے زیادہ حصہ دینے والے صوبے کو آٹے میں نمک برابر دیا جاتا ہے۔ تیل، گیس اور دیگر معدنی وسائل سے مالا مال صوبے کی حالت کھنڈرات سے کم نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار ہیں۔ پچاس فیصد آبادی کو بھی پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ۔ سندھ کے عوام کو امید رہی کہ جن کو انہوں نے ووٹ دیئے ہیں وہ نہ صرف ان ناانصافیوں کے خالف آواز اٹھائیں گے بلکہ ان کے حاصلات کے لئے عملی اقدامات بھی کریں گے۔ لیکن افسوس کی گزشتہ سات سال سے معاملہ باتیں کرنے یا اخباری بیانات میں شکوہ کرنے سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ 
پیپلزپارٹی کی قیادت کو واقعی یہ احساس ہے کہ سندھ کے سات ناانصافی ہو رہی ہے تو پھر اسے یہ شکوے صرف جلسوں میں نہیں منتخب ایوانوں اور متعلقہ فورم میں کرنے چاہیءں۔ وفاقی سطح پر جب اجلاس ہوتے ہیں تو سندھ کی نمائندگی کرنے والوں کے منہ سے لفظ نہیں نکلتے، کیونکہ ٹھیک سے ہوم ورک کرکے مضبوط کیس بنا یا نہیں جاتا۔ سڑکوں پر نکلنے کی بات سندھ کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ سندھ حکومت کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاقی بجٹ میں سندھ کے لئے کم رقم رکھنے اور ہر سال کم رقم جاری کرنے پر اداریہ لکھا ہے۔


 
Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi - June 12, 2015

No comments:

Post a Comment