Wednesday, June 17, 2015

بارشوں کی تباہی، متاثرین کی حالت زار - اور نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج

سندھ نامہ          سہیل سانگی
بارشوں کی تباہی، متاثرین کی حالت زار - اور نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج 

سندھ کے اخبارات بارشوں سے ہونے والی تباہی، متاثرین کی حالت زار اور صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاجوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان دو معاملات پر خبریں، کالم اور تبصرے بھرپور انداز میں شایع ہوئے ہیں۔

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ بچاؤ کمیٹی کی اپیل پر سندھ کے عوام نے پر امن ہڑتال کرکے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے خلاف خدشات ، غم و غصے کا اظہار کیا۔سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ہوتی ہیں اور جمہوریت جمہور سے جڑی ہوتی ہے یہ عوام ہی ہیں جو نمائندوں کو اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ حکمرانی کا حق دیتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسے کام کرے جس سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ حکمران ، نوکرشاہی ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سب کے سب عوام کے خادم ہیں ریاست کے حقیقی وارث عوام ہیں جمہوری اداروں میں فیصلے ہمیشہ جمہور کے دیئے گئے مینڈیٹ کی روشنی میں کئے جاتے ہیں۔جہاں عوام سمجھتے ہیں کہ بادشاہ سلطنت اور رعایا کے حق میں فیصلے نہیں کرتا ہے تو اس ملک کی رعایا بادشاہ کو تخت سے اتار کر تختی پر بٹھا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر جمہوری حکومت میں آمرانہ فیصلے ہونگے تو ان حکمرانوں کا حشر پرویز مشرف جیسا ہوگا۔

سندھ کے عوام کہتے ہیں کہ جب اسمبلیاں موجود ہیں تو رات کی تاریکی میں سندھ لوکل گورنمنٹ آردیننس جاری کیا گیا۔ جبکہ گزٹ نوٹیفکیشن کئی روز بعد آٹھ شیڈول میں سے ایک شیڈول کے ساتھ جاری کیا گیا ۔ جبکہ باقی سات شیڈول ابھی تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ 
سندھ کے عوام حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر حکومت کو ایسی کیا جلدی تھی کہ اسمبلی میں بل لانے کے بجائے آرڈٰننس جاری کیا گیا۔اور آڈیننس بھی اتنی عجلت میں کہ اس کی شقیں سندھ حکومت نے پریس کانفرنس میں بتائیں، گزٹ نوٹیفکیشن میں نہیں۔ سندھ کے عوام نے ہڑتال کر کے اپنی طاقت اور عوام کی رائے کا اظہار کر چکی ہے۔ تو  سندھ حکومت کو عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔حکومت نے ہڑتال کے دوران عوام کا نقط نظر دیکھنے کے بجائے ہڑتال کے دن ہی گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے عوام کے دکھ اور غصے میں اضافہ کر دیا۔ 
دوسری طرف سندھ بچاؤ کمیٹی نے مزید ہڑتالوں اور قومی شاہراہوں کو بلاک کرنے کا اعلان کرچکی ہے ۔ کمیٹی کے رہنماؤں نے دھمکی دی ہے کہ جب تک آردیننس واپس نہیں لیا جاتا شاہراہوں پر دھرنے ختم نہیں کئے جائیں گے۔ یہ دھرنے طویل عرصے چلے تو ملک میں آمدرفت اور رسد کے ذرائع بند ہو جائیں گے تو۔دوسری طرف نیٹو کی سپلائی بھی بند ہو جائے گی۔ سپلائی بند ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا کو پاکستان کے لیے کوئی اچھاپیغام نہیں جائے گا۔ سندھ کے عوام بڑی مشکل سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے تیار ہوا تو اسٹبلشمنٹ نے عوام کو آپس میں لڑا کر الجھا دیا سندھ کے عوام سمجھتے ہیں کہ اپنے وجود اور سندھ کو بچانا ہے کیونکہ تاریخ میں ان کی پہچان سندھ سے ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سندھ کے عوام کٹ کے مر تو سکتے ہیں مگر سندھ کو تقسیم کرنے والے کسی بھی وار یا آرڈینس کو قبول نہیں کرینگے۔
 ہم سندہ حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ جمہوریت کی دعویداروں کوجمہور کی آواز سنے کیونکہ و ہی سندھ کے اصل وارث ہیں اگر سندہ کے عوام ہڑتال کرکے اس آرڈینس کومسترد کر چکے ہیں۔ سندہ حکومت کو بھی وہی فیلصلہ کرنا چاہہئے ے جو عوام چاہتے ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے خبرشایع ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں موجود وڈیرہ شاہی کی وجہ سے مظلوم عورت کی زندگی ہر وقت موت کے سائے میں کٹتی ہے۔ یہاں پولیس جاگیرداروں کے ساتھی کی صورت میں وڈیروں کو مکمل چھوٹ دیئے ہوئے ہے کہ وہ جس طرح چاہیے کریں اور جس کو چاہیے موت کے گھاٹ اتاریں، گاؤں میں اگر ان کی بات کوئی نہ مانے تو اس پہ جھوٹا کیس داخل کیا جاتا ہے یا گاؤں سے نکال دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی فریاد حد کی پولیس کے پاس درج نہیں ہوتی کیونکہ پولیس تھانے وڈیروں کے خرچ پہ چلتے ہیں۔ وڈیرے کی اوطاق پہ جرگہ ہوتا ہے جس میں حد کا ایس ایچ او بھی شریک ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک جرگہ کی خبر شکارپور کی ہے ۔
گنج پور تھانے کی حد میں خیر شاہ محلے کی صنم کو اپنی پسند سے جیون ساتھی چننے کے جرم میں جرگہ بلا کے گولیاں ماری گئی ۔رپورٹ کے مطابق گولیاں وڈیرے کی فتواسے اس کے گارڈز نے چلائیں۔ مگر پولیس کا کہنا ہے کہ وڈیرہ بے قصور ہے گولیاں لڑکی کے رشتیداروں نے چلائیں۔ کیس لڑکی کے ماموں کے خلاف درج لیا گیا ہے۔ فریاد کیلیے کے کس کے پاس جایا جائے؟ پولیس تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کے وڈیرہ بے قصور ہے۔ اب اس سے کس قسم کی تحقیقات کی امید کی جائے؟ سب سے پہلے لڑکی کا بیان لیا جائے جس کی زندگی گاؤں والوں نے بچائی۔ اایک غیرجانبدار کمیٹی تشکیل دی جاے جو گاؤں کے لوگوں کے بیانات قلمبند کرے۔ کیونکہ ان کو اصل حقیقت کا پتا ہوگا اس انسانیت سوز جرم کا فیصلہ پولیس کے حوالے نہ کیا جائے جس نیہمیشہ وڈیروں کی ڈھال اور ساتھی بن کے قانون اور انصاف کا سر جھکایا ہے۔


روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ حالیہ بارشوں کے بعد سندھ کے شمالی علاقوں کے شہر اور گاؤں زیرآب آگئے۔ وہاں اب وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ بارشوں میں مکانات گرنے اور پانی کی نکاسی نا ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ دربدر ہیں۔ سکھر، شہدادکوٹ اور دوسرے شہروں اور گاؤں میں پانچ سے چھ فٹ پانی ہے۔ گذشتہ برس کی بارشوں کے بعد لوگوں نے بمشکل سکون کی سانس لی تھی کہ ر واں سال بارشوں میں ان کے گھر کھیت سب زیر آب آگئے۔تاحال انتظامیہ نے کوئی رلیف نہیں دیا اگر ان علاقوں سے پانی نہ نکالا گیا تو وبائی امراض کی وجہ کئی جانیں ضایع ہو سکتی ہیں۔ ان علاقوں سے پانی نکال کے کم سے کم لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جائے ۔
اب بارشیں تو ختم ہوگئی ہیں مگرمختلیف نہروں میں شگافوں کی وجہ سے گاوں زیرآبب آگئے ہیں۔نہ صرف لوگوں کے مکانات گرے ہیں بلکہ کئی جانیں بھی ضایع ہوئیں، ہزاروں ایکڑپر کھڑی فصلیں بھی پانی کی نذر ہوگئیں۔ گذشہ سال جن پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا تو اس سال ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اگر اس بار بھی یہ کام نہیں کیا گیا تو زیادہ نقصان ہوگا۔


روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت کا بارش متاثرین کی طرف رویہ یہ ہے کہ ان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اگر کی جائے گی تو عزت نفس مجروح کرکے۔ تذلیل کرکے ، ان پر لاٹھیاں برسانے کے بعد کی جائے گی۔اخبار لکھتا ہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ گھوٹکی سے رپورٹ ہوا ہے جہاں ضلع کے مختلف گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگ امداد کی تقسیم کا سن کرمقامی سرکٹ ہاؤس پہنچے۔انتظامیہ نے سرکٹ ہاؤس کا گیٹ بند کر دیا۔
ہم گذشتہ دو سال سے سیلاب کے تجربے سے گزرے ہیں ۔ ہمیں پتہ ہے کہ لوگوں کو سیلاب نے اتنا نہیں ڈبویا، جتنا سرکاری اہلکاروں کے رویے نے ڈبویا ہے۔سیلاب صرف پانی میں ڈوبنے کا نام نہیں، بلکہ سیلاب کے بعد جو مسائل جمن لیتے ہیں ان کا مقابلہ کرنا اتنا ہی ضروری ہے۔سیلاب کے متاثرین کو سب سے پہلے سر چھپانے کی محفوظ جگہ چہائے، اس کے بعد کھانا بھی چاہئے۔ 
سیلاب کے بعد جو امراض پھوٹ پڑتے ہیں انکا علاج بھی ضروری ہے۔ کہیں گیسٹرو، کہیں ملیریا تو کہیں چمڑی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ حکومتی ادارے متاثرین کی کتنی مؤثر مدد کر رہے ہیں؟ اس کا اندازہ وزیراعلیٰ کے رلیف سے متعلق مشیر کے رونے سے لگایا جاسکتا ہے ، جو متاثرین کی حالت زار دیکھ کر رو دیئے تھے۔کوئی بھی سرکاری اہلکار ایسی بات نہیں کرتا ہے جس سے حکومت کی ساکھ خراب ہو۔ظاہر ہے کہ جب انہوں نے ایسے حالات دیکھے اور سرکاری اہلکاروں کی بے حسی دیکھ کے رونا آگیا۔
یہ بات حکومت کی بے بسی اور بے حسی دونوں کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج لاکھوں افراد امداد کے منتظر ہیں جن کی وقت پر مدد نہ کی گئی تو انسانی سانحہ ہونے کا امکان ہے۔

20-9-12

No comments:

Post a Comment