سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ نامہ سہیل سانگی
بلدیاتی نظام, پیپلز پارٹی ایم کیو ایم معاہدہ, صوبے بھر میں ہڑتال, متروکہ املاک ٹرسٹ
سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا۔ صوبے کے بالائی حصے میں بارشوں نے تباہی مچا دی جس میں ابھی تک ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ شکارپور، جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے ضلع ہیڈکوارٹرز میں تین تین فٹ پانی کھڑا ہوگیا۔ ہزاروں مکانات مسمار ہوگئے۔ کروڑوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا۔ کراچی کی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس میں تین سو افراد جاں بحق ہوگئے۔
سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا۔ صوبے کے بالائی حصے میں بارشوں نے تباہی مچا دی جس میں ابھی تک ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ شکارپور، جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے ضلع ہیڈکوارٹرز میں تین تین فٹ پانی کھڑا ہوگیا۔ ہزاروں مکانات مسمار ہوگئے۔ کروڑوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا۔ کراچی کی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس میں تین سو افراد جاں بحق ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان
معاہدے کے نتیجے میں متنازع اور دہرا بلدیاتی نظام آڈیننس کے ذریعے نافذ
کیا گیا جس پر حکومت کی تین اتحادی جماعتوں مسلم لیگ فنکشنل، عوامی نیشنل
پارٹی اور نیشنیل پیپلز پارٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا اور حکومت سے علحدگی
اختیار کر لی۔ نہ صرف اتنا بلکہ ان جماعتوں نے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ
مل کر 13 ستمبر کو صوبے بھر میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔ ہڑتال کے اس اعلان
میں نواز لیگ بھی شامل تھی مگر ای روز قبل ہڑتال کی کال سے علحدگی اختیار
کر لی۔
نئے بلدیاتی نظام پر کامیاب ہڑتال ہوئی کاروبار بند رہا۔ صوبے بھر میں احتجاج ہوا۔ سندھ کے تمام اخبارات نے ان تینوں واقعات پر اداریے لکھے اور مختلف کام نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیے شایع کئے ہیں۔ ان کالم نگاروں نے بارش کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے بروقت ناتظام نہ کرنے پر تنقید کی ہے، جبکہ بلدیاتی نظام کی سندھ کی میڈیا نے متفقہ طور پر مخالفت کی ہے۔
روزنامہ عبرت نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ نئے نظام کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔ ایک طرف اس آرڈیننس کع سپریم کورٹ میں چیلینج کرکے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ یہ نظاک غیر منصفانہ ہے۔اور سندھ کی دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تضادات اور فاصلوں کو مزید بڑھانے کا بسب بنے گا۔یہ نظام دیہی اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دلانے میں ناکام رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کی شق نمبر 4، 5 A ، 25، 32، 140 کے خلاف ہے۔لہٰذا اس آرڈیننس کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جائے۔اخبار لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض وزراء نے قوم پرست جماعتوں کو تانگہ پارٹی کہہ کر م ان کے دباؤ میں نہ آنے کی بات کی ہے۔بلدیاتی نظام کا مسئلہ اپنی جگہ پر مگر جو اس حوالے سے زبان استعمال کی گئی ہے وہ مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھائے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے سندھ میں نہ صرف قوم پرستی وجود رکھتی ہے بلکہ قوم پرست جماعتوں کے حامی بھی لاکھوں میں ہیں۔اس کا ثبوت کراچی میں بشیرخان قریشی کی رہنمائی میں نکالی گئی ریلی ہے۔اس کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی جیت میں بھی قوم پرستی کا خاصا عمل دخل ہے۔لہٰذا اس طرح کی زبان استعمال کرکے لاکھوں لوگوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے محکمہ بین الصوبائی رابطہ نے خط لکھ کرصوبے کے تمام محکموں کو مطلع کیا گیا ہے کہ سندھ میں موجود متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیر انتظام دو ہزار سے زائد تاریخی عمارات جس میں شیوا کنج ہوسٹل، ہندو جیمخانہ، میٹھارام ہاسٹل، سمیت ساٹھ اہم مندروں ، ہاسٹلوں اور دوسری عمارتیں ایک بار پھر ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ی
