Feb 10
سندھ نامہ سہیل سانگی
سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر صوبے میں بعض سیاسی حقائق سامنے آئے ہیں۔ اول یہ کہ ایم کیو ایم میں مزید دھڑے بندی سامنے آئی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان ککے اندر بھی دو گروپ پ بن گئے ہیں ایک کی قیادت فاروق ستار کر رہے ہیں جب کہ دوسرے گروپ کی عامر خان کر رہے ہیں ۔ اس رجحان پر سندھی میڈیا میں اداریے ، کالم اور تبصرے شایع ہوئے ہیں۔ ان اداریوں اور کالموں میں اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دراصل ایم کیو ایم کو لندن کی گرفت سے زبردستی آزاد کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اب اس جماعت کو ٹکڑے بخیرے ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ دوسرا ارجحان یہ سامنے آیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ کے لئے جن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دی ہے اس کے بعد صوبے سے منتخب ہونے والے سینیٹرز میں غیر سندھی بولنے والوں کی تعداد بڑھ کر 17 ہو جائے گی۔ ان دونوں رجحانات کو سیاسی پنڈت بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔
پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ
پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ
پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ کشیدگی کا باعث رہا ہے۔ اس مسئلے کی حساسیت سندھ میں زیادہ رہی ہے کیونکہ موجودہ پاکستان میں شامل وحدتوں کی زبانوں میں سے سندھی واحد زبان ہے جس کی کئی صدیوں سے رسم الخط ہے اور اس کا ابد تحریری شکل میں موجود ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اس زبان کو واحد سرکاری زبان کے طور پر حیثیت حاصل تھی۔ لیکن بعد میں یہ حیثیت تبدیل ہوگئی۔ چند ماہ قبل سینیٹ میں وحدتوں کی زبانوں کو قومی زبن دینے کا بل پیش کیا گیا۔ جسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیا گیا جس نے اس بل کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ اب اس بل کی حیثیت تبدیل کی جارہی ہے۔ اس موضوع پر سندھ کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں اور کمیٹی کے چیئرمین کے دوبارہ ووٹنگ کے فیصؒے کو غلط اور نامناسب قرار دیا ہے۔
روزنامہ کاوش ”قومی زبانوں کو جائز رتبہ دینے کی راہ میں رکاوٹیں “کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سندھی ، پنجابی، بلوچی اور پشتو زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے سے متعلق پیپلزپارٹی کے سینیٹر عاجز دھامراہ اور سسئی پلیجو کی آئین کے آرٹیکل 28 میں ترمیم کے لئے منظور شدہ بل دوبارہ کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی کی جانب سے دوبارہ کمیٹی میں پیش کرنے پیپلزپارٹی کے سینیٹر عاجز دھامراہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک مرتبہ کمیٹی نے بل منظور کرلیا ہے ، اب اس بل کو سینیٹ کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس کمیٹی کے چیئرمین نے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس بل پر دوبارہ ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا میں زبانوں کو ترقی دلانے کے عمل کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور اس ھوالے سے آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس زبانوں کو ان کا جائز حق دینے اور انہیں قومی زبان کا درجہ دینے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے برطانوی دور میں سندھی صوبے کی واحد سرکاری زبان تھی۔ لیکن بعد میں یہ زبان اپنی حیثیت کھو بیٹھی۔ بنگالی زبان کو بھی اس کا جائز مقام دینے سے انکار کیا گیا، بنگالیوں نے ایک بڑی تحریک چلا کر بنگالی زبان کا جائز مقم تسلیم کروالیا۔ ان کے 21 فروری 1952 کی قربانی کی یاد میں یونیسکو کی جانب سے 21فروری کو قومی زبناوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
یہاں واضھ کرتے چلیں کہ مذکورہ بل ایوان بالا کی کمیٹی نے چھ ماہ قبل متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس امر پر خوشی کا اظہار کیا یگا کہ اب اس بل کی سینیٹ میں منظوری کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ چونکہ یہ آئینی ترمیم تھی لہٰذاسینیٹ میں پیش ہونے کے بعد اس بل کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت درکار تھی۔ دوسرے مرحلے میں اس بل کو قومی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جانا تھا۔
یہ بل پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، لیکن کمیٹی نے اس کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے زیادہ سنجیدگی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اس بل میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کمیٹی کے رکن فاروق اے نائیک نے بل میں ترمیم کراتے ہوئے اردو کو قومی زبان کو باقی زبانوں کو صوبائی زبان قرار دینے کی بات کی۔ آئندہ اجلاس میں کمیٹی نے فاروق نائیک کی رائے لینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ آئندہ اجلاس سے پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت سے اس بل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور فاروق نائیک کی تجویز واپس لینے سے متعلق پوچھا جانا چاہئے۔ اور انہوں نے اگر یہ تجویز پیش کی ہے تو اس کو واپس لینے کا پابند کیا جانا چاہئے۔
کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے زبانوں کو قومی درجہ دینے پر رکاوٹیں ڈالنے کا رویہ کسی طور پر س مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ منظور شدہ بل پر دوبارہ ووٹنگ کرانا سمجھ سے بالاتر اور غیر منقطی عمل ہے۔
اس موقعہ پر ہم یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ سندھی زبان کے بارے میں اسکو صوبے کے اندر بھی زیادہ سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ آج حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے نجی اسکولوں میں سندھی کو بطور لازمی مضمون کے نافذ کرنے اور اس پر موثر طریقے سے عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیمی معیار کے گرنے کی وجہ سے نجی اسکولوں میں داخلے کا رجحان بڑھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے طاروں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے۔ پیپلزپارٹی نے یہ بل پیش کیا ہے اب اس کے آگے کے مراحل میں بھی پارٹی کو اتنی ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
روزنامہ عبرت نے خیبر پختونخوا کی ایک ینیورسٹی میں توہین مذہب کا جھوٹا لازام لگا کر ایک طالب علم مشعال کو قتل کے ملزمان کو سزا دینے کو قابل تحسین قرار دیا ہے ۔ اکحبار لکھتا ہے کہ کراچی میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے جعملی مقابلے میں قتل کے بعد ایک ملزم سابق ایس ایس پی راﺅ انوار کے دربدر ہونے کی خبریں عام ہیں ۔ یہ سب کچھ عوامی بیداری کانتیجہ ہے۔ اگر لوگ ان واقعات کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ، تو شاید ماضی کے اس طرح کے واقعات کی طرح یہ دو واقعات بھی دفن ہو جاتے۔ اب کوئی بھی شخص اس طرح کی غلطی کرنے سے پہلے پہلے انجام کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ دوسرا یہ کہ جھوٹا الزام لگانا پھر یہ الزام دہشگردی کا ہو یا توہین مذہب کا اس کا آخر یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment