محکمہ صحت سیاست کی نذر
سندھ نامہ سہیل سانگی
6-09- 2012
سندھ کے اخبارات نے صوبے میں بلدیاتی نظام کے لیے دو اتحادی جماعتوں کے درمیان جاری مذاکرات اور صدر آصف علی زرداری کے دورہ کراچی ، سندھ سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس کو موضوع بحث بنایا۔
روزنا مہ کاوش ’’قومی مفاد میں جاری کردہ آرڈیننس‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ اب تمام نان کیڈر افسران جو کیڈر عہدوں پر مقرر ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔اور وہ افسران جنہوں نے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کیں، اور وہ ریٹائرڈ ملازمین جنہیں قومی مفاد میں دوبارہ ملازمت میں رکھا گیا ہے وہ بھی پریشان ہونا چھوڑ دیں۔کیونکہ اب انہیں قانونی تحفظ مل چکا ہے۔اورانہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔
گورنر سندھ عشرت العباد نے آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے سکتے ہیں بلکہ ڈیپیوٹیشن، انضمام اور کانٹریکٹ کی بنیاد پر تقرریاں بھی کر سکتے ہیں۔
سندھ سول سرونٹس سروسز ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کسی بھی سول سرونٹ کو غیرمعمولی کارکردگی کی بنیاد پرآؤٹ آف ٹرن ترقی ، ایوارڈ یا انعام دے سکتے ہیں۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جن معاملات کو آرڈیننس کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے ان میں سے بعض مقدمات پر سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔جبکہ بعض مقدمات زیر سماعت ہیں۔جب اسمبلیاں موجود ہوں تو قانون سازی اسمبلیوں کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔ آرڈننس اس وقت جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی وجود نہیں رکھتی یا پھر کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے کہ اسمبلی میں یہ قانون پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر آج اسمبلی بھی موجود ہے، کوئی ایمرجنسی بھی نہیں۔تو پھر اتنی عجلت میں یہ آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟
ممکن ہے کہ نان کیڈر افسران، آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کرنے والے یا دوبارہ مقرر ہونے والے ریٹائرڈ افسران کو ایمرجنسی ہو۔اس طرح کی قانون سازی سے ممکن ہے چند سو افسران کا بھلا ہو جائے۔مگر اس سے مجموعی طور پر سروس اسٹرکچر کا جو بیڑا غرق ہوگا اسکاکسی آرڈیننس جاری کرنے سے بھی ازالہ ممکن نہیں۔
اس قسم کی قانون سازی سے جو تھوڑا بہت میرٹ بچا ہے اس کو بھی لپیٹا جارہا ہے۔کیڈر عہدوں پر کمیشن کے ذریعے تقرر ہوتا ہے۔مگر اب کہیں سے بھی کسی کو بھی اٹھاکر کسی اہم اور ذمہ د ار عہدے پر بٹھایا جا سکتا ہے۔پھر وہ سب نوجوان جو کسی بڑے انتظامی عہدے کے لیے اس وقت محنت کرکے کمیشن کی طرف راغب ہیں وہ اس قسم کی قانون سازی کے بعدخود میں میرٹ پیدا کرنے کے بجائے تمام صلاحیتیں اس پر لگائیں گے کہ جوں توں کرکے گریجوئشن کے بعد ملازمت حاصل کرکے کوئی سفارش تلاش کرکے کسی بڑے انتظامی عہدے پر چلے جائیں۔ گریڈ 17 کا ایک اسکول ٹیچرکوشش کرے گا کہ وزیراعلیٰ تک رسائی کرکے ڈی او روینیو لگ جائے۔گریڈ18 کا کالج لیکچرار یہ خواب دیکھے گا کہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا ایس پی لگ جائے۔یعنی اس کا تمام شعبوں پر اثر پڑے گا۔اور کہیں بھی کام کرنے کا اچھا اسپرٹ پیدا نہیں ہو پائے گا۔
’’
روزنامہ عبرت ‘‘کے کالم نگار سرفراز وسطڑو ’’ محکمہ صحت سیاست کی نذر‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ حیدرآباد سول ہسپتال جس میں اندرون سندھ کے مختلف علاقوں سے مریض علاج کے لیے آتے ہیں وہ آج کل پیپلز پارٹی اور اسکی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔ یہاں مریضوں کے علاج پر انتظامیہ کی توجہ کم اور اپنے عہدے بچانے پر زیادہ ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس ہسپتال کے بڑے عہدے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پی پی اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
ان جماعتوں کے حامی ڈاکٹروں کے علاوہ بھی بعض ڈاکٹر بڑی بڑی رقومات دے کر یہ عہدہ حاصل کرنے کے جتن کر تے رہے ہیں ۔ آج کل دو بڑے ڈاکٹروں کیپٹن ڈاکٹر کاظم شاہ اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر خالد قریشی کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر کاظم شاہ عہدے کا چارج لیکر ابھی ہسپتال کا کام کاج چلانے کی پوزیشن میں بمشکل آتے ہیں کہ ان کو ہٹا کر ڈاکٹر خالد قریشی کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ مقرر کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ہر تیسرے چوتھے روز ہوتا رہتا ہے۔میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ان دو ڈاکٹروں کے درمیان مقابلہ ان دو کو ذاتی فائدہ یا نقصان تو دیتا ہی ہوگا۔مگر اس سے زیادہ یہاں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
سندھ نامہ سہیل سانگی
6-09- 2012
سندھ کے اخبارات نے صوبے میں بلدیاتی نظام کے لیے دو اتحادی جماعتوں کے درمیان جاری مذاکرات اور صدر آصف علی زرداری کے دورہ کراچی ، سندھ سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس کو موضوع بحث بنایا۔
روزنا مہ کاوش ’’قومی مفاد میں جاری کردہ آرڈیننس‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ اب تمام نان کیڈر افسران جو کیڈر عہدوں پر مقرر ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔اور وہ افسران جنہوں نے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کیں، اور وہ ریٹائرڈ ملازمین جنہیں قومی مفاد میں دوبارہ ملازمت میں رکھا گیا ہے وہ بھی پریشان ہونا چھوڑ دیں۔کیونکہ اب انہیں قانونی تحفظ مل چکا ہے۔اورانہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔
گورنر سندھ عشرت العباد نے آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے سکتے ہیں بلکہ ڈیپیوٹیشن، انضمام اور کانٹریکٹ کی بنیاد پر تقرریاں بھی کر سکتے ہیں۔
سندھ سول سرونٹس سروسز ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کسی بھی سول سرونٹ کو غیرمعمولی کارکردگی کی بنیاد پرآؤٹ آف ٹرن ترقی ، ایوارڈ یا انعام دے سکتے ہیں۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جن معاملات کو آرڈیننس کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے ان میں سے بعض مقدمات پر سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔جبکہ بعض مقدمات زیر سماعت ہیں۔جب اسمبلیاں موجود ہوں تو قانون سازی اسمبلیوں کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔ آرڈننس اس وقت جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی وجود نہیں رکھتی یا پھر کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے کہ اسمبلی میں یہ قانون پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر آج اسمبلی بھی موجود ہے، کوئی ایمرجنسی بھی نہیں۔تو پھر اتنی عجلت میں یہ آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟
ممکن ہے کہ نان کیڈر افسران، آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کرنے والے یا دوبارہ مقرر ہونے والے ریٹائرڈ افسران کو ایمرجنسی ہو۔اس طرح کی قانون سازی سے ممکن ہے چند سو افسران کا بھلا ہو جائے۔مگر اس سے مجموعی طور پر سروس اسٹرکچر کا جو بیڑا غرق ہوگا اسکاکسی آرڈیننس جاری کرنے سے بھی ازالہ ممکن نہیں۔
اس قسم کی قانون سازی سے جو تھوڑا بہت میرٹ بچا ہے اس کو بھی لپیٹا جارہا ہے۔کیڈر عہدوں پر کمیشن کے ذریعے تقرر ہوتا ہے۔مگر اب کہیں سے بھی کسی کو بھی اٹھاکر کسی اہم اور ذمہ د ار عہدے پر بٹھایا جا سکتا ہے۔پھر وہ سب نوجوان جو کسی بڑے انتظامی عہدے کے لیے اس وقت محنت کرکے کمیشن کی طرف راغب ہیں وہ اس قسم کی قانون سازی کے بعدخود میں میرٹ پیدا کرنے کے بجائے تمام صلاحیتیں اس پر لگائیں گے کہ جوں توں کرکے گریجوئشن کے بعد ملازمت حاصل کرکے کوئی سفارش تلاش کرکے کسی بڑے انتظامی عہدے پر چلے جائیں۔ گریڈ 17 کا ایک اسکول ٹیچرکوشش کرے گا کہ وزیراعلیٰ تک رسائی کرکے ڈی او روینیو لگ جائے۔گریڈ18 کا کالج لیکچرار یہ خواب دیکھے گا کہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا ایس پی لگ جائے۔یعنی اس کا تمام شعبوں پر اثر پڑے گا۔اور کہیں بھی کام کرنے کا اچھا اسپرٹ پیدا نہیں ہو پائے گا۔
’’
روزنامہ عبرت ‘‘کے کالم نگار سرفراز وسطڑو ’’ محکمہ صحت سیاست کی نذر‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ حیدرآباد سول ہسپتال جس میں اندرون سندھ کے مختلف علاقوں سے مریض علاج کے لیے آتے ہیں وہ آج کل پیپلز پارٹی اور اسکی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔ یہاں مریضوں کے علاج پر انتظامیہ کی توجہ کم اور اپنے عہدے بچانے پر زیادہ ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس ہسپتال کے بڑے عہدے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پی پی اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
ان جماعتوں کے حامی ڈاکٹروں کے علاوہ بھی بعض ڈاکٹر بڑی بڑی رقومات دے کر یہ عہدہ حاصل کرنے کے جتن کر تے رہے ہیں ۔ آج کل دو بڑے ڈاکٹروں کیپٹن ڈاکٹر کاظم شاہ اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر خالد قریشی کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر کاظم شاہ عہدے کا چارج لیکر ابھی ہسپتال کا کام کاج چلانے کی پوزیشن میں بمشکل آتے ہیں کہ ان کو ہٹا کر ڈاکٹر خالد قریشی کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ مقرر کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ہر تیسرے چوتھے روز ہوتا رہتا ہے۔میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ان دو ڈاکٹروں کے درمیان مقابلہ ان دو کو ذاتی فائدہ یا نقصان تو دیتا ہی ہوگا۔مگر اس سے زیادہ یہاں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
علاوہ ازیں حیدرآباد ضلع کے ایگزیکیوٹو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جو اب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی پوسٹ ہے اس کے لیے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے حامی ڈاکٹروں کے درمیان سخت مقابلہ خاصے عرصے سے جاری ہے۔پہلے اس عہدے پر پیپلز پارٹی کے ٹنڈوالہیار سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے امداد پتافی کے والد ڈاکٹر بخش علی پتافی کو مقرر کیا گیا۔ بعد میں ایم کیو ایم کے ایک ذمہ دار عہدیدار کے رشتیدار کو یہ عہدہ دیا گیا۔ اسی طرح سے ہیپٹائٹس کی روک تھام والے پروگرام کے صوبائی منیجر ڈاکٹر عبدالمجید چھٹو کو مقرر کیا گیا۔
جیسے جیسے ملکی و غیر ملکی فنڈز اس پروجیکٹ میں آنے لگے ہیں کئی ڈاکٹروں نے یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ڈاکٹر چھٹو حال ہی میں جب امریکہ گئے ہوئے تھے تو ان کی غیرحاضری میں چانڈکا میڈٰکل کالج ہسپتال کے ڈاکٹر ذوالفقار سیال کو اس عہدے پر مقرر کیا گیا۔ جب ڈاکٹر چھٹو واپس آئے تو انہیں یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے ذریعے بڑی تگ و دو کرنی پڑی۔ مگر ایک ماہ کے بعد ان کو دوبارہ ہٹادیا گیا۔ کیونکہ نئے آنے والے کی سفارش اس سے بھی بھاری تھی۔
سندھ کے محکمہ صحت میں اب مریضوں کے علاج پر توجہ دینے کے عہدے حاصل کرنے کے لیے مال کمانے اور مال پہنچانے کا محکمہ بن گیاہے۔یہ تمام عہدے ایسے ہیں جہاں کروڑوں روپے کی مشنری اور دوائیں خرید کی جاتی ہیں۔ مگر زیادہ تر یہ دونوں چیزیں مریضوں پر استعمال کرنے کے بجائے صرف کاغذوں پر ہی رہ جاتی ہیں۔
’’سندھ کو یہ کیسا روگ لگ گیا ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عوامی آواز ‘‘لکھتا ہے کہ مورو شہر میں معصوم رضوان عباسی کے قتل کے سنگین واقعے نے ایک مرتبہ پھر سندھ میں اخلاقی دیوالیہ پن کو عیاں کر دیا ہے۔اگرچہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اب اس طرح کے واقعات نئے نہیں رہے۔ مگر اس طرح کے واقعات کے واقعات میں اضافہ سندھ کے شعور کے لیے دھچکہ ہیں۔ہر ایک یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ پھول جیسے سات سالہ رضوان عباسی نے کسی کا کوئی قصور یا گناہ نہیں کیا تھا۔اتوار کے روز معصوم رضوان کی لاش کھلے گٹر سے ملی۔ وہ تین روز قبل لاپتہ ہوگئے تھے۔ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ انہیں بدفعلی کے بعد تشدد کرکے قتل کردیا گیا۔ورثاء کے مطابق ان کی کسی سے بھی دشمنی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی غفلت کی وجہ سے ان کا بچہ قتل ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اسباب تھے کہ اس بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور بعد میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیاگیا۔کیا پولیس ملزمان کو گرفتار کر لے گی؟ ویسے تو پولیس اپنی جیبیں بھرنے کے لیے شک میں کئی لوگوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کونسی سرزمین ہے کہ اس طرح کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔جہاں کبھی اخلاقی قدریں موجود تھیں اور جہاں عورتوں اور بچوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔یہ ایک چیلینج ہے سماج کے محافظوں کے لیے اور ان کے لیے بھی جو عوام کی نمائندگی کا دعوا کرتے ہیں۔کہ وہ اس سلسلے کو روکیں اور آئندہ اس قسم کا واقعہ نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔
Sindh Nama 6-09- 2012
No comments:
Post a Comment