Sindhi Press, Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ کے قلمکاروں کی کانفرنس ۔ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ، گنے کی قمیتیں
سندھ نامہ سہیل سانگی
9-11-2012
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں احتجاج جاری ہے۔ سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور دیگر قلمکاروں کی ایک کانفرنس حیدرآاباد میں منعقد ہوئی، جس میں دوہرے نظام کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبے کے قلمکاروں کی یہ کانفرنس اس احتجاج سے الگ ہے جو مختلف سیاسی جماعتیں چلا رہی ہیں۔سندھ کے مخلتف اضلاع میں قتل، اغوا، لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جس کو اخبارات نے اپنے صفحات کی زینت بنایا۔
روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ مائی کلاچ کی کل کائنات اور مورڑ و کے مسکن کراچی کو مقتل گاہ میں تبدیل کرنے کی کاروایاں بندنہیں ہوئی تھی کہ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ صرف چارروز میں دس افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ شہر میں غیر یقینی اور خوف کا راج ہے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لگتا ہے کہ ان قاتلوں کو سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے جو بیچ شہر میں لوگوں کو مار رہے ہیں ،مگر پولیس اور قانوں نافذ کرنے والوں کو نظر نہیں آتے ۔ ایک سندھ وہ ہے جہاں پر امن و امان حکمرانو ں کے بیانوں میں نظر آتا ہے، جہاں شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پے پانی پیتے لفظی تصویر میں دیکھایا جا رہا ہے۔ خوں اور بد امنی میں جلتے ہوئے سندھ کی راج دھانی میں حکومت دوربینی سے دیکھنے سے بھی نہیں ملتی ۔ریاست کی آنکھ اورکان سمجھے جانے والے ادارے اپنی سماعت اور بصارت کیسے کھو بیٹھے ہیں کہ ان کو لوگوں کو مارنے والا راکشس نظر کیوں نہیں آتا۔
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو امن و امان کی صورتحال پورے سندھ میں ٹھیک نہیں۔ مگر کراچی میں تو قانون اپنے وجود کی ثابتی دینے سے بھی قاصر ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ میں روزانہ ایک درجن افرادقتل کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں رینجر زاور پولیس بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ااب یہ سلسلہ حید آباد میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام ہو گئی ہے۔ چار دن سے جاری حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ اور بدامنی کو حکومت سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ۔ چوتھے روزنتظامیہ کو ہوش آیا اور اس نے موٹر سائیکل پربل سواری پے پابندی لگادی ۔یہ الگ بات ہے کہ اس حکم پر کتنا عمل ہوگا۔ سندھ میں امن دشمن مافیا اتنی طاقتور ہیں کہ وہ جب چاہیں،جہان چاہیں، جو چاہیں کر سکتی ہیں گزشتہ روز حیدرآباد میں دن بھر اور پھر رات کو بھی فائرنگ ہوتی رہی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس نے امن دشمنون کو گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں امن امان پے قابو پانا مشکل کام ہے مگر حیدرآباد جیسے چھوٹے شہر میں بھی حکومت نظر نہیں آتی۔ محرکات تو پتہ نہیں کیا ہیں مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے سندھ میں رینجرز صوبائی انتظامیہ کی معاونت کر رہی ہے ۔جب بھی اس کی واپسی کی بات ہوتی ہے سندھ بھر میں خاص طور پر بڑے شہروں میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امن دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے محرم الحرام کے اجتماعات کو دہشتگردی کا نشانہ بنا تے ہیں جاتا ہے۔ اب محرم میں چند روز باقی ہیں تو اس قسم کی کاروائی تشویشناک ہے۔
