سندھ نامہ: محکمہ
تعلیم میںجعلی بھرتی, کرا چی جاری دہشتگردی
اور ٹارگیٹ کلنگ. امریکہ کی
20ریاستوں کی وفاق سے علحدہ ہونے کے لیے پٹیشنز
سہیل سانگی
16-11- 2012
16-11- 2012
سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ دوسری
طرف کراچی میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے جس پر تمام سیاسی،
مذہبی اور تجارتی و سماجی حلقے تشویش کا اظہار رک رہے ہیں۔
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ جیکب آباد میں محکمہ تعلیم میں تیں ہزار جعلی بھرتیوں کے معاملے کا ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی او تعلیم کو طلب کر لیا ۔ ڈی او اتنی بڑی تعدادمیں جعلی تقرر نامے جاریہونے کا اطمینان بخش جواب نہیں دے پائے۔ ڈی سی کا کہنا ہے کہ چند روز میں ہی یہ تقرر نامے منسوخ کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جائیگا۔ جیسی ہوا چلے گی ایسے کام ہونگے۔ محکمہ تعلیم کے افسر نے بھی ایسا ہی کیا۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ میں ملازمتیں بیچی جا رہی ہیں۔ یہ ایک اچھا کاروبار بن گیاہے۔ اس کاروبارکا آغاز موجودہ حکومت کی اہم شخصیات نے کیا۔ اس کے بعد ساری ڈیل ان کے کچھ کوآرڈینٹر، مشیر ، پی اے وغیرہ کر رہے ہیں۔ گذیشتہ پانچ برسوں میں ملازمتیں بیچنا انڈسٹری بن گئی ہے۔
ہمیں اس پرا عتراض نہیں کے سندھ کی عوام کو نوکریاں نہ ملیں مسئلہ یہ ہے کہ اصل حقدار کو نہیں ملتی اس بات پرا عتراض ہے ۔ ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملتی بلکہ بیچی جاتی ہیں۔ جیکب آباد کے محکمہ تعلیم میں تیں ہزارتقررنامے جاری ہونا کوئی کم کرپشن نہیں ۔ ڈی او سطح کا کوئی افسر اگر نوکریاں بیچتا ہے تو اس کو اس بات کا پتا ہے کہ اوپر تک یہ کاروبار چل رہا ہے۔ا گر انکوئری ہوئی تولین دین کر کے کر کے معاملا رفادفعا ہو جائیگا۔ کرپشن کے اس بدترین شکل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا۔ خدارا ذرا سوچو جن لوگوں کو تعلعم جیسے محکمے میں پیسوں کے بدلے نوکری ملے گی وہ ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ کیا حشرکرے گا؟
جیکب آباد میں جعلی آڈر کا ایک کیس ظاہر ہوا ہے نہ جانے دوسرے اضلاع میں ایسے کتنے کیس ہونگے جو اب تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ ہم گزارش کرتے ہیں کے فوری طور پر سندھ بھرمیں محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور پیسوں کے بدلے کی گئی بھرتیوں کا نوٹس لیا جائے ۔
’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ انسانی خون دہشتگردی کی ڈائن کے منہ کو ایسا لگا ہے کہ کرا چی میں دن بہ دن لوگوں کو مارنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ یا اور اہم چوراہوں پر پولیس کی غیر موجودگی پر غصے کا اظہار کرتے کہا کہ پولیس اور رینجرز کی ذمہ داری پرٹوکول نہیں بلکہ لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت ہے۔ عرصے سے کراچی بیروت بنا ہوا ہے۔ صوبائی داروالخلافہ میں انتظامی افسران اور حکومتی اہلکاروں کی بیان بازی اور دعوؤں کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا ۔
سندھ پولیس کے سربراہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو محرم الحرام کے دوراں فرقیوارانہ فسادات کرانے کی سازش قرار دے کر خود کو ان ذمہ اریوں سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی میں جتنی تعداد میں رینجرز اور پولیس نفری تعینات کی گئی ہے اتنی تعداد دہشتگردوں کی نہیں ہو گی۔ رینجرزاور پولیس کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ہے۔
بات صاف ہے صرف انتظامی سکے ہی کھوٹے نہیں ،قانون نافذ کرنے والوں کی نیت میں بھی رولا ہے ۔تبھی تو قانوں کے محافظ شہر کی شاہراؤں اور چوراہوں سے غائب ہیں۔ اگر منتظمیں اپنے گھروں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر شان بی نیازی سے نظر ڈالتے توان کو گڈ گورنس کی دعوا کا پتا چلتا۔سندھ میں یہ پریکٹس دیکھنے میں آئی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی ایک بڑی نفری وی وی آئی پیز کے پرٹوکول میں مصروف رہتی ہے۔ ان وی آئی پیز کے پاس اپنے باڈی بھی ہوتے ہیں۔ مگرعوام کی حفاظت کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے ۔قانون کے پہرے میں چلنے والے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے تقریریں کرنے والے یہ کہ سکتے ہیں کہ سندھ بدامنی سے پاک ہے۔ مگر عوام تو گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
منتظمیں کے دعوے پر یقیں کیسے کیا جائے؟ کراچی میں لاقانونیت کی حد ہے۔ قانوں پر عمل کرنے والے اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ کراچی میں جاری دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ پرہمیں تشویش ہے۔ لوگ دہشتگردوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ریاست کو چاہئے کہ ان کاتحفظ کرے،کراچی میں جاری قتل و غارت کو بندکیا جائے۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟۔
سجاد نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھا تھاجس میں اس نے لکھا کہ’’ ظالم مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں۔ امی مجھے معاف کر دینا ان ظالموں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے میں خود کو زندہ جلا رہا ہوں امی جان میں جانتا ہوں اسلام میں خودکشی حرام ہے امی میری بخشش کے لیے دعا کرنا اماں میں تم کو روتا نہیں دیکھ سکتا میری قبر میرے ابو کی قبر کے قدموں میں بنائی جائے میری بہن عذرا کی شادی اس کی مرضی سے کی جائے‘‘۔
یہ خط اس نے خودسوزی سے پہلے اپنے ہاتھوں سے لکھا۔اصل میں یہ ایک قتل ہے اس لیے کہ اس معصوم کی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ وہ پڑھائی میں بھی اچھا تھا اگر اس کے ساتھ زیادتی نہ ہو تی اس کو بلیک میل نہ کیا جاتا تو وہ کبھی خودکشی نہیں کرتا۔ اس کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچیں۔ گزشتہ سال بھی ایسا واقعہ تھر پارکر میں رونما ہوا تھاایک لڑکے کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کو شاید یہ پتا نہیں تھا کی اس کی وڈیو بھری جارہی ہے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس کے دوستوں نے وہ وڈیو یوٹیوب پے رکھ دی۔ پھر فیس بک پر شیئر کردی۔ جن لوگوں نے یہ وڈیو بنائی وہ اس میں نظر بھی آرہے ہیں مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی ۔جو لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے زیادتی کرکے وڈیو بناتے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے بارک اوبامہ کے دوبارہ صدر بننے پرامریکہ کی 20ریاستوں کے بشندوں نے وفاق سے علحدہ ہونے کے لیے پٹیشنز داخل کی ہیں۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت کی پالیسیاں ان ریاستوں کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لیے بہتر نہیں ہیں، اس لیے وہ وفاق کے ساتھ مزیدوقت نہیں چل سکتے۔ انہوں نے پر امن طریقے سے الگ حکومت قائم کرکے دینے کی اپیل کی ہے ۔ پٹیشن داخل کروانے والی ریاستوں میں ارزیانا کے علاوہ فلوریڈا،جارجیا ،الاباما،جنوبی کیرلینا،کینٹ کی،انڈیانا،شمالی ڈکوٹا،مونٹانا،کولوراڈو سمیت دیگر ریاستیں ہیں ۔
یاد رہے کہ 1776میں آزادی کے وقت عوام کو یہ حق دیا گیا تھاکہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں علحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس درخواست پر 25ہزار لوگوں نے دستخط کئے ہیں۔ یہ خبر کتنی سنجیدگی کی حامل ہے آئندہ چند دنوں میں پتا لگ جائے گا ۔ وہاں کی عوام ابھی سینڈی کو بھولے نہیں ۔ اوباما کے لیے نئے چیلینج نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ علحدگی کے مطالبے ایسے ریاستوں سے آرہے ہیں جہاں رومنی کے حمایتی زیادہ تھے۔ یہ بات بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ مستقبل میں و ہی ملک اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے جو معاشی طور مستحکم ہونگے اس لیے ہار اور جیت کا فیلصلہ ہتھیار نہیں بلکہ معاشی وسائل ہونگے۔