ہ عمارتیں سندھ کی ہندو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلیے وقف تھیں مگر قیام پاکستان کے بعد حکومت نے ان تاریخی عمارتوں پر قبضہ کرکے کئی عمارتیں سرکاری محکموں کو الاٹ کرکے ان میں سرکاری دفاتر اور ہوسٹل قائم کیں۔ جب کہ بعض عمارتوں پر غیرقانونی قبضہ کرکے ان میں گھر قائم کئے گئے۔ بعض مندروں ،آتش کدوں، ریڈیو پاکستان کراچی کی بلڈنگ، رتن تلاؤ اور آرام باغ کے پاس موجود قدیم مندروں کو ذاتی یا سرکاری مقاصد کے لیے استعمال میں لایا گیا۔
اب ان عمارتوں کو ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے یہ عمارتیں ان کو عملی طور ملتی بھی ہیں یا نہیں۔ وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ نے لیٹر جاری کردیا ہے ۔ ان متروکہ املاک کے بارے میں فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے 6 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔
سندھ میں متروکہ املاک سے جو سلوک روا رکھا گیاجو کسی مخالف کے ساتھ بھی نہیں رکھا گیا۔ متروکہ املاک دراصل علاقے کے لوگوں اور عوام الناس کے لیے ہندو سیٹھوں نے وقف کی تھیں اور قیام پاکستان سے پہلے یہ جائداد ان ہی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں مگر بعدمیں متروکہ جائداد کو مال مفت سمجھا گیا۔
کراچی حیدرآباد اور دیگر کئی مقامات پر ہندوؤں کی تاریخی عمارتوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور ان کو گرا کر وہاں مکانات تعمیر کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ جب ہندوٗوں کی چھوڑی ہوئی املاک کو وفاقی حکومت کے محکمہ متروکہ املاک نے لوگوں کو لیز پر بھی دیا۔ متروکہاملاک ٹرسٹ کی جائداد صرف فلاحی مقاصد کے لیے ہوتی تھیں۔ کسی بھی فلاحی مقصد کے لیے مخصوص پلاٹ، زمین ،عمارتوں یا عبادت گاہوں کو نہ وفاقی حکومت کسی کو لیز کرنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ اختیارات سندھ حکومت کو حاصل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیرانتظام زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کئے گئے ہیں۔ اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے پنجاب میں متروکہاملاک کا معاملہ حل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کیا ہے۔
حکومت سندھ سندھ میں دو ہزار سے زائد متروکہاملاک جس میں عمارتیں ، ہوسٹلز ، منداور دیگر عبادت گاہیں شامل ہیں ان کو دوبارہ ہندو کمیونٹی اور ان کی تنظیموں کے حوالے کرنے کے فیصلہ ایک احسن قدم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج متروکہ املاک اور ان پر کئے گئے قبضے خالی کراکے ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے نہ کی گئیں تو ان عمارتوں کی نہ صرف تاریخی حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ ان پر مفاد پرست عناصر اور لینڈ مافیا قبضہ کر لے گی۔ اور ان فلاحی مقاصد کے لیے مخصوص کی گئی عمارتوں ، عبادت گاہوں اور زمینوں کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ کیونکہ ان تاریخی عمارتوں کی وہی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جو ان تاریخی عمارتوں اور املاک کے اصل مالک ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ہمارے پاس جگاڑی انفراسٹرکچر ہے اومعمولی بھی بارش ہوتی ہے تو شہروں خواہ دیہات کی حالت بری ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف اموات واقع ہوتی ہیں اور بچا کھچا انفرا سٹرکچر بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ بارشوں میں سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہوتا ہے۔ایسے مواقع پر حکومت اور انتظامیہ غائب ہوتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت انتظامات کرتے ہیں۔اگر حکومت انفرا اسٹرکچر کو ہی بہتر بنانے کی کوشش کرے تو ہم کئی تباہیوں سے بچ سکتے ہیں ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بارشوں سے قدیم تہذیب کی علامت موہن جو دڑو کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔اس تاریخی مقام کے مختلف حصوں میں پانی کھڑا ہے۔جس کی نکاسی نہیں ہوپائی ہے۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور انکے گرنے کا خطرہ ہے۔
روزنامہ کاوش’’ بارش میں مرنے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے سرکاری ادارے ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب لوگوں کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے تب سرکاری ادارے ان کی مدد کرنے کے بجائے مذاق اڑانے لگتے ہیں، لوگوں کا مذاق اڑانے کی باری ہر ادارے نے لی ہے۔ اس مرتبہ این ڈی ایم یعنی نیشنل ڈزاسٹر اتھارٹی کی تھی۔ جس کو حالیہ بارشوں میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد صرف چارنظر آئے۔
نادارا سے لیکر نیپرا تک اور پیمرا سے لیکر این ڈی ایم تک یہ اتھارٹیز اتنی بے رحم کیوں ہیں۔جن کو باقی تو سب کچھ نظر آتا ہے مگر عوام یا لوگ نظر نہیں آتے۔این ڈی ایم کا قیام ہی اس مقصد کے لیے لایا گیا ہے کہ یہ ادارہ کسی آفت کی صورتحال میں لوگوں کو رلیف پہنچائے اور ان کو بچانے کا بندوبست کرے۔متاثرہ لوگوں کو بچانا تو دور کی بات یہ ادارہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔این ڈی ایم کے سربراہ نے بارشوں سے پہلے شدید سیلاب کا خطرہ ظاہر کر کے حکومت سے خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا۔آج جب اتنی تباہی ہو چکی ہے تو انسانی جانیوں کے کم تعداد کیوں پیش کررہا ہے۔اس سوال کا جواب اتنا مشکل نہیں۔ کیونکہ اس ادارے کا فائدہ زیادہ نقصان دکھانے میں ہے ، انسانی جانیں ضایع ہونے کے اعداد وشمار میں نہیں۔
اس ادارے نے بڑی رقم کا مطالبہ بھی اس لیے کیا تھا کہکہانتظام کاری کے نام پر کچھ کمایا جائے۔بعض ایسے ادارے ہیں جن کو ایسے انتظامات کرنے ہیں کہ نقصانات نہ ہوں۔ مثلا محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اگر بہتر ہو تو کینالوں اور نہروں میں شگاف نہیں پڑیں گے۔ اگر شہری اداروں کی کارکردگی اچھی ہو تو گلیوں اور گھروں پانی کھڑا نہ ہو۔اگر افسر شاہی بہتر ہو تو بے گھر افراد یوں لاوارث اور پریشان نہ ہوں۔ان کے لیے کوئی کیمپ موجود ہو۔مگر یہ سب ادارے اور ان کے افسران اور کوئی بھی کام کر سکتے ہیں مگر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے جو عام لوگوں کے بھلے کا ہو،بعض ادارے ایسے ہیں جن کو کسی آفت کے آنے سے پہلے کردار ادا کرنا ہے۔
دوسری کیٹگری ان اداروں کی جن کو آفات آنے کے بعد انتظامات کرنے ہیں۔اس کیٹگری میں محکمہ رلیف، محکمہ بحالیات اور این ڈی ایم
شامل ہیں۔اتنے سارے محکمے اور ضلع انتظامیہ ہونے کے باوجود لوگوں کی حالت قابل رحم ہے۔
نئے بلدیاتی نظام پر کامیاب ہڑتال ہوئی کاروبار بند رہا۔ صوبے بھر میں احتجاج ہوا۔ سندھ کے تمام اخبارات نے ان تینوں واقعات پر اداریے لکھے اور مختلف کام نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیے شایع کئے ہیں۔ ان کالم نگاروں نے بارش کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے بروقت ناتظام نہ کرنے پر تنقید کی ہے، جبکہ بلدیاتی نظام کی سندھ کی میڈیا نے متفقہ طور پر مخالفت کی ہے۔
روزنامہ عبرت نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ نئے نظام کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔ ایک طرف اس آرڈیننس کع سپریم کورٹ میں چیلینج کرکے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ یہ نظاک غیر منصفانہ ہے۔اور سندھ کی دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تضادات اور فاصلوں کو مزید بڑھانے کا بسب بنے گا۔یہ نظام دیہی اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دلانے میں ناکام رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کی شق نمبر 4، 5 A ، 25، 32، 140 کے خلاف ہے۔لہٰذا اس آرڈیننس کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جائے۔اخبار لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض وزراء نے قوم پرست جماعتوں کو تانگہ پارٹی کہہ کر م ان کے دباؤ میں نہ آنے کی بات کی ہے۔بلدیاتی نظام کا مسئلہ اپنی جگہ پر مگر جو اس حوالے سے زبان استعمال کی گئی ہے وہ مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھائے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے سندھ میں نہ صرف قوم پرستی وجود رکھتی ہے بلکہ قوم پرست جماعتوں کے حامی بھی لاکھوں میں ہیں۔اس کا ثبوت کراچی میں بشیرخان قریشی کی رہنمائی میں نکالی گئی ریلی ہے۔اس کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی جیت میں بھی قوم پرستی کا خاصا عمل دخل ہے۔لہٰذا اس طرح کی زبان استعمال کرکے لاکھوں لوگوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے محکمہ بین الصوبائی رابطہ نے خط لکھ کرصوبے کے تمام محکموں کو مطلع کیا گیا ہے کہ سندھ میں موجود متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیر انتظام دو ہزار سے زائد تاریخی عمارات جس میں شیوا کنج ہوسٹل، ہندو جیمخانہ، میٹھارام ہاسٹل، سمیت ساٹھ اہم مندروں ، ہاسٹلوں اور دوسری عمارتیں ایک بار پھر ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ی
ہ عمارتیں سندھ کی ہندو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلیے وقف تھیں مگر قیام پاکستان کے بعد حکومت نے ان تاریخی عمارتوں پر قبضہ کرکے کئی عمارتیں سرکاری محکموں کو الاٹ کرکے ان میں سرکاری دفاتر اور ہوسٹل قائم کیں۔ جب کہ بعض عمارتوں پر غیرقانونی قبضہ کرکے ان میں گھر قائم کئے گئے۔ بعض مندروں ،آتش کدوں، ریڈیو پاکستان کراچی کی بلڈنگ، رتن تلاؤ اور آرام باغ کے پاس موجود قدیم مندروں کو ذاتی یا سرکاری مقاصد کے لیے استعمال میں لایا گیا۔
اب ان عمارتوں کو ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے یہ عمارتیں ان کو عملی طور ملتی بھی ہیں یا نہیں۔ وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ نے لیٹر جاری کردیا ہے ۔ ان متروکہ املاک کے بارے میں فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے 6 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔
سندھ میں متروکہ املاک سے جو سلوک روا رکھا گیاجو کسی مخالف کے ساتھ بھی نہیں رکھا گیا۔ متروکہ املاک دراصل علاقے کے لوگوں اور عوام الناس کے لیے ہندو سیٹھوں نے وقف کی تھیں اور قیام پاکستان سے پہلے یہ جائداد ان ہی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں مگر بعدمیں متروکہ جائداد کو مال مفت سمجھا گیا۔
کراچی حیدرآباد اور دیگر کئی مقامات پر ہندوؤں کی تاریخی عمارتوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور ان کو گرا کر وہاں مکانات تعمیر کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ جب ہندوٗوں کی چھوڑی ہوئی املاک کو وفاقی حکومت کے محکمہ متروکہ املاک نے لوگوں کو لیز پر بھی دیا۔ متروکہاملاک ٹرسٹ کی جائداد صرف فلاحی مقاصد کے لیے ہوتی تھیں۔ کسی بھی فلاحی مقصد کے لیے مخصوص پلاٹ، زمین ،عمارتوں یا عبادت گاہوں کو نہ وفاقی حکومت کسی کو لیز کرنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ اختیارات سندھ حکومت کو حاصل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیرانتظام زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کئے گئے ہیں۔ اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے پنجاب میں متروکہاملاک کا معاملہ حل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کیا ہے۔