’’روزنامہ عوامی آواز‘‘ لکھتا ہے کہ ہر سال کی طرح رواں سال بھی سندھ کی شوگر ملوں نے ابھی تک گنے کی پیسائی شروع نہیں کی جسکی سب سے بڑی وجہ گنے کی قیمیوں پر عمل کرانا ہے۔ کاشتکار تنظیموں کا اصرار ہے کہ حکومت گنے کی قیمت300روپے فی من مقرر کرے۔شگر ملز کی تنظیم پاسما ابھی تک گنے کی قیمت مقرر نہیں کرا سکی ہے ۔جس کی وجہ سے شگر مل مالکاں اور کاشتکار اس معاملے پر الجھے ہوئے ہیں ۔
گنے کی قیمت مقررنہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک شگر ملز نے اینڈینٹ جاری نہیں کئے ہیں۔ سندھ میں شگر ملز مالکان بااثر شخصیات ہیں۔ اکثر مالکان حکومت میں شامل ہیں جس کی وجہ سے پاسما بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے ۔ ایہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ پاسما نے کاشتکاروں کو مالی فائدے دینے اوربہتر امدادی قیمت پر عمل درآمد کرانے کے بجاے شگر مل مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
قانون کے تحت شگر ملزکی چمنی اکتوبر میں جلانی ہے۔ اور نومبر کے پہلے ہفتے میں گنے کی پیسائی شروع کرنی ہے۔ مگررواں سال نومبر کے پہلے ہفتے میں چمنیاں جلی ہیں ان کے بوائلر کوگرم ہونے میں 20سے 25دن لگیں گے۔ شگر ملز مالکان کا رویہ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دسمبر بھی گذر جائیگا۔نومبر دسمبر کے دو مہینے گندم کی کاشت کے لیے اہم ہیں۔
اصولی طور گنے کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ہو جانی چاہیئے کیونکہ اس مدت میں بھر پور رس والا گنا شگر ملز کو ملتا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جائے گا گنا سوکھتا جائے گا اس صورت میں کاشتکاروں کا دو طرفہ نقصان ہو گا۔ ایک گنے کی بہتر پیداوار نہیں دے سکے گے دوسرا یہ کہ گنے کی کٹائی کے بعد گندم کے لیے زمیں کو تیار کرنے کے لیے 20سے25دن در کار ہوتے ہیں۔گنا دیر سے نکلے گا تو گندوم بھی دیر سے بوئی جائے گی۔ حکومت کو چاہے کہ شگر ملز مالکان کو شگر ایکٹ پر عمل درآمد کرائے اور مقرر وقت پر گنے کی امدادی قیمت مقرر کر کے گنے کی پیسائی شروع کرائی جائے۔
’’
روزنامہ سندھ ایکسپریس ‘‘لکھتا ہے کہ برسوں سے محرومی کا شکار سندھی سماج کا ایک مستقل المیہ پرانے جھگڑے ہیں جن کا آغاز انتہائی معمولی باتوں پر ہوتا ہے تھا مگر بعد میں یہ انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں گاؤں کے گاؤں اجڑ جاتے ہیں۔ نسلوں کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ ان تنازعات کے اسباب کیا ہیں ان کے حل کے لیے قانوں اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے کتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟ اس ا مر پہ غور کیا جائے تو مایوسی ہوگی۔
عملی طور ایسا لگتا ہے کہ برادری کی حاکمیت اور انتظامی طلسم کا کاروبار ایسے جھگڑوں پر ہی چلتا ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ علاقے میں موجود قانوں نافذ کرنے والے ادارے اورر انصاف گھروں کی موجودگی میں معاملات چنگاری سے شعلہ بن جاتے ہیں۔ لوگ بات چیت کے بجائے بندوق سے معاملات حل کرکے اپنی زندگیاں زہر بناتے ہیں۔
سکھر کے علاقے میں لکھن برادری میں پرانا جھگڑا بھڑک اٹھا ہے۔سندھی قوم کی اپنے ہی ہاتھوں یہ نسل کشی کچھ نہیں چھوڑے گی۔لکھن برادری کا یہ جھگڑا 1975 میں شروع ہوا تھاوہ اب تک ایک عورت سمیت دس افراد کی جان لے چکا ہے۔ زمین کی ملکیت پر یہ تکرار شروع ہوا تھا جس کا فیصلہ 37 سال میں بھی نہیں ہو سکا۔ ہم سندھ کو اجاڑنے والے اس مظہر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں اورقانوں اور
انصاف مہیا کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان تنازعوں کو ختم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کریں۔
Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi
9-11-2012
سندھ کے قلمکاروں کی کانفرنس ۔ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ، گنے کی قمیتیں
سندھ نامہ سہیل سانگی
9-11-2012
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں احتجاج جاری ہے۔ سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور دیگر قلمکاروں کی ایک کانفرنس حیدرآاباد میں منعقد ہوئی، جس میں دوہرے نظام کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبے کے قلمکاروں کی یہ کانفرنس اس احتجاج سے الگ ہے جو مختلف سیاسی جماعتیں چلا رہی ہیں۔سندھ کے مخلتف اضلاع میں قتل، اغوا، لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جس کو اخبارات نے اپنے صفحات کی زینت بنایا۔
روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ مائی کلاچ کی کل کائنات اور مورڑ و کے مسکن کراچی کو مقتل گاہ میں تبدیل کرنے کی کاروایاں بندنہیں ہوئی تھی کہ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ صرف چارروز میں دس افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ شہر میں غیر یقینی اور خوف کا راج ہے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لگتا ہے کہ ان قاتلوں کو سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے جو بیچ شہر میں لوگوں کو مار رہے ہیں ،مگر پولیس اور قانوں نافذ کرنے والوں کو نظر نہیں آتے ۔ ایک سندھ وہ ہے جہاں پر امن و امان حکمرانو ں کے بیانوں میں نظر آتا ہے، جہاں شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پے پانی پیتے لفظی تصویر میں دیکھایا جا رہا ہے۔ خوں اور بد امنی میں جلتے ہوئے سندھ کی راج دھانی میں حکومت دوربینی سے دیکھنے سے بھی نہیں ملتی ۔ریاست کی آنکھ اورکان سمجھے جانے والے ادارے اپنی سماعت اور بصارت کیسے کھو بیٹھے ہیں کہ ان کو لوگوں کو مارنے والا راکشس نظر کیوں نہیں آتا۔
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو امن و امان کی صورتحال پورے سندھ میں ٹھیک نہیں۔ مگر کراچی میں تو قانون اپنے وجود کی ثابتی دینے سے بھی قاصر ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ میں روزانہ ایک درجن افرادقتل کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں رینجر زاور پولیس بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ااب یہ سلسلہ حید آباد میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام ہو گئی ہے۔ چار دن سے جاری حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ اور بدامنی کو حکومت سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ۔ چوتھے روزنتظامیہ کو ہوش آیا اور اس نے موٹر سائیکل پربل سواری پے پابندی لگادی ۔یہ الگ بات ہے کہ اس حکم پر کتنا عمل ہوگا۔ سندھ میں امن دشمن مافیا اتنی طاقتور ہیں کہ وہ جب چاہیں،جہان چاہیں، جو چاہیں کر سکتی ہیں گزشتہ روز حیدرآباد میں دن بھر اور پھر رات کو بھی فائرنگ ہوتی رہی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس نے امن دشمنون کو گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں امن امان پے قابو پانا مشکل کام ہے مگر حیدرآباد جیسے چھوٹے شہر میں بھی حکومت نظر نہیں آتی۔ محرکات تو پتہ نہیں کیا ہیں مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے سندھ میں رینجرز صوبائی انتظامیہ کی معاونت کر رہی ہے ۔جب بھی اس کی واپسی کی بات ہوتی ہے سندھ بھر میں خاص طور پر بڑے شہروں میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امن دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے محرم الحرام کے اجتماعات کو دہشتگردی کا نشانہ بنا تے ہیں جاتا ہے۔ اب محرم میں چند روز باقی ہیں تو اس قسم کی کاروائی تشویشناک ہے۔
’’روزنامہ عوامی آواز‘‘ لکھتا ہے کہ ہر سال کی طرح رواں سال بھی سندھ کی شوگر ملوں نے ابھی تک گنے کی پیسائی شروع نہیں کی جسکی سب سے بڑی وجہ گنے کی قیمیوں پر عمل کرانا ہے۔ کاشتکار تنظیموں کا اصرار ہے کہ حکومت گنے کی قیمت300روپے فی من مقرر کرے۔شگر ملز کی تنظیم پاسما ابھی تک گنے کی قیمت مقرر نہیں کرا سکی ہے ۔جس کی وجہ سے شگر مل مالکاں اور کاشتکار اس معاملے پر الجھے ہوئے ہیں ۔
گنے کی قیمت مقررنہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک شگر ملز نے اینڈینٹ جاری نہیں کئے ہیں۔ سندھ میں شگر ملز مالکان بااثر شخصیات ہیں۔ اکثر مالکان حکومت میں شامل ہیں جس کی وجہ سے پاسما بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے ۔ ایہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ پاسما نے کاشتکاروں کو مالی فائدے دینے اوربہتر امدادی قیمت پر عمل درآمد کرانے کے بجاے شگر مل مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
قانون کے تحت شگر ملزکی چمنی اکتوبر میں جلانی ہے۔ اور نومبر کے پہلے ہفتے میں گنے کی پیسائی شروع کرنی ہے۔ مگررواں سال نومبر کے پہلے ہفتے میں چمنیاں جلی ہیں ان کے بوائلر کوگرم ہونے میں 20سے 25دن لگیں گے۔ شگر ملز مالکان کا رویہ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دسمبر بھی گذر جائیگا۔نومبر دسمبر کے دو مہینے گندم کی کاشت کے لیے اہم ہیں۔
اصولی طور گنے کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ہو جانی چاہیئے کیونکہ اس مدت میں بھر پور رس والا گنا شگر ملز کو ملتا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جائے گا گنا سوکھتا جائے گا اس صورت میں کاشتکاروں کا دو طرفہ نقصان ہو گا۔ ایک گنے کی بہتر پیداوار نہیں دے سکے گے دوسرا یہ کہ گنے کی کٹائی کے بعد گندم کے لیے زمیں کو تیار کرنے کے لیے 20سے25دن در کار ہوتے ہیں۔گنا دیر سے نکلے گا تو گندوم بھی دیر سے بوئی جائے گی۔ حکومت کو چاہے کہ شگر ملز مالکان کو شگر ایکٹ پر عمل درآمد کرائے اور مقرر وقت پر گنے کی امدادی قیمت مقرر کر کے گنے کی پیسائی شروع کرائی جائے۔
’’
روزنامہ سندھ ایکسپریس ‘‘لکھتا ہے کہ برسوں سے محرومی کا شکار سندھی سماج کا ایک مستقل المیہ پرانے جھگڑے ہیں جن کا آغاز انتہائی معمولی باتوں پر ہوتا ہے تھا مگر بعد میں یہ انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں گاؤں کے گاؤں اجڑ جاتے ہیں۔ نسلوں کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ ان تنازعات کے اسباب کیا ہیں ان کے حل کے لیے قانوں اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے کتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟ اس ا مر پہ غور کیا جائے تو مایوسی ہوگی۔
عملی طور ایسا لگتا ہے کہ برادری کی حاکمیت اور انتظامی طلسم کا کاروبار ایسے جھگڑوں پر ہی چلتا ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ علاقے میں موجود قانوں نافذ کرنے والے ادارے اورر انصاف گھروں کی موجودگی میں معاملات چنگاری سے شعلہ بن جاتے ہیں۔ لوگ بات چیت کے بجائے بندوق سے معاملات حل کرکے اپنی زندگیاں زہر بناتے ہیں۔
سکھر کے علاقے میں لکھن برادری میں پرانا جھگڑا بھڑک اٹھا ہے۔سندھی قوم کی اپنے ہی ہاتھوں یہ نسل کشی کچھ نہیں چھوڑے گی۔لکھن برادری کا یہ جھگڑا 1975 میں شروع ہوا تھاوہ اب تک ایک عورت سمیت دس افراد کی جان لے چکا ہے۔ زمین کی ملکیت پر یہ تکرار شروع ہوا تھا جس کا فیصلہ 37 سال میں بھی نہیں ہو سکا۔ ہم سندھ کو اجاڑنے والے اس مظہر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں اورقانوں اور
انصاف مہیا کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان تنازعوں کو ختم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کریں۔
Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi
9-11-2012
No comments:
Post a Comment