March 9 2018
سندھ نامہ سہیل سانگی
خواتین کا عالمی دن اور سندھ کی عورت
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سندھ کی اس نصف آبادی کا دن ہے جس کے غم و الم کی رات ابھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ جو کہ مشقت کے چکی میں پستے ہوئے قید بامشقت کی سزا بھگت رہی ہیں ۔ جس کے خون سے ان کے شوہر اپنی مونچھ کو سبز کرتے ہیں، جس کے بدن سے اپنی کلہاڑیوں کا زنگ اتارتے ہیں۔ آج کے سندھ کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہی پہچان بن کر رہ گئی ہے۔ ایک سندھ وہ تھی جب خواتین کو امان میں لیا جاتا تھا، اور جب خواتین چل کر آتی تھیں تو خون معاف کردیئے جاتے تھے۔ یہ روایت صحیح تھی یا غلط اس پر یہاں بحث نہیں کرتے، یہاں پر عورت کی توقیر اور احترام کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ باقی مجرموں کو جرم کی سزا سے بچنے کے لئے لڑکیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کسی تشریح اور تاویل کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ ہم خود کو موہن جو دڑو کی تہذیب کے وارث تو کہلواتے ہیں لیکن عورت دشمن رویے میں ہم ارتقا کے ادنیٰ مرحلے پر کسی غیر مةذب قبیلے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی سندھ ہے جس کو عظیم شاعر کی شاعری کی سورمی خواتین تھی۔ اگر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے ان سورمیوں کو نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔
موجودہ سندھ ماضی کی سندھ سے بہت مختلف ہے۔ یہ وہ سندھ نہیں جس میں مرد لجپال ہوتے تھے۔ آج وہ سندھ ہے جس میں بھوتار جرگوں میں بیٹھ کر عورت کی عصمت اور عزت کی قیمت طے کرتے ہیں۔ آج کی سندھ میں حقوق تو دور کی بات عورت کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ سندھ کی عورت آج بھی لگتا ہے کہ عرب کے دور جہالت میں زندہ ہے۔ سندھ کی اکثر خواتین یوں سمجھیں کہ سانس بھی مرد کی مرضی سے لیتی ہیں۔ وہ جب بھی چاہیں اکی سانس کی تار توڑ سکتے ہیں۔ عورت کی اس ابرت حالت کا سبب شعور کی کمی ہے۔ شعور کا تعلق تعلیم سے ہے۔ یہاں لڑکیوں کے اسکول بند ہیں لاکھوں بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ان بچیوں کے پاﺅں میں روایات کے زنجیر ڈال کر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ شعور کا دوسرا برا ذریعہ ماضی میں نظریاتی سیاست تھی۔ اب نظریاتی سیاست کرنے والی نسل ہی نایاب ہو گئی ہے۔ ان تنظیموں میں بچیوں کی تربیت ہوتی تھی۔ اب سندھ کا سماج ڈٰ پولیٹیسایئیز ہو گیا ہے۔ کہنے کو سیاسی جماعتوں کی خواتین تنظیمیں موجود ہیں لیکن عملا یہ صرف نام کی ہیں۔ ان ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے نہ خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش لی جاتی ہے۔
سندھ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ اگرچہ حکمرانوں نے خود کو دنیا میں روشن خیال کلہالنے کے لئے خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی کر رکھی ہے، لیکن ان قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی عورت کے حالات تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ سندھ میں کواتین کی سب سے زیادہ تذلیل جرگوں میں ہوتی ہے۔ اگرچہ سندھ ہائی کورٹ نے 2004 میں جرگہ منعقد کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ لیکن حکومت اس عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کے لئے تیار نہیں۔
انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لئے مطلوبہ پانی
انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لئے مطلوبہ پانی
روزنامہ سندھ ایکسپریس انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لئے مطلوبہ پانی کی فراہمی کی ضرورت کے عنوان سے لکھتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا سے متعلق حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1833 سے لیکر آج تک ڈیلٹا میں 93 فیصد کمی آئی ہے۔ 1833 میں انڈس ڈیلٹا کا علاقہ 12900 کلومیٹر تھا لیکن دریائی بہاﺅ میں تبدیلیوں، پانی کی قلت اور انسانی مداخلت کے باعث اب یہ ڈیلٹا صرف ایک ہزار کلومیٹر رہ گیا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا معاملہ جتنا سنگین ہے اتنا ہی ہر دور میں حکمرانوں نے اسے نظر انداز کیا ہے۔ دریائے سندھ میں کئی دہائیوں سے ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی رلیز نہ کرنے کے نتیجے میں انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر ہے۔ ڈیلٹا کے ساتھ صندھ کے دو اضلاع ٹھٹہ اور بدین تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہزارہا ایکڑ زرعی زمین نمکین پانی کی زد میں آچکی ہے۔ جس پر اب کاشت کرنا ناممکن ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے، تو دوسری طرف پنجاب اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے کہ کوٹری سے نیچے جو بھی پانی جاتا ہے وہ ضیاع ہے۔ پنجاب عالمی اداروں کی روپرٹس کے بعد بھی یہ حقیقت ماننے کے لئے تیار نہیں۔ 1990 کے معاہدے کے تحت ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی رلیز کرنا تھا وہ نہیں دیا جارہا ہے۔ ارسا کے حالیہ اجلاسوں اس بات کا ثبوت ہیں۔ دوسری جانب چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند کینا میں زبدو ¿ردستی پانی دیا جارہا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی تباہی کے نتیجے میں سندھ کے جنوب میں ساحلی پٹی سمندر کی وجہ سے زیر آب آرہی ہے۔ ڈیلٹا کی موجودگی سے سمندر کے آگے جو قدرتی بند تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ جس کے بعد ساحلی پٹی میں ہر وقت سمندری طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کا ڈیلٹا بھی اس ملک کا حصہ ہے۔ اس کی تباہی سے انسانی آبادی معاشی کواہ سماجی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈیلٹا کے لئے مطلوبہ پانی جس کا پانی کے معاہدے میں وعدہ کیا ہوا ہے و اس حصے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
روز نامہ عبرت بچوں میں پھیلنے والے امراض کے حوالے سے لکھتا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں سے بچوں میں مختلف امراض کے پھیلنے کی خبریں آرہی ہیں۔ انتظامیہ کی لاپروائی اور کوتاہی کی وجہ سے خسرے میں مبتلا کئی بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل نوابشاہ میں غلط انجیکشن لگانے کی وجہ سے بچوں کی اموات کی خبر یقینن اچونکا دینے والی تھی۔ مختلف اضلاع میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ابتدائی سال صحت کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔ حکومت علاج معالجے اور ادویات کے لئے ایک بڑی رقم مختص کرتی ہے۔ لیکن جب اس طرح کے واقعات رپورٹ ہونے لگتے ہیں تو یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر یہ رقومات اور یہ ادویات کہاں گئی؟ ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ بعض اضلاع میں غیر استعمال شدہ ادویات خراب ہونے کے بعد پھینک دی گئی۔ یعنی محکمہ صحت اور اس کے اہلکار یہ ادویات استعمال کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بلکہ ان کے استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے۔
No comments:
Post a Comment