حکومت سندھ سندھ میں دو ہزار سے زائد متروکہاملاک جس میں عمارتیں ، ہوسٹلز ، منداور دیگر عبادت گاہیں شامل ہیں ان کو دوبارہ ہندو کمیونٹی اور ان کی تنظیموں کے حوالے کرنے کے فیصلہ ایک احسن قدم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج متروکہ املاک اور ان پر کئے گئے قبضے خالی کراکے ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے نہ کی گئیں تو ان عمارتوں کی نہ صرف تاریخی حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ ان پر مفاد پرست عناصر اور لینڈ مافیا قبضہ کر لے گی۔ اور ان فلاحی مقاصد کے لیے مخصوص کی گئی عمارتوں ، عبادت گاہوں اور زمینوں کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ کیونکہ ان تاریخی عمارتوں کی وہی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جو ان تاریخی عمارتوں اور املاک کے اصل مالک ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ہمارے پاس جگاڑی انفراسٹرکچر ہے اومعمولی بھی بارش ہوتی ہے تو شہروں خواہ دیہات کی حالت بری ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف اموات واقع ہوتی ہیں اور بچا کھچا انفرا سٹرکچر بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ بارشوں میں سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہوتا ہے۔ایسے مواقع پر حکومت اور انتظامیہ غائب ہوتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت انتظامات کرتے ہیں۔اگر حکومت انفرا اسٹرکچر کو ہی بہتر بنانے کی کوشش کرے تو ہم کئی تباہیوں سے بچ سکتے ہیں ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بارشوں سے قدیم تہذیب کی علامت موہن جو دڑو کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔اس تاریخی مقام کے مختلف حصوں میں پانی کھڑا ہے۔جس کی نکاسی نہیں ہوپائی ہے۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور انکے گرنے کا خطرہ ہے۔
روزنامہ کاوش’’ بارش میں مرنے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے سرکاری ادارے ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب لوگوں کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے تب سرکاری ادارے ان کی مدد کرنے کے بجائے مذاق اڑانے لگتے ہیں، لوگوں کا مذاق اڑانے کی باری ہر ادارے نے لی ہے۔ اس مرتبہ این ڈی ایم یعنی نیشنل ڈزاسٹر اتھارٹی کی تھی۔ جس کو حالیہ بارشوں میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد صرف چارنظر آئے۔
نادارا سے لیکر نیپرا تک اور پیمرا سے لیکر این ڈی ایم تک یہ اتھارٹیز اتنی بے رحم کیوں ہیں۔جن کو باقی تو سب کچھ نظر آتا ہے مگر عوام یا لوگ نظر نہیں آتے۔این ڈی ایم کا قیام ہی اس مقصد کے لیے لایا گیا ہے کہ یہ ادارہ کسی آفت کی صورتحال میں لوگوں کو رلیف پہنچائے اور ان کو بچانے کا بندوبست کرے۔متاثرہ لوگوں کو بچانا تو دور کی بات یہ ادارہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔این ڈی ایم کے سربراہ نے بارشوں سے پہلے شدید سیلاب کا خطرہ ظاہر کر کے حکومت سے خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا۔آج جب اتنی تباہی ہو چکی ہے تو انسانی جانیوں کے کم تعداد کیوں پیش کررہا ہے۔اس سوال کا جواب اتنا مشکل نہیں۔ کیونکہ اس ادارے کا فائدہ زیادہ نقصان دکھانے میں ہے ، انسانی جانیں ضایع ہونے کے اعداد وشمار میں نہیں۔
اس ادارے نے بڑی رقم کا مطالبہ بھی اس لیے کیا تھا کہکہانتظام کاری کے نام پر کچھ کمایا جائے۔بعض ایسے ادارے ہیں جن کو ایسے انتظامات کرنے ہیں کہ نقصانات نہ ہوں۔ مثلا محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اگر بہتر ہو تو کینالوں اور نہروں میں شگاف نہیں پڑیں گے۔ اگر شہری اداروں کی کارکردگی اچھی ہو تو گلیوں اور گھروں پانی کھڑا نہ ہو۔اگر افسر شاہی بہتر ہو تو بے گھر افراد یوں لاوارث اور پریشان نہ ہوں۔ان کے لیے کوئی کیمپ موجود ہو۔مگر یہ سب ادارے اور ان کے افسران اور کوئی بھی کام کر سکتے ہیں مگر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے جو عام لوگوں کے بھلے کا ہو،بعض ادارے ایسے ہیں جن کو کسی آفت کے آنے سے پہلے کردار ادا کرنا ہے۔
دوسری کیٹگری ان اداروں کی جن کو آفات آنے کے بعد انتظامات کرنے ہیں۔اس کیٹگری میں محکمہ رلیف، محکمہ بحالیات اور این ڈی ایم
شامل ہیں۔اتنے سارے محکمے اور ضلع انتظامیہ ہونے کے باوجود لوگوں کی حالت قابل رحم ہے۔
14-09- 2012
No comments:
Post a Comment