16-11- 2012
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ جیکب آباد میں محکمہ تعلیم میں تیں ہزار جعلی بھرتیوں کے معاملے کا ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی او تعلیم کو طلب کر لیا ۔ ڈی او اتنی بڑی تعدادمیں جعلی تقرر نامے جاریہونے کا اطمینان بخش جواب نہیں دے پائے۔ ڈی سی کا کہنا ہے کہ چند روز میں ہی یہ تقرر نامے منسوخ کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جائیگا۔ جیسی ہوا چلے گی ایسے کام ہونگے۔ محکمہ تعلیم کے افسر نے بھی ایسا ہی کیا۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ میں ملازمتیں بیچی جا رہی ہیں۔ یہ ایک اچھا کاروبار بن گیاہے۔ اس کاروبارکا آغاز موجودہ حکومت کی اہم شخصیات نے کیا۔ اس کے بعد ساری ڈیل ان کے کچھ کوآرڈینٹر، مشیر ، پی اے وغیرہ کر رہے ہیں۔ گذیشتہ پانچ برسوں میں ملازمتیں بیچنا انڈسٹری بن گئی ہے۔
ہمیں اس پرا عتراض نہیں کے سندھ کی عوام کو نوکریاں نہ ملیں مسئلہ یہ ہے کہ اصل حقدار کو نہیں ملتی اس بات پرا عتراض ہے ۔ ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملتی بلکہ بیچی جاتی ہیں۔ جیکب آباد کے محکمہ تعلیم میں تیں ہزارتقررنامے جاری ہونا کوئی کم کرپشن نہیں ۔ ڈی او سطح کا کوئی افسر اگر نوکریاں بیچتا ہے تو اس کو اس بات کا پتا ہے کہ اوپر تک یہ کاروبار چل رہا ہے۔ا گر انکوئری ہوئی تولین دین کر کے کر کے معاملا رفادفعا ہو جائیگا۔ کرپشن کے اس بدترین شکل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا۔ خدارا ذرا سوچو جن لوگوں کو تعلعم جیسے محکمے میں پیسوں کے بدلے نوکری ملے گی وہ ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ کیا حشرکرے گا؟
جیکب آباد میں جعلی آڈر کا ایک کیس ظاہر ہوا ہے نہ جانے دوسرے اضلاع میں ایسے کتنے کیس ہونگے جو اب تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ ہم گزارش کرتے ہیں کے فوری طور پر سندھ بھرمیں محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور پیسوں کے بدلے کی گئی بھرتیوں کا نوٹس لیا جائے ۔
’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ انسانی خون دہشتگردی کی ڈائن کے منہ کو ایسا لگا ہے کہ کرا چی میں دن بہ دن لوگوں کو مارنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ یا اور اہم چوراہوں پر پولیس کی غیر موجودگی پر غصے کا اظہار کرتے کہا کہ پولیس اور رینجرز کی ذمہ داری پرٹوکول نہیں بلکہ لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت ہے۔ عرصے سے کراچی بیروت بنا ہوا ہے۔ صوبائی داروالخلافہ میں انتظامی افسران اور حکومتی اہلکاروں کی بیان بازی اور دعوؤں کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا ۔
سندھ پولیس کے سربراہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو محرم الحرام کے دوراں فرقیوارانہ فسادات کرانے کی سازش قرار دے کر خود کو ان ذمہ اریوں سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی میں جتنی تعداد میں رینجرز اور پولیس نفری تعینات کی گئی ہے اتنی تعداد دہشتگردوں کی نہیں ہو گی۔ رینجرزاور پولیس کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ہے۔
بات صاف ہے صرف انتظامی سکے ہی کھوٹے نہیں ،قانون نافذ کرنے والوں کی نیت میں بھی رولا ہے ۔تبھی تو قانوں کے محافظ شہر کی شاہراؤں اور چوراہوں سے غائب ہیں۔ اگر منتظمیں اپنے گھروں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر شان بی نیازی سے نظر ڈالتے توان کو گڈ گورنس کی دعوا کا پتا چلتا۔سندھ میں یہ پریکٹس دیکھنے میں آئی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی ایک بڑی نفری وی وی آئی پیز کے پرٹوکول میں مصروف رہتی ہے۔ ان وی آئی پیز کے پاس اپنے باڈی بھی ہوتے ہیں۔ مگرعوام کی حفاظت کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے ۔قانون کے پہرے میں چلنے والے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے تقریریں کرنے والے یہ کہ سکتے ہیں کہ سندھ بدامنی سے پاک ہے۔ مگر عوام تو گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
منتظمیں کے دعوے پر یقیں کیسے کیا جائے؟ کراچی میں لاقانونیت کی حد ہے۔ قانوں پر عمل کرنے والے اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ کراچی میں جاری دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ پرہمیں تشویش ہے۔ لوگ دہشتگردوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ریاست کو چاہئے کہ ان کاتحفظ کرے،کراچی میں جاری قتل و غارت کو بندکیا جائے۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟۔
سجاد نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھا تھاجس میں اس نے لکھا کہ’’ ظالم مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں۔ امی مجھے معاف کر دینا ان ظالموں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے میں خود کو زندہ جلا رہا ہوں امی جان میں جانتا ہوں اسلام میں خودکشی حرام ہے امی میری بخشش کے لیے دعا کرنا اماں میں تم کو روتا نہیں دیکھ سکتا میری قبر میرے ابو کی قبر کے قدموں میں بنائی جائے میری بہن عذرا کی شادی اس کی مرضی سے کی جائے‘‘۔
یہ خط اس نے خودسوزی سے پہلے اپنے ہاتھوں سے لکھا۔اصل میں یہ ایک قتل ہے اس لیے کہ اس معصوم کی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ وہ پڑھائی میں بھی اچھا تھا اگر اس کے ساتھ زیادتی نہ ہو تی اس کو بلیک میل نہ کیا جاتا تو وہ کبھی خودکشی نہیں کرتا۔ اس کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچیں۔ گزشتہ سال بھی ایسا واقعہ تھر پارکر میں رونما ہوا تھاایک لڑکے کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کو شاید یہ پتا نہیں تھا کی اس کی وڈیو بھری جارہی ہے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس کے دوستوں نے وہ وڈیو یوٹیوب پے رکھ دی۔ پھر فیس بک پر شیئر کردی۔ جن لوگوں نے یہ وڈیو بنائی وہ اس میں نظر بھی آرہے ہیں مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی ۔جو لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے زیادتی کرکے وڈیو بناتے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے بارک اوبامہ کے دوبارہ صدر بننے پرامریکہ کی 20ریاستوں کے بشندوں نے وفاق سے علحدہ ہونے کے لیے پٹیشنز داخل کی ہیں۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت کی پالیسیاں ان ریاستوں کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لیے بہتر نہیں ہیں، اس لیے وہ وفاق کے ساتھ مزیدوقت نہیں چل سکتے۔ انہوں نے پر امن طریقے سے الگ حکومت قائم کرکے دینے کی اپیل کی ہے ۔ پٹیشن داخل کروانے والی ریاستوں میں ارزیانا کے علاوہ فلوریڈا،جارجیا ،الاباما،جنوبی کیرلینا،کینٹ کی،انڈیانا،شمالی ڈکوٹا،مونٹانا،کولوراڈو سمیت دیگر ریاستیں ہیں ۔
یاد رہے کہ 1776میں آزادی کے وقت عوام کو یہ حق دیا گیا تھاکہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں علحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس درخواست پر 25ہزار لوگوں نے دستخط کئے ہیں۔ یہ خبر کتنی سنجیدگی کی حامل ہے آئندہ چند دنوں میں پتا لگ جائے گا ۔ وہاں کی عوام ابھی سینڈی کو بھولے نہیں ۔ اوباما کے لیے نئے چیلینج نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ علحدگی کے مطالبے ایسے ریاستوں سے آرہے ہیں جہاں رومنی کے حمایتی زیادہ تھے۔ یہ بات بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ مستقبل میں و ہی ملک اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے جو معاشی طور مستحکم ہونگے اس لیے ہار اور جیت کا فیلصلہ ہتھیار نہیں بلکہ معاشی وسائل ہونگے۔
16-11- 2012
No comments:
Post a Comment