سندھ میں تعلیمی پالیسی سے سندھی زبان کو درپیش مسائل
سندھ نامہ سہیل سانگی
”سندھ کی تعلیم کے لرزہ خیز منظر“ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ترقی، خوشحالی اور گڈ گورننس کے حوالے سے دنھ حکومت کا دعوﺅں پر زور ہے۔ اگر حالات کی کوئی حقیقی معنوں میں نقاب کشائی کرتا ہے ، تو حکمران تردیدوں کے طوفان بپا کر دیتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی خود حکومتی اداروں کی روپرٹس، سرکاری دعﺅں کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ سرکاری ادارے ریفارمز سوپورٹ یونٹ نے 2017 کی تعلیمی مصورتحال پر مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں صوبے کے اندر 3172 اسکول بند ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کاہ گیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں 42 لاکھ اور نجی اسکولوں میں پونے 33 لاکھ بچے زری تعلیم ہیں۔ سندھی میڈیم اسکولوں میں سے 90 فیصد دیہی علاقوں میں ہیں، جبکہ دس فیصد شہری علاقوں میں ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوبے میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ لڑکے اور لڑکیاں مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں، سیکریٹری تعلیم کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے۔
قوم کے مستقبل پر سرمایہ کاری تعلیم کی صورت میں کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سرمایہ کاری تکنی اور کس طرح سے کی ہوئی ہے ؟ اس کا اندازہ وقت بوقت آنے والی رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔ چلیں نجی یا نیم سرکاری اداروں کی رپورٹس جمہوریت کے خلاف سازش ہونگی۔ لیکن سرکاری ادارے وہ بھی محکمہ تعلیم کے ماتحت ادارے کی رپورٹ کو کس طرح سے جھٹلایا جاسکتا ہے؟ سندھ میں منصوبہ بندی کے تحت تعلیم کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اسکول بند ہیں۔ سہولیات کی کمی ہے ہزاروں اساتذہ ” ویزے“ پر گئے ہوئے ہیں۔ باقی جو موجود ہیں وہ پڑھانے کے لئے تیار نہیں۔اور جو پڑھاتے ہیں ان کو پڑھانا نہیں آتا۔ اس سے زیادہ سندھ کی تعلیم کے ساتھ ناانصافی کیا ہو سکتی ہے؟ سیکریٹری تعلیم فرماتے ہیں کہ لوگوں کا نجی تعلیمی اداروں کی طرف رجحان بڑھا ہے۔ یہ رجحان کیوں بڑھا ہے؟ اس سوال کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نجی اسکولں کی طرف رجحان بڑھنے کی وجہ یہ نہیں کہ ان اسکولوں کا معیار اچھا ہے بلکہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار بالکل ہی خراب ہے۔
سرکاری شعبے میں تعلیم کی صورتحال راتوں رات خراب نہیں ہوئی۔ اس کو منصوبہ کے تحت خراب کیا گیا۔ یہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ نجی شعبے کو منافع خوری کے مواقع مل سکیں۔ سرکاری شعبے میں جو اسکول بچے ہیں ان سے ”نجات‘ حاصل کرنے کی جستجو جاری ہے۔ اچھی تعداد میں سرکاری اسکول این جی اوز کے حوالے کئے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسکول چلانے کی سرکاری منتظمین میں اہلیت نہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں۔ البتہ خلوص کی کمی ہے جس کا ہم اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ نجی اسکلوں کی تعداد بھی سرکاری اسکولں کے برابر ہونے والی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی، نجی اسکولوں کی تعداد سرکاری اسکلوں سے زیادہ ہو جائے گی۔
شہروں میں سندھی میڈیم اسکول ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی تعداد مذکورہ رپورٹ کے مطابق 10 فیصد ہے۔ نجی اسکولوں میں سندھی بطور لازمی مضمون کے پڑھایا نہیں جاتا۔ اس صورتحال میں جو نئی نسل پروان چڑھے گی اسکو سندھی لکھنا اور پڑھنا نہیں آئے گی۔ ایسے میں سندھی زبان کی کیا صورتحال بنے گی؟ اس کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ سندھ کی ادبی تنظیموں، ادب اور زبان کے باختیار اداروں میں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔ سرکاری اقدامات سے سندھی زبان کے خاتمے کے بندوبست ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کی تباہی کی وجہ سے جو لوگ خرچ برداشت کر سکتے یں وہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیج رہے ہیں جہاں سندھی نہیں پڑھائی جاتی۔ جو خرچ انہیں اٹھا سکتے وہ بچوں کو مدرسوں میں بھیج رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں تعلیم کے بارے میں یہ رپورٹ، سرکاری کارکردگی، گڈ گورننس اور دعوﺅں پر ایک طنز ہے۔
سندھ میں سرکای شعبے کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے العانات سے آگے نکل کر عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی فوری توجہ کا طلبگار ہے کہ سرکاری شعبے کی تعلیم کی تباہی کس طرح سے سندھی زبان کے خاتمے کا باعث بن رہی ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ میں بڑھتی ہوئی پولیس گردی کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہر ملک میں پولیس کی ذمہ داری لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لوگوں کو بھی یہی امید ہے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں وہ پولیس کے پاس فریاد لے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لوگ جب اپنا مسئلہ پولیس کے پاس لے جاتے ہیں تو وہ خود پھنس جاتے ہیں۔ بعد میں اس کا اپنا مسئلہ تو حل نہیں ہوتا ،س کے لئے پولیس کے پیدا کردہ مسائل سے جان چھڑانا ا مشکل ہو جاتا ہے۔ جعلی مقابلوں سے لیکر عام لوگوں کو تنگ اور پریشان کرنا پولیس کے اولین فرائض میں شامل ہو گیا ہے۔ تازہ مثال کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہے جس کو جعلی مقابلے میں پولیس نے قتل کردیا۔ اور واقعہ میں مبینہ طور ملوث ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ سندھ میں محکمہ پولیس کی کارکردگی ہے ہر ایک آگاہ ہے۔ گاﺅن پر چھاپے اور حملے سے لیکر بے گناہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ س کو پولیس احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں پولیس گردی کی خبریں آئے دن میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
گزشتہ روز دادو ضلع کے فریدآباد میں لوگوں نے ایس ایچ او کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ فرید آباد کے رہائشیوں نے ایک لڑکی کی بازیابی کے لئے دونوں فریقین سے پیسے بٹورنے کا الزام لگایا۔ گاﺅں عرضی بھٹو میں پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا اور 60 مویشی لے گئی۔ تھرپارکر کے شہر مٹھی میں قتل ہونے والے دو بھائیوں کے ملزمان تاحال پولیس گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ میہڑ میں پولیس اہلکاروں نے دکانداروں سے پیسے چھننے کے بعد انہیں دھمکیاں بھی دی۔ اس طرح کے زبردستی اور سینہ زوری کے واقعات سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال بگاڑ کا شکار ہورہی۔ دوسری جانب لوگوں کا پولیس پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ پولیس میں مجموعی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن جب تک اصلاحات ہوں تب تک انتظامی حوالے سے بعض چیزیں بہتر بنائی جاسکتی ہیں۔ محکمہ میں کئی ایسے اہلکار موجود ہیں جو اس اہم ادارے کی بدنامی اور ساکھ خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ سندھ پولیس کے سربراہ کو فوری اقداما لیتے ہوئے ان کالی بھیڑوں سے محکمے کو صاف کرنا پڑے گا تاکپ پولیس گردی کے واقعات نہ ہوں۔
No comments:
Post a Comment