Monday, March 26, 2018

کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے؟ Dec 30

Dec 30
کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے؟
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”سراپا احتجاج سندھ اور احساس برتری میں مبتلا حکومت“ کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی خواہ صوبائی حکومتوں کی آئینی مدت مکمل ہونے میں چند ماہ باقی ہیں۔ جس کے بعد حکومت کی انتظام کاری نگراں سیٹ اپ کو مل جائے گی۔ اور ملک کی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مصروف ہو جائیں گی۔ انتخابی مہم کا وقت ایک دوسرے کے احتساب کے دن ہونگے۔ خاص طور پر مخالف جماعتیں حکمران جامعتوں کے کچے چٹھے عوام میں لے آئیں گے۔ اگرچہ اس کام کا آغاز انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے ہو چکا ہے۔ حکمران جماعتوں پر جو تنقید کے تیر برسائے جائیں گے ان سے بچنے کے لئے ان جماعتوں اپنے تئیں بندوبست کر رکھے ہیں۔ حالیہ صورتحال بتاتی ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت نواز لیگ سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ سندھ میں گزشتہ دس سال سے حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی کو بظاہر کسی بڑے چلینج کا سامنا نہیں۔لیکن حالات مکمل طور پر اس کے حق میں بھی نہیں ہونگے۔ ماضی کے قصے بھلے عوام بھلا بھی دے، لیکن حال ہی میں جو احتجاج ہوئے رہے ہیں اور حکومت کے خلاف جو شکایات آرہی ہیں وہ انتخابات پر یقیننا اثرانداز ہونگی۔ خاص طور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے عدالتی ریمارکس اور ہدایات اور اس معاملے پر حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر حکومت اس الزام سے خود کو کسی طرح سے بری کر لیتی ہے تو گنے کے کاشتکاروں کا احتجاج کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا۔ 
اگرچہ عدالت نے گنے کی قیمت مقرر کردی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ شگر مل مالکان اس پر عمل درآمد کرتے ہیں یا پسائی کا عمل روک کر ملیں بند کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ برادری بھی آج کل سڑکوں پر ہے۔ 10 دسمبر کوبھٹ شاہ سے شروع ہونے والا مارچ ایک دو رز میں کراچی پہنچنے والا ہے۔ جہاں پر حکومت کی جانب سے میزبانی قابل دید ہوگی۔ ماضی میں جس طرح سے اساتذہ کےساتھ جو سلوک کیا گیا اگر اسی رویے کو دہرایا گیا تو ساتذہ طبقے کے پاس حکومت کے خلاف غصہ جمع ہونا یقینی ہو جائے گا۔ اسی طرح محکمہ آبپاشی کے ملازمین بھی لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ اتنے سارے مسائل اور احتجاجوں کے باوجود حکومت سندھ کو کوئی پریشانی نہیں۔ یہ احساس برتری ہے یا عوام سے عدم دلچسپی؟ یہ تمام معملات جمع ہو کر حکومت کے لئے کسی بڑے خطرے کا سسب بن سکتے ہیں۔ اس صورتحال کو پیپلزپارٹی کی حکومت کس طرح سے مقابلہ کرے گی؟ فی الحال یہی لگتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت نے ان مسائل پر سنیجدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔ 
خواہ پیپلزپارٹی کے خلاف کوئی بڑا سیاسی محاذ موجود نہ ہو لیکن مسائل کو سلجھانے میں غیر سنجیدگی اس کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سندھ میں ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ اغوا کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پارٹی قیادت صوبے کی صورتحال پر پارٹی کو سنیجدگی اختیار کرے اور فوری اقدامات کرے۔ 
