Monday, March 26, 2018

سندھ نامہ: محکمہ پولیس یا ڈیل ڈپارٹمنٹ Feb 24

غوا انڈسٹری پھرسرگرم 
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”محکمہ پولیس یا ڈیل ڈپارٹمنٹ“ کے عنوان سے رووزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں کچھ عرصے کے سکون کے بعد ایک بار پھر اغوا انڈسٹری سرگرم ہو گئی ہے۔ گھروں، گلیوں اور سڑکوں سے لوگ اغوا ہپونے لگے ہیں۔ ایسی ہی ایک واردات شکارپور ضلع کے خانپور علاقے سے رپورٹ ہوئی ہے۔ پارکو لنک روڈ پر مسلح افراد نے پانچ لوگوں کو اغوا کرلیا۔ جن میں سے دو افراد مسلح افراد کی گرفت سے نکل کر واپس گھر پہنچے۔ واردات کے دو روز گزرنے کے بعد بھی شکارپور پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکی ہے۔ روایتی پکڑ دھکڑ اور بازیابی کا منافع بخش کاروبار شروع ہو چکا ہے۔ پولیس نے ایک روز قبل تین خواتین سمیت 9 افراد کی گرفتاری طاہر نہیں کی ہے۔ پولیس مغویوں کی رہائی کے لئے باثرافراد پنچائتی طریقہ کار اپنایا ہے۔ پولیس چاہتی ہے کہ اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل ہو جائے، تاکہ پولیس کا کام آسان ہو۔ ویسے تو ملک بھر میں جمہوریت ہے لیکن سندھ میں یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ جمہوریت کا مطلب ”آزادی“ سمجھتے ہوئے ، اس آزادی کا فائدہ جو ڈاکوﺅں اور امن دشمن عناصر نے اٹھایا ہے جس سے سندھ کا امن اور سکون تباہ ہو گیا ہے۔ اس صوبے میں امن و مان انتظامی ایجنڈا پر نہیں رہا۔ قانون کی عملداری اور بالادستی دور کی بات سندھ میں قانون اپنے وجود وجود کی بھی گواہی نہیں دے پا رہا ہے۔ یہ امر صرف مفروضہ نہیں۔ سندھ کے اخبارات سے امن و امان کا پتہ چل جاتا ہے۔ صرف خانپور کے قریب اغوا ہونے والے ہی یرغمال نہیں، صوبے میں کئی اور افراد بھی اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ فضیلا سرکی کے اغوا کو ڈیڑھ عشرہ ہو چکا ہے۔ یہ لڑکی تا حال اغواکاروں کی گرفت میں ہے۔ شاید سندھ کے منتظمین اور پولیس سربراہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچی ان کے دور میں اغوا نہیں ہوئی، لہٰذا ان کو بازیاب کرانا ان کی ذمہ داری نہیں۔ ایسا ہی معاملہ عمران جوکھیو کا کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مغوی ہی ڈاکوﺅں کے پاس یرغمال نہیں بلکہ ریاستی قانون بھی اغواکاوں اور امن دشمنوں کے پاس یرغمال ہے۔ یہی وجہ ہے اغوا کی وارداتیں دیدہ دلیری کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں۔ کیا کیا جائے سندھ کے نتظمین کہتے ہیں کہ صوبے میں قانون کی بالادستی ہے۔ 
 خانپور کے قریب اغوا ہونے والوں سے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ پولیس ان کی بازیابی کے لئے ”راجونی“ یعنی پنچائت کے ذریعے کوششیں لے رہی ہے۔ ایسی کیا بات ہے کہ اغوکاروں تک پہنچنے اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے میں پولیس کے پر جلنے لگتے ہیں؟ راجونی کوششوں کا یہ مطلب ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔ دراصل پولیس کا یہ پرانا طریقہ’ ’واردات“ ہے کہ جیسے ہی واردات ہوتی ہے، پولیس اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے۔ جب پولیس اغواکاروں کو گرفتار کنے کے بجائے ڈٰل کے لئے سرگرم ہو جائے ، تب ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس نہیں یہ ڈیل ڈپارٹمنٹ ہے۔ کیا پولیس کا یہی کام ہے؟ سندھ میں جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مجرموں کے اس کام میں قانون مداخلت نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی منتظمین کہتے ہیں کہ سندھ میں قانون کی حکمرانی ہے۔ جرم پروان ہی تب چڑھتا ہے جب اس کو کوئی چھتری مہیا ہوتی ہے۔ اغواکار اور امن کے دشمن لاوارث نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ان کو ذرا بھی تکلیف نہیں دینا چاہتی اور ڈیل کرانے شروع ہو جاتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ منتظمیں امن و امان کو ایجنڈا کا حصہ بنائیں، اور ڈیل کرانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر کے یرغمالیوں کو بازیاب کرائیں۔
سرکاری فنڈز میں گڑبڑ 
 سرکاری فنڈز میں گڑبڑ اور احتساب کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں سرکاری سطح پر جاری ہونے والے فنڈز کا استعمال کس طرح سے ہوتا ہے اس کا اندازہ صوبے میں شہری خواہ دیہی ترقی سے لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ سرکاری اداروں کی ھالت سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر ان فنڈز کا استعمال نظر کیوں نہیں آتا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن جامشورو سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ ” سرکاری فنڈ جاری ہونے کے بعد گم ہو جاتے ہیں“۔ سرکاری سطح پر جو فنڈز جاری ہوتے ہیں وہ واقعی عوام کے بھلے کے لئے استعمال ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ کرپشن اور مال کٹھا کرنے کی ہوس اور رویے کے باعث ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان فنڈز کا استعمال وزیروں اور مشیروں کی ترقی پر ہو رہا ہے۔ اگر منتخب نمائندے ان فنڈز کا منصفانہ استعمال کریں تو عوام کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 
آج کئی منتخب نمائندے کرپشن کے الزام میں عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہاں انکو سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اظہار ہے کہ واقعی جاری ہونے والے فنڈز گم ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ سرکاری سطح پر فنڈز خردبرد کرنے میں ملوث ہیں ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایک ایسی مکینزم مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ فنڈز غائب نہ ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام پر ہی خرچ ہوں۔ 
 ملک میں پانی کی شدید قلت کا خدشہ اور سندھ کے تحفظات کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اطلاعات کے مطابق ڈیموں میں باقی صرف دو ہفتے کا پانی ہے۔ جس کے بعد صرف پینے کے لئے مطلوبہ پانی ہوگا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں اراکین نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کئے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ سندھ کا یہ المیہ ہے کہ یہاں پر لوگ پانی کے قطرے کے لئے ترستے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پانی کے لئے نہ ختم ہونے والی جگیں ہونے لگیں گی۔ ارسا نے پانی میں سندھ کا حصہ پچاس فیصد تک کم کردیا ہے۔ سندھ کے احتجاج پر یہ عذر پیش کیا گیا کہ ملک میں پانی مجموعی طور پر کمی ہے ، اور اس قلت کو برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے گا۔ بلکہ ارسا نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سندھ کو قلت کے باوجود زیادہ پانی دیا جائے گا۔ یہ سب وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آج سندھ کی زمینیں سوکھ رہی ہیں۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھ رہے کہ پنجاب سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں کاشتکاروں نے پانی کی قلت کے خلاف اس طرح سے احتجاج نہیں کیا جس طرح سے سندھ میں ہوتا رہتا ہے۔ افسوس یہ کہ وفاقی حکومت پانی کا معاملہ منصفانہ طور پر حل کرنے کے بجائے جانب دارانہ رویہ رکھے ہوئے ہے۔ وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ پانی کی قلت کو منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے اور سندھ میں پانی کی رسد کو یقینی بنایا جائے۔ 
 Feb 24

No comments:

Post a Comment