روزنامہ کاوش ”صرف تحقیقاتی کمیٹیوں سے کرپشن نہیں رکتی“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ویسے تو کرپشن ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے لیکن سندھ کے اداروں کو مکمل طور پر سرایت کر چکی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب عجب کرپشن کی غضب کہانیاں میڈیا میں رپورٹ نہ ہوتی ہوں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ قائدعوام یونیورسٹی نواب شاہ کے بارے میں شایع ہوئی ہے۔ جہاں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ سے جاری منصوبوں کے ٹیکٹیکل سامان کی خریداری میں بیس کروڑ روپے کے غبن کے خلاف ٹیکسیلا انجنیئرنگ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ حکومت سندھ کی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں میں بھی غبن کی خبریں آچکی ہیں۔ لیکن سندھ کے صاحب لوکوں نے اس کرپشن کی تحقیقات کے لئے کوئی تحرک نہیں لیا ہے۔ 
 مختلف وتقں میں سندھ کی مختلف پہچان رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھ کے بافتہ سازی یہاں کے ہنرمندوں کی وجہ سے ولایت میں مشہور تھی۔ دوسرے زمانے میں سندھ کا صوفیانہ مزاج یہاں کی پہچان بنا۔ آج کل وہ زمانہ ہے کہ کرپشن سندھ کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ آمریت کے زمانے میں پیدا ہونے والی اس وبا کے خاتمے کی کوشش کرنے کے بجائے ہر دور میں کرپشن کو پرون چڑھانے کے لئے بد انتظامی کے ذریعے سازگار ماحول بنایا گیا۔ یہاں اداروں کے سربراہان کے تقرر کا شاید ایک ہی معیار ہے کہ ان کا نظام ہاضمہ کتنا فعال اور موثر ہے؟ کیا وہ لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں؟ سندھ میں کرپشن کا بول بالا ہے۔ کرپشن اب کوئی جرم نہیں بلکہ حق سمجھا جاتا ہے۔ کرپشن کو روکنے کے ذمہ دار ادارے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کرپشن کے خاتمے کا تصور فضول سا لگتا ہے۔ ایسے سماجوں کو اصلاحات کے بجائے اوور ہالنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اوور ہالنگ تب ممکن ہے جب حکمران اس بارے میں مخلص ہوں۔ باقی کرپشن ظاہر ہونے کے بعد کمیٹیاں بنا کر یہ محسوس کرانا کہ ” ناسور کے خاتمے ے لئے لگے ہوئے ہیں“۔ اس سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ کرپشن کیسے ختم ہوگی جب حکمرانوں کے پاس اس کے سدباب کا واحد راستہ کمیٹی بنانا ہو؟ 
کرپشن کے خاتمے کی اولین شرط یہ ہے کہ یہ عمل نمائشی نہ ہو۔ ایک ادرے کے سربراہ کی ایمانداری سے بھی بہت بڑا فرق پڑتا ہے ، شرط یہ ہے کہ اس کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی مداخلت نہ کی جائے۔ یہاں موجودہ آئی جی سندھ پولیس کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جس نے بعض بہتر انتظامی کوششیں کی ہیں۔ مگر انہیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنے ادارے میں کرپشن کو قریب پھٹکنے ہی نہیں دیا۔ ایک فرد، جی ہاں ایک فرد اگر سچائی کے ساتھ کھڑا ہو، بہت کچھ کرسکتا ہے۔ کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے کہ اداروں کو چلانے کے لئے ادیب رضوی جیسے چند لوگ بھی نہیں مل رہے ہیں۔ یقیننا ایسا نہیں ہے۔ اصل میں منتظمین کی یہ ضرورت اور ترجیح ہی نہیں۔ جب کرپشن کی کوئی روک ٹوک نہ ہو، اداروں کی سربراہی کے لئے واک لگ رہے ہوں۔ انتظامی سربراہوں کو ادائگی سے دس گنا زیادہ رقم نکالنی ہو، ظاہر ہے کہ پھر یہی نتیجہ نکلے گا۔ ا صورتحال میں بیس کروڑ روپے کی کرپشن معمولی بات ہے۔ اداروں کے سربراہ سیاسی اور انتظامی پشت پناہی پر پورے کے پورے پروجیکٹ نگل جاتے ہیں۔ اسیے پروجیکٹس کا نام و نشان صرف کاغذوں میں ہی ملتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment